’بیگم بھی ہیں کھڑی ہوئی میدان حشر میں‘

عبدالخالق بٹ
———-

بی اے بھی پاس ہوں، ملے بی بی بھی دل پسند
محنت کی ہے وہ بات، یہ قسمت کی بات ہے
اکبرالہٰ آبادی کے اس شعر میں ہماری دلچسپی ’بی بی‘ میں ہے کہ اسے B.A ہی نہیں M.A. پر بھی فضیلت حاصل ہے۔ ’بی بی‘ کے معنی میں زوجہ، شریک حیات، خاتون، بیگم اور شریف و معزز عورت شامل ہے۔ پھر اکثر خواتین کے نام سے پہلے یا بعد میں تعظیماً ’بی بی‘ لگاتے ہیں۔ جیسے ’بی بی فاطمہ ‘ اور ’بی بی پاک دامن‘ وغیرہ۔

پہلے بھی لکھ آئے ہیں کہ حرف ’ب‘ اکثر صورتوں میں ’واؤ‘ سے بدل جاتا ہے۔ یہی کچھ لفظ ’بی بی‘ کے ساتھ ہوا جس کا دوسرا ’ب‘ حرف ’واؤ‘ سے بدلا تو اُس نے ’بی بی‘ کو ’بیوی‘ بنا دیا۔ بیوی بے رحم ہو تو اُسے ’بیوہ‘ بننے میں زیادہ وقت نہیں لگتا۔
’بیوہ‘ فارسی زبان کا لفظ ہے۔ اس کی اصل سنسکرت کا وِدھوا (विधवा) ہے، جس کی ایک صورت بدھوا بھی ہے۔ سنسکرتی ’وِدھوا‘ فارسی میں ’بیوہ‘ ہوا تو انگریزی میں ’وِڈو‘(widow) بن گیا، جرمن میں ’وِٹوا‘ (Witwe) کہلایا اور فرانسیسی میں ’وِیوا‘ (Veuve) پکارا گیا۔
یوں اس لفظ کو ہم ’ہند یورپی‘ زبانوں کی مشترکہ میراث کہہ سکتے ہیں۔
ہندو سماج میں’بیوہ‘ کی حالت قابل رحم رہی ہے۔ اس حوالے سے خواجہ الطاف حسین حالی نے ’مناجاتِ بیوہ‘ کے عنوان سے ایک دلگداز نظم لکھی۔ ایک موقع پر موہن داس کرم چند گاندھی نے بابائے اردو مولوی عبدالحق کو لکھا کہ میں نے اردو پڑھنی شروع کردی ہے، کوئی کتاب تجویز کریں، تو بابائے اردو نے انہیں مولانا حالی کی ’مناجاتِ بیوہ‘ پڑھنے کا مشورہ دیا۔ اس طویل نظم کے دو اشعار ملاحظہ کریں:
موت کی خواہاں جان کی دشمن
جان اپنی ہے آپ اجیرن
اپنے پرائے کی دھتکاری
میکے اور سسرال پہ بھاری

دعا ہے کہ بیویاں سدا سہاگن رہیں۔ اب ’بی بی‘ کی رعایت سے لفظ ’بھابی‘ پر غور کریں۔ صاف معلوم ہوجائے گا کہ ’بھابی‘ کا لفظ ’بھائی‘ کے ’بھا‘ اور’بی بی‘ کے ’بی‘ سے مل کر بنا ہے اورمطلب ہے ’بھائی کی بیوی‘۔ ایسے میں ’بھابی‘ کو’بھابھی‘ لکھنا درست نہیں۔
بیوی کا ایک مترادف لفظ ’بیگم‘ ہے، یہ ترکی زبان سے متعلق ہے۔ لفظ ’بیگم‘ اصل میں ’بیگ‘ کی تانیث (مؤنث) ہے۔ بیگ کے معنی میں امیر اور سردار داخل ہے۔ منگول جس کی عربی صورت ’مغل‘ ہے، ہندوستان آئے تو اُن کے عہدیداروں اور منصب داروں کے ساتھ ’بیگ‘ کا لفظ بطور تعظیم استعمال ہونے لگا۔ یوں ’بیگم‘ کے معنی میں بیوی کے ساتھ مالکہ اورعزت دار خاتون ہونا بھی شامل ہوگیا۔ بعد ازاں اردو میں ’بیگم‘ کی رعایت سے ’بیگما، بیگماں اور بیگمی‘ جیسے الفاظ اور ’بیگمی پان‘ اور ’بیگمی پنیر‘ جیسی تراکیب رائج ہوئیں۔ اب بیگم کی رعایت سے ایک مظلوم شوہرکی ترجمانی ایک شاعرکی زبانی ملاحظہ کریں:
بیگم بھی ہیں کھڑی ہوئی میدان حشر میں
مجھ سے مرے گناہ کا حساب اے خدا نہ مانگ
جس طرح ’بیگ‘ سے ’بیگم‘ کو نسبت ہے، ایسے ہی ’خان‘ سے ’خانم‘ کا تعلق ہے۔ ’خان‘ بھی ترکی زبان کا لفظ ہے اور’صاحبِ عزت‘ کے معنی رکھتا ہے۔ ’خان‘ اصلاً شاہان تاتار کا لقب تھا، اس رعایت سے اس کے معنی میں آقا، مالک، امیراور سردار شامل ہیں۔ اسی خان سے ترکیب ’خانِ خاناں‘ یعنی سرداروں کا سردارہے۔
بادشاہ اکبر کے نورتن میں شامل ’عبدالرحیم خانِ خاناں‘ کو اپنی قائدانہ صلاحیتوں، ادب پروری اور فیاضی کی وجہ سے شہرت دوام حاصل ہوئی۔ مشہور تھا کہ اس کے دسترخوان پر موجود قابوں میں سونے اورچاندی کے ٹکڑے ہوتے تھے، اب یہ قسمت کی بات تھی کہ کس مہمان کے حصے میں کیا آتا ہے۔ اسی سے محاورہ مشہور ہوا ’عبدالرحیم خانِ خاناں، جن کے کھانے میں بتانا‘۔

اب واپس ’خان‘ پر آتے ہیں۔ خان کو جو عزت و توقیر ملی وہ ’خانم‘ کے حصے میں بھی آئی۔ یوں ’خانم‘ کے معنی میں بیوی کے ساتھ ’شریف زادی‘ کا مفہوم بھی شامل ہوگیا۔ آج بھی اہل ایران جب کسی خاتون کو مخاطب کرتے ہیں تو اسے ’خانم‘ جیسے معزز لفظ سے پکارتے ہیں۔
بھلے وقتوں کے ’دلی‘ میں ’خانم بازار‘ ہوا کرتا تھا، مُحَقَّق نہیں ہوسکا کہ یہ بازار کسی ’خانم‘ سے منسوب تھا یا ’مینا بازار‘ کو ’خانم بازار‘ کہتے تھے۔ اس سے پہلے کہ آگے بڑھیں ’خانم‘ کی رعایت سے ’شوق بہرائچی‘ کا خوب صورت شعر ملاحظہ کریں:
چرا لیں جس کو دُزدیدہ نگاہیں
یہ دل، وہ دل رُبا خانم نہیں ہے
لفظ ’خان‘ ہی سے ترکیب ’خانساماں‘ ہے۔ اس کی اصل ’خانِ سامان‘ ہے، جسے دوسرے لفظوں میں ’میرِ سامان‘ یا ’صاحبِ سامان کہا جاتا ہے۔ ’خانِ سامان‘ کے ذمہ خور و نوش کا انتظام ہوتا تھا۔ فارسی زبان میں ’خانِ سامان‘ کے معنی میں صاحب ثروت اور دولت مند بھی شامل ہیں، جبکہ اردو میں ’خانساماں‘ محدود معنی کے ساتھ ’باورچی‘ کا مترادف ہوکر رہ گیا ہے۔ شاعر سید ضمیر جعفری کا مصرعہ ’خانساماں ہے مُصر ہر شب چکن بنوایے‘ اس محدود معنی کی جانب اشارہ کرتا ہے۔

فارسی میں صنف نازک کو ’زن‘ بھی کہتے ہیں۔ اس کا اطلاق کنواری اور شادی شدہ ہر دو خواتین پر ہوتا ہے۔ ہمارے یہاں جو بیوی کی ناز برداری کرے اسے ’زن مرید‘ کہتے اور مضحکہ اڑاتے ہیں۔ بقول ’ارشد علی خان قلق‘: ’مردوں میں آبرو نہیں کچھ زن مرید کی‘۔
فارسی کا ’زن‘ ہندی میں ’رن‘ ہے اور اس کے معنی میں عورت اور بیوی کے علاوہ رانی بھی شامل ہے۔ فارسی کے ’زن‘ سے ’زنان خانہ‘ ،ہندی میں ’رن‘ سے ’رنواس‘ کہلاتا ہے۔ ہندی کی رعایت سے اردو اور پنجابی میں ’زن مرید‘ کو ’رن مرید‘ بھی کہتے ہیں۔ ایک ’بزرگ زنانِ دیدہ‘ کا خیال ہے کہ لوگ عام طور پر ’زن مرید‘ ہوتے ہیں، جو نہیں مانتے وہ جھوٹ بولتے ہیں۔ اب شاعر ’مجید فضا‘ کے الفاظ میں ایک زن مرید کا شکوہ ملاحظہ کریں اور ہمیں اجازت دیں:
زن مریدی کا شرف پا کے بھی رنجور ہوں میں
قصہ درد سناتا ہوں کہ مجبور ہوں میں
————–urdunews——