ذوالفقار علی بھٹو‘ نواز شریف‘ عمران خان


رؤف کلاسرا
——————–

پاکستان میں میڈیا ہمیشہ دبائو کا شکار رہتا ہے۔ کہنے کو تو سب کہتے ہیں کہ قلم تلوار سے زیادہ طاقتور ہے‘ مگر یہ ڈائیلاگ سننے اور پڑھنے میں اچھا لگتا ہے‘ درحقیقت پاکستان میں اس کے الٹ ہوتا ہے۔ جب تک آپ حکمرانوں کی تعریفیں کرتے رہیں آپ گڈ بکس میں لیکن جس دن ایک نیگٹیو کمنٹ کریں گے آپ فارغ ۔ پاکستان میں ہر بڑا آدمی اس اصول پر چلتا ہے جو گیارہ ستمبر کے حملوں کے بعد صدر جارج بش نے کہا تھا کہ آپ ہمارے دوست ہیں یا دشمن‘آپ نیوٹرل نہیں رہ سکتے۔
جو صحافی یا میڈیا نیوٹرل ہونے کی کوشش کرے اسے زیادہ برا سمجھا جاتا ہے کیونکہ اگر وہ دوسروں کے ہاتھوں نہیں بکا تو ہمارے ہاتھوں بھی نہیں بکے گا۔ ایسے میڈیا گروپ یا صحافی پر بھروسہ نہیں کیا جاسکتا ‘لہٰذا اسے دور رکھا جاتا ہے۔ ہاں جو ایک جگہ اپنی ہمدردیاں یا اپنا قلم بیچ چکا ہوتو امید ہوتی ہے کہ کسی دن اس کی زیادہ قیمت لگا کر اپنے کیمپ میں بھی لایا جاسکتا ہے۔ میں درجنوں نام گنوا سکتا ہوں جو بینظیر بھٹو‘نواز شریف یا پرویزمشرف کے خلاف بولتے یا لکھتے تھے لیکن عہدے ملنے پر انہی کی تعریفوں کے پل باندھ رہے ہوتے تھے۔
پاکستان میں آج کل پھر وہی منجن بیچا جارہا ہے کہ جناب نواز شریف جمہوریت کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ نواز شریف یا کوئی بھی صرف اسی وقت جمہوریت کی لڑائی لڑ سکتا ہے جب وہ اقتدار میں ہو۔ حکمرانی کے دنوں میں ہی ایسی روایات قائم کی جاسکتی ہیں جن سے جمہوریت مزید مضبوط ہو۔ پاکستان کے دو وزرائے اعظم ایسے تھے جو چاہتے تو پاکستان ہمیشہ کیلئے جمہوری ملک ہوتا‘ ذوالفقار علی بھٹو اور نواز شریف ‘لیکن افسوس دونوں اپنے ہی وزن تلے کچلے گئے ۔
بھٹو چاہتے تو پاورفل جمہوری کلچر کی بنیاد رکھ سکتے تھے جو بعد میں کسی سے نہ ٹوٹ سکتا ۔ ضیاالحق نے انہی سیاسی مخالفوں کو بھٹو کو ہٹانے اور پھانسی لگانے کیلئے استعمال کیا جنہیں بھٹو نے جیل میں ڈالا تھا‘ ان کی حکومتیں توڑ دی تھیں یا جن کے خلاف ایکشن کروائے تھے۔ جب بھٹو جیل میں تھے تو اُس وقت وہ جمہوریت کی لڑائی نہیں لڑ سکتے تھے ۔وہ وزیراعظم کے طور پر ہی جمہوریت کو مضبوط کرسکتے تھے نہ کہ کرسی سے اترنے کے بعد ۔
میں اپنے دوست فرخ سہیل گوئندی کا ایک ویڈیو کلپ دیکھ رہا تھا جس میں وہ پروفیسر غفور اور عبدالحفیظ پیرزادہ کا انٹرویو کررہے تھے۔ اس انٹرویو میں پیرزادہ نے انکشاف کیا کہ جب بھٹو کے خلاف تحریک چل رہی تھی تو بھٹو نے اپوزیشن کے ایک وفد سے مذاکرات کے دوران ان سے کہا کہ جنرل ضیا الحق آپ سے بات کرنا چاہتے ہیں۔ اس پر نوابزادہ نصراللہ خان نے کہا کہ وہ وزیراعظم سے ملنے آئے ہیں نہ کہ ضیاالحق سے مذاکرات کرنے۔ بھٹو صاحب نے اصرار کیا کہ آپ ان کی بات سن لیں تو نوابزادہ صاحب نے انکار کر دیا اور کہا کہ اگر آپ نے ان کو بلایا تو ہم اُٹھ کر چلے جائیں گے۔ اس بات کی تائید پیرزادہ کے ساتھ بیٹھے پروفیسر غفور نے بھی کی۔ اندازہ کریں کہ بھٹو کو اپنی اپوزیشن سے بات چیت کیلئے ضیا الحق کا کندھا چاہیے تھے۔اب بتائیں جمہوریت کو مضبوط یا کمزور کون کررہا تھا؟
بھٹو جیسا پڑھا لکھا وزیراعظم بھی یہ نہیں جانتا تھا کہ وہ جمہوریت کو کیسے مضبوط کرسکتا ہے۔ بھٹو صاحب اپوزیشن کو دھمکاکرنہ صرف خود کو کمزور کررہے تھے بلکہ جمہوریت کو بھی خطرے میں ڈال رہے تھے ۔ اور وہی ہوا‘ انہی ضیا الحق نے بھٹو کو پھانسی دے دی اور جمہوریت کو دس سال کے لیے ہائی جیک کر لیا۔ جان کی امان پائوں تو عرض کروں کہ بھٹو کی وجہ سے جمہوریت دس سال معطل رہی اور وہ خود پھانسی چڑھ گئے۔ وہ ایک ٹریجک ہیرو تھے‘ جنہوں نے کنگ لیئریا کنگ ایڈی پس کی طرح اپنا افسوسناک انجام خود لکھا‘ لہٰذا وہ شکایت نہیں کرسکتے تھے کہ جمہوریت کو نقصان ہوا یا وہ پھانسی چڑھ گئے۔
بعض غلطیاں ایسی ہوتی ہیں جو آپ کی جان لے کر جاتی ہیں ۔ یہی کچھ ہم نے نواز شریف کے ساتھ ہوتے دیکھا ۔ بھٹو کے بعد اگر کوئی طاقتور وزیراعظم تھا تو وہ نواز شریف تھے‘ جنہیں پنجاب سے ہونے کی وجہ سے سول ملٹری بیوروکریسی سے بہت تعاون ملا۔ وہ ہر دفعہ پنجاب سے جیت کر ہی تین دفعہ وزیراعظم بن گئے‘ لیکن پھر بھی وہ جمہوریت کو مضبوط نہ کرسکے۔ ان کی ساری توجہ دو کاموں پر رہی کہ ہر جگہ اپنا بندہ ہونا چاہیے چاہے۔ سب صحافی اور سب ججز بھی ہماری جیب میں ہوں اور دوسرا‘ صرف ان کے خاندانی کاروبار کو فائدہ ہونا چاہیے‘ ملکی اکانومی چاہے نیچے جارہی ہو لیکن ان کے خاندان کا پرافٹ اربوں میں ہونا چاہیے۔
نواز شریف نے ہر جنرل کو آرمی چیف بنانے سے پہلے خفیہ ملاقاتیں کیں‘شجرہ نسب دیکھااور ذاتی وفاداری کے حلف لیے۔ پرویز مشرف سے بھی تسلی نہ ہوئی تو اپنا کشمیری جنرل خواجہ ضیاالدین بٹ لانے کا فیصلہ کیا ۔ نواز شریف وزیراعظم بنے تو جمہوری طریقے سے تھے لیکن اب وہ ”امیرالمومنین‘‘ بننا چاہتے تھے۔ غالباً یہی آج کل عمران خان سوچتے ہیں۔ وہ وزیراعظم بنے تو جمہوری طریقے سے ہیں لیکن وہ چینی ماڈل کے تحت سب پاورز چاہتے ہیں ‘جن کے تحت انہیں اپنے مخالفین کو لٹکا دینے کا اختیار بھی حاصل ہو اور کوئی سوال نہ کرے۔
یہ داد بھی نواز شریف کو دیں کہ چودہ برس بعد2013ء میں تیسری دفعہ وزیراعظم بنے تو کام وہیں سے شروع کیا جہاں بارہ اکتوبر1999 ء کو چھوڑ کر گئے تھے۔ نواز شریف کے پاس تیسری دفعہ کتنا اچھا موقع تھا کہ وہ جمہوریت اور پارلیمنٹ کو مضبوط کرتے لیکن وہ اسی پارلیمنٹ میں آٹھ‘ آٹھ ماہ نہیں گئے اور پوری دنیا کے ایک سو دورے صرف تین‘ ساڑھے تین سال میں کر ڈالے۔
رہی سہی کسر دبئی میں ایک کمپنی کی ملازمت کر کے پوری کر دی۔ نیا ریکارڈ قائم کیا کہ پاکستان کا وزیراعظم بیرون ملک ایک کمپنی میں ملازمت بھی کررہا تھا۔ نواز شریف کے پاس بھی بھٹو کی طرح بڑا چانس تھا کہ وہ جمہوریت کو مضبوط کرتے لیکن جب وہ وزیراعظم تھے تو وہ سب کام کررہے تھے جن سے جمہوریت کمزور ہو اور آج وہ لندن میں بیٹھ کر اور عدالتوں سے اشتہاری قرار دیے جانے کے بعد جمہوریت کی جنگ لڑنے کے دعوے کررہے ہیں ۔
اگرچہ عمران خان کے پاس بھٹو اور نواز شریف والی عددی اکثریت نہیں ہے‘ لیکن یقین کریں وہ اس وقت بھٹو اور نواز شریف سے بھی زیادہ طاقتور وزیراعظم ہیں‘ مگر بدقسمتی سے وہی راستہ لیے ہوئے ہیں جو بھٹو اور نواز شریف نے لیا تھا۔
بھٹو نے بھی اپنی اپوزیشن اور میڈیا کا جینا حرام کیا ہوا تھا ۔ بھٹو ہر وقت جنرل ضیا الحق کو ساتھ رکھتے تاکہ دنیا کو بتا سکیں کہ وہ ان کے ساتھ ہیں۔ عمران خان بھی بار بار پوری دنیا کو جتاتے ہیں کہ مقتدرہ ان کے ساتھ ہے۔ نواز شریف کو بھی یہی یقین تھا ۔ بھٹو صاحب کو تو ضیاالحق پر اتنا اعتماد تھا کہ بھٹو کے آخری چیف سکیورٹی افسر خالد لطیف کے بقول: جب بھٹو کو پتہ چلا کہ ملک میں مارشل لاء لگ گیا ہے تو وہ سمجھے کہ جنرل ضیا کے خلاف فوج نے بغاوت کر دی ہے۔ بھٹو نے فون پر جنرل ضیا سے پوچھا: کس جنرل نے مارشل لاء لگایا ہے؟تو ضیا الحق نے جواب دیا :اس ناچیز نے۔ بھٹو یہ سوچ ہی نہیں سکتے تھے کہ ضیاالحق بھی مارشل لاء لگائیں گے ۔
عمران خان بھی بھٹو اور نواز شریف کے راستے پر چل رہے ہیں ۔آج جب وہ وزیراعظم کے طور پر جمہوریت کو مضبوط کرسکتے ہیں تو وہ بھٹو اور نواز شریف کی طرح اسے کمزور کررہے ہیں۔یہ وقت ہے جب وہ جمہوریت کو اُس انجام سے بچا سکتے ہیں جو بھٹو اور نواز شریف کی جمہوریت کا ہوا تھا ۔ بھٹو اور نوازشریف کو بھی لگتا تھا کہ ان کا اقتدار ختم نہیں ہوگا اور شاید عمران خان صاحب کو بھی یہی لگتا ہے۔ تاریخ کا جبر دیکھیں‘ عمران خان صاحب بھی خود سے ویسے ہی مطمئن ہیں جیسے کبھی بھٹو اور نواز شریف تھے۔
بشکریہ روزنامہ دنیا