سرکاری تحویل سے واپس ہوئے مشنری سکولوں کی حالت


عاطف جمیل پگان
————————————–

سات اکتوبر دو ہزار بیس کو سوشل میڈیا مین ایک تصویر دیکھی جس میں پنجاب کے صوبائی وزیر اقلیتی امور جناب اعجاز عالم آگسٹین اور کیتھولک آرچ بشپ جناب سبیسٹین شاہ، وزیر تعلیم پنجاب کے ساتھ بھٹو دور میں حکومتی تحویل میں لیے گئے چرچ کے سکولوں کی واپسی کے حوالے ں سے حکمت عملی پر غور کر رہے تھے،

سال 2001 میں سپریم کورٹ نے ایک فیصلے کے ذریعے بھٹو دور میں قومیائے گئے تعلیمی ادارے ان کی انتظامیہ کو واپس کرنے کا حکم دیا، جو۔ تعلیمی ادارے قومیائے گئے وہ نہ صرف محتلف چرچز کے زیر انتظام چل رہے تھے بلکہ بہت سے ایسے تعلیمی ادارے بھی تھے جومحتلف انجمنوں کے زیر انتظام چل رہے تھے۔ تعلیمی اداروں کی واپسی کے فیصلے کو مسیحی برادری اپنے دیرینہ مطالبے کی تکمیل سمجھتی ہے اور اس۔ حوالے سے جناب اعچاز عالم آگسٹین کا کردار قابل تحسین ہے،

تا ہم اس معاملے کا ایک اور پہلو بھی ہے، سپریم کورٹ کا فیصلہ آنے کے بعد بہت سرگرمی سے تعلیمی اداروں کی واپسی کا عمل شروع ہوا، دو دہائیوں تک یہ تعلیمی ادارے سرکاری حیثیت میں چلتے رہے، ان اداروں میں مشہور اور معروفدرسگاہ ایف سی کالج بھی شامل ہے، ایف سی کالج تو چرچ کی تحویل میں آ نے کے بعد ایک معیاری تعلیمی ادارے کے طور پرابھرا، تا ہم جو سکول کیتھولک چرچ انتظامیہ نے اپنی تحویل میں واپس لیے، ان کی حالت اب بہت خراب ہے، اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ سرکاری سکولوں میں واجبی فیس وصول کی جاتی ہے، لیکن چرچ انتظامیہ کے تحت واپس آنے کے بعد نئی انتظامیہ نے سکول کے اخراجات پورے کرنے کے لیے فیس بڑھا دی، سرکاری سکولوں میں عام طور پر وہی بچے پڑھتے ہیں جن کے والدین فیس ادا نہیں کر سکتے، سکول کی فیس بڑھنے کی وجہ سے والدین نے اپنے بچوں کو دوسرے قریبی سرکاری سکول میں داخل کروا دیا۔ ایک اور بڑی وجہ گزرے برسوں میں اقلیتوں کے لیے بڑھتی ہوئی عدم برداشت بھی ہے، والدین نے چرچ انتظامیہ کے پاس سکول واپس آنے کے بعد یہ سوچ کر بچوں کے سکول تبدیل کر دیے کہ سکول کا ماحول ان کے بچوں کی تربیت کے لیے ٹھیک نہیں ہو گا،

دو دہائیوں کے عرصے میں چرچ کے حالات بھی کافی تبدیل ہو چکے ہیں، اور واپس ہوئے سکولوں کی حالت دیکھ کر یہ ثابت ہوتا ہے کہ چرچ انتظامیہ سکولوں کے معاملات کو صحیح طرح نہیں چلا سکی، نہ ہی انتظامی معاملات قابو میں آئے اور نہ قابل اور کوالیفائیڈ اساتذہ دستاب ہوئے، جن سکولوں میں سرکاری تحویل میں تعداد ہزاروں میں تھی اب وہاں چند سو بچے بھی نہین ہیں، اتن بڑی بڑی بلڈنگز ہیں لیکن ان کی مرمت کے لیے فنڈز دستیاب نہیں ہیں،

اب اگر کیتھولک چرچ، باقی سکولوں کی واپسی کا خواہاں ہے تو اس کے لیے ایک مربوط تعلیمی پالیسی کی ضرورت ہے یا پھر ان انجمنوں والی پالیسی ٹھیک ہے جن کے سکول نیشلائز ہوئے لیکن واپسی کا فیصلہ ہوا تو انہوں نے واپسی میں کوئی دلچسپی نہیں دکھائی ویسے اس عرصے میں کچھ انجمنیں تو ویسے ہی ختم ہو چکی تھیں۔

اس مربوط پالیسی کے چند نکات یہ ہو سکتے ہیں، واپس ہونے والے سکولوں کو چلانے کے لیے قابل اور پروفیشنل لوگوں پر مشتمل بورڈ تشکیل دیے جائیں۔ یہ بورڈ سکول کی تعلیمی استعداد بڑھانے کے ساتھ ساتھ اس کے مالی معاملات کا بھی ذمہ دار ہو، نہ صرف پہلے سے اعلئی تعلیم یافتہ اور تجربہ کار اساتذہ پر بھروسا کیا جائے بلکہ ساتھ ساتھ ان کی تربیت کا عمل بھی جاری رہے، ان میں سے اکثر سکول ایسی لوکیشن پر ہیں کہ با آسانی وہ اچھے معیار کے سکول بن کر اچھی فیس وصول کر سکتے ہیں، اس مربوط پالیسی میں اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ ہر سکول کی لوکیشن، حالات اور بلڈنگ کے مطابق مقامی ہالیسی بھی بنائی جا سکے،

چرچ کے تعلیمی اداروں کا واپس چرچ کی تحویل میں آنا بہت خوش آئند ہے تا ہم ان اداروں کو خوش اسلوبی سے چلانا بھی بہت ضروری ہے۔

————–

عاطف جمیل پگان
—–from—humsub—-pages