ایک شخص جس نے غریبوں کو ان کا حق دلایا

اسلام آباد (عمر چیمہ) یہ سب ایک ایسے شہری سے شروع ہوا جس نے سینٹری ورکرز کے حقوق کیلئے آواز بلند کی۔ انہیں قانونی طور پر وہ کم از کم اجرت بھی نہیں مل رہی تھی جو حکومت نے طے کر رکھی ہے۔ اس نے ہر محکمے میں یہ کیس اٹھایا اور مستقل مزاجی دکھائی۔ اب تین کنٹونمنٹ بورڈز اور سول ایوی ایشن اتھارٹی نے اپنے نظام میں اصلاحات کی ہیں اور اپنے سینیٹری ورکرز کو ان کی جائز اجرت دے رہے ہیں۔ لیکن کہانی یہیں ختم نہیں ہوتی۔ کراچی سے تعلق رکھنے والے شہری نعیم صادق نے اپنی جدوجہد کا دائرہ ملک بھر تک پھیلا دیا ہے۔ بے نام اور بے آواز مظلوم شہریوں کو با اختیار بنانے کیلئے ان کا ہتھیار صرف ’’رائٹ ٹوُ انفارمیشن‘‘ (آر ٹی آئی) قانون ہے۔

یہ لوگ اسلئے آواز نہیں اٹھا پا رہے تھے کہ مبادا کہیں نوکری سے برطرف نہ کر دیا جائے۔ اقتدار کے ایوانوں میں ان کی نمائندگی نہیں کہ وہ اپنا جائز حق وصول کر سکیں، معاشرے کے بااثر حلقوں کو ملنے والی مراعات اور سہولتیں تو دور کی بات ہیں۔ یہ لوگ صرف دعا ہی کر سکتے ہیں اور وہ اس وقت قبول ہوئی جب ڈی ایچ اے کراچی کے ایک شہری نے پانچ سال قبل ایک عادت اختیار کی۔ وہ اپنے دفتر جاتے ہوئے سینیٹری ورکرز میں سے ایک کا انٹرویو کرتا۔ اس عمل کے دوران اس کی 200؍ ورکرز سے ملاقات ہوئی اور اسے معلوم ہوا کہ ان میں سے کسی کو بھی اس کا جائز حق نہیں مل رہا تھا یعنی کسی کو بھی سرکاری محکمے سے حکومت کی متعین کردہ کم از کم معیاری اجرت نہیں مل رہی تھی۔

وہ شخص ان ورکرز کی حوصلہ افزائی کرتا تھا کہ وہ اپنی آواز بلند کریں لیکن نوکری جانے کا خوف انہیں خاموش رکھتا تھا۔ بالآخر اس نے فیصلہ کیا کہ وہ ان کی آواز بنے گا۔ پہلے تو اس نے کنٹونمنٹ بورڈ کلفٹن (کراچی) میں آر ٹی آئی درخواست دائر کی کیونکہ کنٹونمنٹ میں وفاقی حکومت کا قانون لاگو ہوتا ہے۔ اس شخص نے نہ صرف جمع ہونے والے کچرے کی معلومات حاصل کیں بلکہ کنٹریکٹ پر بھرتی کیے گئے خاکروب، ان کی اجرت، اوقات کار، حالات، انہیں دی جانے والی سہولتوں کے متعلق بھی معلومات بھی طلب کیں۔ جب انہیں مقررہ وقت میں جواب موصول نہیں ہوا تو انہوں نے پاکستان انفارمیشن کمیشن (پی آئی سی) کا دروازہ کھٹکھٹایا۔

یہ ایسے وفاقی محکموں کیخلاف اپیلیٹ ادارہ ہے جو معلومات فراہم کرنے سے انکار کرتے ہیں۔ پی آئی سی نے نعیم صادق کے حق میں فیصلہ سنایا اور کنٹونمنٹ بورڈ کو ہدایت کی کہ وہ مطلوبہ معلومات فراہم کرے۔ بالآخر جب نعیم صادق کو معلومات ملیں تو معلوم ہوا کہ یہ 90؍ کروڑ روپے کا ٹھیکہ تھا لیکن کنٹریکٹر اس رقم کا صرف ایک چوتھائی حصہ خرچ کررہا تھا اور صرف ایک ہزار سینیٹری ورکرز کو رقم ادا کر رہا تھا۔ نعیم صادق کو یہ بھی معلوم ہوا کہ کنٹونمنٹ بورڈ کلفٹن کا ٹھیکیدار کراچی میں ملیر اور فیصل کنٹونمنٹ بورڈز کا بھی ٹھیکیدار تھا۔

حاصل ہونے والی دستاویزات کا سہارا لیتے ہوئے، نعیم صادق نے سندھ ہائی کورٹ سے رجوع کیا تاکہ سینیٹری ورکرز کو ان کی جائز اجرت مل سکے، عدالت نے ان کے حق میں فیصلہ سنایا۔ اگرچہ پٹیشن کنٹونمنٹ بورڈ کلفٹن کے متعلق تھی لیکن دیگر کنٹونمنٹس کو بھی پابند کیا گیا کہ وہ کم از کم اجرت ادا کریں۔ رواں سال جولائی سے، سینیٹری ورکرز کو حکومت کی متعین کردہ ساڑھے 17؍ ہزار روپے تنخواہ ملنے لگی۔ اس سے قبل انہیں صرف ساڑھے 12؍ ہزار روپے مل رہے تھے۔ نعیم صادق نے ایک اور پٹیشن بھی دائر کر رکھی ہے جس میں انہوں نے دو سال کی بقایہ جات کی ادائیگی کیلئے درخواست دی ہے۔ اسی طرح انہوں نے سول ایوی ایشن سے بھی اس ٹھیکے کی نقل حاصل کی جس کے تحت ادارے کے سینیٹری ورکرز کو ادائیگی کی جاتی ہے۔

یہاں بھی پی آئی سی کے ذریعے معلومات فراہم کی گئیں۔ دستاویز کے مطالعے سے معلوم ہوا کہ سی اے اے نے ٹھیکے دار کو فی شخص 20؍ ہزار روپے کے حساب سے ادائیگی کی جبکہ سینیٹری ورکر کو صرف 15؍ ہزار ملتے تھے۔ اس صورتحال کو دیکھ کر نعیم صادق نے سی اے اے کو لکھا کہ کنٹریکٹ پر رکھے گئے خاکروبوں کو ان کا طے شدہ معاوضہ دیا جائے۔ ادارے نے اس پر فوراً عمل کیا۔ سی اے اے نے تھرڈ پارٹی ٹھیکیدار کو فارغ کرکے خود ہی ان ملازمین کو ملازمت پر رکھا اور ان کی ماہانہ تنخواہ بڑھا کر 25؍ ہزار کر دی اور ایئرپورٹ اور قرب و جوار کے علاقوں میں کام کرنے والے خاکروبوں کیلئے بھی یہی معاوضہ مقرر کرنے پر اتفاق کیا۔

اس تاریخی کامیابی پر، نعم اب دیگر سرکاری اداروں پر نظر رکھے ہوئے ہیں۔ انہوں نے ڈی جی ملٹری لینڈز اینڈ کنٹونمنٹس کو خط لکھ کر مطالبہ کیا ہے کہ کراچی کی تین کنٹونمنٹ بورڈز کی دیکھا دیکھی، باقی علاقوں میں بھی سینیٹری ورکرز کو ان کا جائز حق دیا جائے۔ کل 44؍ کنٹونمنٹ بورڈز ہیں۔—-from—jang—-pages