غدار، غدار کا کھیل شروع

امیر محمد خان

بدقسمتی سے پاکستان کے عوام کی قسمت میں مملکت کو ایک خوشگوار ملک دیکھنا نظر نہیں آتا ہے اسلام آباد کے میوزیکل چئیر میں ملوث کھلاڑیوں کے نزدیک ملکی کا استحکام سے زیادہ کرسی ہے جس وجہ سے یہ سیاست دان بلا تفریق ستر سالوں سے اس ملک کو دیمک کی طرح چاٹ رہے ہیں اور مخالفت میں ایک دوسرے کے خلاف کسی بھی الزام تراشی سے گریز نہیں کرتے ، ہر حکومت کے پاس جب اپنے مخالفین کو جواب دینے کیلئے کچھ پائیدار چیز نہیں ہوتی گو انکے مسخرے قسم کے ترجمان اپنی بیان بازیوں سے فضاء کو مزید مکدر کرتے ہیں اور مسخرے قسم کے ترجمان ہر حکومت کے پاس ہوتے ہیں، سیاست دان کرپشن کرتے ہیں یہ بھی ایک حقیقت ہے، مگر ثبوت حاصل کرکے انہیں سزا دینا یہ ہمارے سسٹم میں ممکن نہیں ہے، اسلئے ہر حکومت اپنے مخالفین کے خلاف سب سے پہلا حربہ کرپشن کا نعرہ لگانا ہوتا ہے، اگر حکومت کا الزام صحیح بھی ہے تو یہ آج تک کسی نے کسی پر ثابت نہیں کیا ، عام حساب کتاب لگا جائے تو ایک عام تھوڑے سے تعلیم یافتہ شخص کو بھی کرپشن کی سمجھ آجاتی ہے مگر عدالتوں میں بھاری فیسوں والے وکیل معاملے کو طول دیتے ہیں اس دوران حکومت تبدیل ہوجاتی ہے یا کہیں ”مک مکا“ ہوجاتا ہے اورکرپشن کی فائل بند ہوجاتی ہے، قانونی معاملات کچھ ایسے ہیں جن میں حکومتی بد نیتی کا بہت عمل ہوتا ہے کہ قانون بہ وقت ضرورت صرف مخالفین کیلئے،جبکہ عدالتوں کے باہر آنکھوں پر پٹی باندھے ہوئے کسی شخص کی ترازو ہاتھ میں لئے ہوئے تصویر ہوتی جو اس بات استعارہ ہے کہ قانون سب کیلئے برابر ہے اور انصاف صرف فہم و فراست وہ قانون کے مطابق کیا جاتا ہے کسی کی شکل دیکھ کر نہیں، مگر حقیقت کیا ہے حکومتی ناا ہلیوں اور سیاسی شعبدہ بازوں نے اس پر سے ایمان اٹھادیا ہے گو کہ اس میٰں قانون کا قصور نہیں سیاسی شعبدہ باز اس کے ذمہ دار ہیں، مثال کے طور پر مرحوم اسحاق خان کے دور میں پی پی پی کی حکومت کرپشن کے الزام میں برطرف ہوئی، سابقہ صدر آصف علی ذرداری MR . 10 % بین الاقوامی طور پر ٹہرائے گئے ، جیل بھی چلے گئے مگر ایک صبح پاکستان کے معصوم عوام کی گناہ گار آنکھوں نے دیکھا کہ جیل سے ایوان صدر لائے گئے، اور حلف برادری کی تقریب ہوئی انہیں وزیر بنا دیا گیا، مسائل کے بوجھ تلے دبے عوام معصوم عوام کو شائد یاد ہو اسوقت آصف علی ذرداری کا ایک تاریخی بیان تھا کہ میری جگہ یا جیل ہے یا ایوان صدر ، یہ پاکستان کے سسٹم پر انکا ایک تماچہ تھا یہ سلسلہ اس واقع سے پہلے بھی تھا اور آج بھی ہے ، تحریک انصاف کا بیانیہ حکومت میٰں آنے سے قبل انتخابی مہم سے لیکر آج تک مسند حکومت میں آکر بھی کرپشن سے پاک پاکستان کا نعرہ ہے مگر قانون!!! اور احتسابی ادارے خاص طور پر نیب کی کارکردگی پر اکثریت کو یہ اعتراض ہے کہ اسے وہی لو گ کیوں نظر آرہے ہیں جو حزب اختلاف میں ہیں؟؟ عوام کے اعتماد کو اسوقت بھی ٹھیس پہنچتی ہے جب کوئی بیان بازی کرتا ہے حکومت کے خلاف دوسرے دن اسکے خلاف تحقیقات کا سمن موصول ہوجاتا ہے اسے عوام کیا سمجھیں؟؟ اس بات سے کسی کو انکا رنہیں
کہ اگر جس نے بھی ملکی خزانے کو نقصان پہنچایا ہے وہ واقعی سخت سزاوں کا مستحق ہے مگر قانونی اداروں کو فرض ہے وہ بیان بازی سے گریز کرتے ہوئے آئینی ذمہ داریاں پوری کریں، سابقہ وزیر اعظم کا جب پہلا مقدمہ سابق چیف جسسٹس ثاقب نثار کی عدالت میں گیا تو انہوں نے مقدمے کی شائد فائل کھولنے سے قبل ہی انہیں ”مافیہ “ کا لقب دے دیا تھا اپنے ابتدائی ریمارکس میں، بلا آخر کیونکہ سزا تو طے تھی اسلئے انہیں کرپشن پر نہیں بلکہ ”اقامہ “ کا حامل ہونے پر نااہل قرار دے دیکرگھر بھیج دیا ۔ موجودہ وزیر اعظم عمران خان کی ذات کے حوالے سے پاکستانی عوام کی اکثیریت متفق ہے کہ وہ ملک کو کرپشن سے پاک کرنا چاہتے ہیں مگر اسکے لئے انکی ٹیم کے کسی بھی فرد کا ماضی کرپشن سے داغ دار نہ ہو، مجھے یاد ہے ایک دفعہ جدہ میں ہر حکومت اور ہر جماعت کے ”وزیر “شیخ رشید نے موجودہ وزارت میں رہتے ہوئے مجھ سے ایک موقع پر کہا تھاکہ تحریک انصاف میں

اسلئے شامل نہیں ہوتا کہ میں عمران خان کے ویژن کے ساتھ ہوں وہ ایماندار ہے مگر باقی دائیں، بائیں ٹبر تو ۔۔۔۔۔۔۔ آزمایا ہوا ہے۔ آج حکومت اوراپوزیشن کے مابین بلیم گیم، الزامات اور جوابی الزامات کا سلسلہ جاری ہے۔ یہ سلسلہ زور پکڑ گیا جب 11 جماعتی اتحاد کی باز گشت شروع ہوئی۔ 11 جماعتی اتحاد میں ایسی پارٹیاں بھی ہیں جن کی پارلیمنٹ کی نمائندگی ہی نہیں ہے وہ حکومت سے نجات کے لئے زیادہ پُرجوش ہیں اور خود پی ڈی ایم کے پہلے صدر مولانا فضل الرحمن طویل عرصہ بعد پہلی بارپارلیمنٹ میں نہیں جا سکے وہ ہر صورت حکومت کا خاتمہ چاہتے ہیں۔ حکومت کے خاتمے کے قانونی اور آئینی طریقے اختیار کرنے میں کسی کو اعتراض ہو گا نہ اس کا حرج ہے اور نہ ہی اس سے جمہوریت پر کوئی زد پڑے گی۔ ایک طرف حکومتی مشیران کی یہ گردان کہ اس اتحاد کی کوئی حیثیت نہیں، دوسری جانب وزراء اور مشیران کے پاس اس ٹوٹے پوٹھے اتحاد کاخوف لگتا ہے کہ حکومت نے عوام کے تمام مسائل حل کردئے ہیں اور اب صرف اس اتحاد کی ان دھمکیوں کا مقابلہ کرنا باقی رہ گیا ہے۔ بھات بھات کی سوچ رکھنے والے لیڈران اس اتحاد میٰں شامل ہیں اور اپنے نظریات کی بناء پر یہ ہانڈی کہیں بھی راستے میں ٹوٹ سکتی ہے ،سابق وزیر اعظم نواز شریف کی حالیہ تقریر نے کئی سوالات کو جنم دیا ، نہ جانے ہمارے سیاست دان جب حزب اختلاف میں ہوتے ہیں اپنی ناکامیوں کو سہراء پاکستانی عسکری اداروں کے سر کیوں باندھتے ہیں موجودہ حکومت کے لیڈران جب حزب اختلاف میں تھے وہ بھی اسطرح کی بیان بازیاں کرتے تھے جو آج نواز شریف کر بیٹھے ہیں اور نتیجہ میں ”غدار وطن“ ”بھارتی ایجنٹ“ کے القابات سے نوازے جارہے ہیں ہماری سیاسی تاریخ میں لفظ ”غدار“کا مطلب وہ نہیں جو لغت میٰں ہے ورنہ ہماری تاریخ میں یہ کہیں نہ لکھا ہوتا کہ بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کی ہمشیرہ جنہیں ہم مادر وطن کہتے ہیں انہیں بھی ہماری تاریخ میں ”غدار“کہا گیا ، اور آج وزیر اعظم آزاد کشمیر راجہ فاروق پر نواز شریف کا ساتھ دینے پر غداری کا مقدمہ ؟؟ صرف افسوس ہی کیا جاسکتا ہے جس بھارت کیلئے کہا جارہا ہے کہ وہ نواز شریف کے بیان سے خوش ہوگا، مشیران کو یہ نہیں پتہ بھارت اس بات پر زیادہ خوش ہوگا جس کشمیر پر ہم بات کرتے ہیں کہ وہ پاکستان کے ساتھ ہے اسکے وزیر اعظم پر پاکستان میں غداری کا مقدمہ قائم ہوگیا ہے ۔میاں نواز شریف کے تقریروں اور بیانات میں اداروں پر سوال اُٹھائے گئے ہیں، تین بار وزیراعظم اور پختہ کار سیاستدان سے ایسے غیر محتاط رویے کی امید نہیں رکھی جا سکتی، ان کے بیانئے کے باعث اور عدالتوں کی طرف سے ان کو مفرور اور اشتہاری قرار دینے پر ان کے خطاب نشر کرنے پر پیمرا نے پابندی لگا دی ہے تاہم وہ عدالتوں میں اس پابندی کو چیلنج کرنے کا حق رکھتے ہیں۔ حکومتی حلقوں خصوصاً وزرا کی طرف سے نواز شریف پر ایسے الزامات لگائے جا رہے ہیں جو قومی سلامتی پر زد کی حیثیت رکھتے ہیں ان بیانات میں صداقت ہے تو متعلقہ فورمز پر جانا چاہئے۔نہ کہ میڈیا ٹرائل کی حد تک بیان بازی ۔ تحریک انصاف کے پاس حکومت میں آنے سے قبل مولانہ طاہر القادری تھے جو سیاست تو نہ تھے مگر دھرنہ میں حاضری تو انکی شمولیت سے بھر پور ہوجاتی تھے، اسلئے 11جماعتی اتحاد کی تحریک کا نتیجہ کچھ بھی ہو، اس اتحاد کے پاس طاہر القادری کا نعم البدل مولانہ فضل الرحمان موجود ہے جنکی جماعت جلسے بھر پور کرادیگی، اتحاد کے پہلا سربراہ بھی انہیں بنایا گیا ۔ حکومتی وزیر چوہدری فواد نے کہا ہے کہ ہم پکڑ دھکڑ ، کو غیر جمہوری عمل سمجھتے ہیں ہم ایسا نہیں کرینگے یہ ایک خوش آئیند بیان ہے حکومتی وزیر کا بشرط یہ کہ حکومت میں انکی کوئی شنوائی ہے تو ۔ سیاست میٰں اداروں کو سیاست دان ہی ملوث کرتے ہیں اور بعد میں شور مچاتے ہیں چونکہ انہیں علم ہوتا ہے کہ جب وہ مسند اقتدار میں تھے انہیں آشیر باد کہاں سے حاصل تھی، اسکا مظاہرہ 2014 ء کے دھرنے میٰں ایمپائر کی انگلی اٹھنے کے بیانات ہوچکا ہے یہ تمام لوگ اداروں کو بھی نہیں بخش رہے، سارا کھیل کرسی کے لئے کھیلا جا رہا ہے اور کرسی آج تک کسی کی ہوئی نہیں۔چونکہ وزیر اطلاعات کو اپنی کتاب ”اور راستہ کٹ گیا “کی دوسری قسط لکھنے کا موقع موجودہ حالات میں نہیں ملے گا۔