مال، منصب اور مکروہ ماحول

موٹا دماغ، موٹی کھال اور اوپر بے حسی کی موٹی تہہ موجودہ حالات میں قدرت کا عظیم ترین تحفہ ہے ورنہ کچھ لوگ یہ تک سوچنے پر مجبور ہیں کہ خودکشی حرام نہ ہوتی تو زندگی آرام سے ’’کاٹی‘‘ جا سکتی تھی۔ بے شمار لوگ نیم دیوانگی میں مبتلا کہ بنیادی ضرورتوں کے لئے بھی کچھ نہیں، کچھ اس لئے پاگل کہ ضرورتوں سے بہت زیادہ نے، ہوس نے حواس چھین لئے۔ مزید درمزید کہ کوڑھ سے بدتر مرض میں مبتلا دن رات بولائے پھرتے ہیں۔ قناعت کی جگہ وحشت طاری ہے، بے شرمی کے سیلاب نے شانتی نگل لی۔

ہر طرف افراتفری، بے چینی، بے سکونی، غصہ، نفرت، انتقام، پورا معاشرہ بزکشی کا میدان۔ پالنے میں ہمکتے بچے بھی درندگی سے محفوظ نہیں۔مال اور منصب کے لئے تمام تر حدود کی پامالی اور قدم قدم پر پی آر کا 104 بخار۔ مجال ہے جو کسی کے پاس کھلتے پھول اور ٹوٹتے ستارے سراہنے کا وقت ہو۔ کولہو کے بیلوں سے بدتر کہ یہ بیل چلتے بہت تھے لیکن رفتار نارمل ہوتی تھی۔

یہ تو صبح، دوپہر، شام تین شفٹوں میں بھاگ رہے ہیں اور نتیجہ؟ یہ زرعی معاشرہ ہے نہ پری انڈسٹریل، نہ انڈسٹریل نہ پوسٹ انڈسٹریل لیکن ہر قسم کے معاشرہ کی مکروہات کا مجموعہ، تو دھیان ان لوگوں کی طرف جاتا ہے جن کا سوچ کر یقین نہیں آتاکہ ایسے بھی ہماری تاریخ میں کبھی موجود تھے۔کہتے سرکاری خزانے میں خیانت امام کی امامت کو باطل کردینے کے لئے کافی ہے۔

وہ اس کو بھی قطعاً ناجائز اور خیانت سمجھتے تھے کہ بیرونی ممالک سے جو ہدیے اور تحفے خلیفہ کے پاس آئیں ان کو وہ ذاتی مِلک بنا لے۔ ابوحنیفہؒ کے نزدیک یہ چیزیں سرکاری خزانہ کا حق تھیں نہ کہ خلیفہ اور اس کے خاندان کا۔ پھر جب خلیفہ المنصور نے جج کا عہدہ قبول نہ کرنے پر انہیں30کوڑے مارے اور پورا بدن لہولہان ہوگیا تو خلیفہ کے چچا عبدالصمد بن علی نے ملامت کی۔ خلیفہ منصور نے نادم ہو کر فی کوڑا ایک ہزار درہم کے حساب سے 30ہزار دہم امام کو بھجوائے تو آپ نے انکار کردیا۔ کہا گیا کہ لے کر خیرات کردیجئے تو فرمایا ’’ کیا ان کے پاس کوئی مال حلال بھی ہے؟‘‘

اسی کے قریب زمانہ میں جب دکھ، درد، تکلیفیں سہتے سہتے آخری وقت آن پہنچا تو وصیت فرمائی کہ بغداد کے اس حصہ میں انہیں دفن نہ کیا جائے جسے شہر بسانے کے لئے منصور نے لوگوں کی جائیدادیں زبردستی چھین لی تھیں۔ خلیفہ منصور نے یہ وصیت سنی تو چیخ کر بولا ….’’اے ابوحنیفہ! زندگی اور موت میں تیری پکڑ سے کون مجھے بچائے گا‘‘۔

بات چلی تھی سرکاری خزانے اور غیر ممالک سے ملنے والے بیش قیمت تحائف سے تو میں اپنے گریبان میں جھانکتا ہوں، اک عجیب منظر میرا منتظر ہے۔ زرداری صاحب جیسا فیوڈل، بے شمار شوگر ملز اور بے پناہ دولت کا مالک، کروڑوں کی گھڑی پہننے والا ’’پشتینی‘‘ کھرب پتی انقلابی نواز شریف، یوسف رضا گیلانی جیسا روحانی اور شوکت عزیز جیسا بینکر ’’اسلامی‘‘ …. ’’جمہوریہ‘‘ …. ’’پاکستان‘‘ کا توشہ خانہ لوٹ رہے ہیں۔

یہ بھی بہت عجیب ہیں اتنے عجیب ہیں کہ بسہم کو تباہ کردیا اور ملال بھی نہیںصرف اقتصادی طور پر ہی نہیں، اخلاقی طور پر بھی تباہ کردیئے کہ عوام اپنے حکمرانوں کا عکس ہوتے ہیں۔ المنصور کے حاجب ربیع بن یونس نے بتایا کہ خلیفہ المنصور نے امام مالکؒ، ابن ابی ذئب اور امام ابوحنیفہؒ کو بلایا اور ان سے کہا ’’یہ حکومت جو اللہ تعالیٰ نے اس امت میں مجھے عطا کی ہے، اس کے متعلق آپ لوگوں کا کیا خیال ہے؟ کیا میں اس کا اہل ہوں؟‘‘ امام مالک نے کہا ’’اگر آپ اس کے اہل نہ ہوتے تو اللہ اسے آپ کے سپرد نہ کرتا‘‘۔ابن ابی ذئب نے کہا ’’دنیا کی بادشاہی اللہ جس کو چاہے عطا کرتا ہے مگر آخرت کی بادشاہی اسی کو دیتا ہے جو اس کا طالب ہو اور جسے اللہ اس کی توفیق دے۔

اللہ کی توفیق آپ سے قریب ہوگی اگر آپ اس کی اطاعت کریں گے ورنہ اس کی نافرمانی کی صورت میں وہ آپ سے دور رہے گی۔ حقیقت یہ ہے کہ خلافت اہل تقویٰ کے اجتماع سے قائم ہوتی ہے اور جو خود اس پر قبضہ کرے، اس کے لئے کوئی تقویٰ نہیں ہے۔ آپ اور آپ کے مدد گار توفیق سے خارج اور حق سے منحرف ہیں‘‘۔امام ابوحنیفہؒ کہتے ہیں کہ جب ابن ابی ذئب یہ کہہ رہے تھے، میں نے اور مالک نے اپنے کپڑے سمیٹ لئے کہ شاید ابھی ان کی گردن اڑا دی جائے گی اور خون ہمارے کپڑوں پر پڑے گا۔

اس کے بعد منصور نے امام ابوحنیفہؒ سے پوچھا تو فرمایا ’’ اپنے دین کی خاطر راہ راست کا متلاشی غصہ سے دور رہتا ہے۔ آپ اپنے ضمیر کو ٹٹولیں کہ آپ نے ہم کو اللہ کی خاطر نہیں بلایا بلکہ آپ چاہتے ہیں کہ آپ کے خوف سے آپ کی مرضی کی بات کہیں اور وہ عوام کے علم میں آ جائے‘‘۔یہ باتیں کرکے تینوں اٹھ گئے۔ منصور نے ربیع کو تین توڑے درہموں کے دے کر بھیجا اور کہا کہ ’’مالک لے لیں تو ان کو دے دینا ۔ باقی قبول کریں تو ان کے سر اتار لانا‘‘۔

ابن ابی ذئب نے کہا ’’میں تو اسے منصور کے لئے بھی حلال نہیں سمجھتا، اپنے لئے کیسے سمجھ لوں‘‘۔ ابوحنیفہؒ بولے ’’جان دیدوں گا یہ مال نہیں لوں گا‘‘۔ مالکؒ نے قبول کرلئے۔المنصور نے یہ روداد سن کر کہا ’’اس بے نیازی نے دونوں کا خون بچا دیا‘‘ہمارے پاس کیا بچا ہے؟مال، منصب کی ہوس اور مکروہ ماحول

Courtesy jang