ڈاؤ کینسر رجسٹری کی دس سالہ تحقیقی رپورٹ


کراچی 01اکتوبر 2020:ڈاؤ کینسر رجسٹری نے اپنی ایک تحقیقی رپورٹ میں کراچی میں سرطان کے بڑھتے کیسز پر تشویش ظاہر کرتے ہوئے پالیسی ساز اداروں پر زور دیا ہے کہ کینسر سے بچاؤ اور اس کی روک تھام کے لیے حکمتِ عملی ترتیب دیں، کیونکہ گذشتہ دس برسوں کے دوران ڈاؤ یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز کی کینسر رجسٹری میں 22ہزار 858کینسر کے کیسز رجسٹرڈ ہوئے،


جن میں پہلے نمبر پر بریسٹ کینسر، دوسرے نمبر پر منہ کا کینسر ہے، خواتین میں بریسٹ کینسر سب زیادہ جبکہ مردوں میں منہ کا کینسر بہت عام ہے۔ُپاکستان جرنل آف میڈیکل سائنسز میں شائع ہونے والے ڈاکٹر محمد آصف قریشی کی سربراہی میں تیار کئے گے طبی تحقیقی مقالے کی نگرانی ڈاؤ یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز کے وائس چانسلر پروفیسر محمد سعید قریشی نے کی۔ڈاؤ رجسٹری کے اعداد و شمار کے مطابق گذشتہ دس برس کے دوران کینسر کے 22,858کیسز میں مجموعی طورپر 9,112(39.9%)کینسر کے مریضوں کی

مردوں میں تشخیص ہوئے، جبکہ خواتین میں ان کی تعداد 13,746(60.1%)بنتی ہے،  بالغ افراد میں منہ کا کینسر سب سے زیادہ 33.6%تشخیص کیا گیا، جبکہ اس کے بعدجلد کا سرطان 7.2%، غذائی نالی کا سرطان 6.8%، نظامِ انہضام کا سرطان6.7% اور معدے کا کینسر 4.9% تشخیص کیا گیا۔جبکہ بالغ خواتین میں بریسٹ کینسر سب سے زیادہ 53.2%تشخیص کیا جانے والا کینسررہا، اس کے بعد منہ کا کینسر 10.4%، معدے کا کینسر 5.3%، نظامِ انہضام کا کینسر 3.3%جبکہ اسکن کا کینسر 3%رپورٹ ہوا۔بچوں میں عام طورپر


سب سے زیادہ دماغ اور اعصابی نظام کا کینسر 15.3%پایا گیا، جبکہایک قسم کے خون کاکینسر) ہوڈکن لمفوما(14.2%، نظامِ انہضام 8.1%، انڈوکرائن اور اس سے ملحقہ اعضا ء کا کینسر15.8%اور نان ہوڈکن لمفوما کینسر7.8فیصد رپورٹ ہوا۔تحقیقی مقالے کے مطابق کراچی کے مردوں میں ہونٹوں اور منہ کاکینسر بڑھ رہا ہے، جبکہ رپورٹ میں تجویز کیا گیا ہے کہ غذائی نالی کے کینسر کے بڑھنے کی بھی تحقیق ضروری ہے کہ استعمال کی گئی غذا کس قدر ضرر رسانی کا باعث بن رہی ہے۔ ڈاؤ کینسر رجسٹری کی مذکورہ تحقیقی رپورٹ 2010-19تک کے دس سال کے اعداد و شمار پر مشتمل ہے،یاد رہے کہ اعداد و شمار ڈاؤ یونیورسٹی میں رجسٹرڈ کیسز کے ہیں،


جو شہر میں تشخیصی  مراکز کا سب سے بڑا سرکاری نیٹ ورک رکھتی ہے۔ رپورٹ کے مطابق الکوحل، گرم مشروبات(چائے کافی و دیگر مشروبات وغیرہ)  اور آگ پر سینکے گئے گوشت (بار بی کیو) کے استعمال سے غذائی نالی کا کینسر ہوتا ہے، اس لیے  یہ دیکھنے کی ضرورت ہے، کہ گزشتہ عشرے میں ان غذائی اشیا کے استعمال کا رجحان کتنا بڑھا ہے۔رپورٹ میں اس بات پر بھی تشویش کا اظہار کیا گیا ہے گذشتہ دس برس کے دوران بچوں میں ذہنی و اعصابی نظام کے سرطان میں اضافہ ہورہا ہے، اس سلسلے میں بھی اقدامات کی ضرورت پر بھی قومی سطح پر کینسر کے اعداد و شمار دستیاب نہیں ہیں، گلو بوکین کے عنوان سے سال 2018میں منعقد ہونے والی سرطان سے متعلق بین الاقوامی کانفرنس میں پاکستان کی جانب سے پیش کئے گئے اعداد و شمار پنجاب کینسر رجسٹری کی رپورٹ سے اخذ کئے گیئے تھے۔رپورٹ کے مطابق قومی سطح پر کینسر کے اعداد وشمار کی عدم دستیابی کی وجہ سے اب بھی کافی مریض رجسٹرڈ ہونے سے رہ گئے ہیں، لیکن اگر علاقائی سطح پر کینسر رجسٹری کامضبوط نظام قائم ہوجائے تو قومی سطح پر کینسر کے اعداد و شمار ترتیب دیئے جاسکتے ہیں، اس امر کی اشد ضرورت ہے کہ باقاعدہ اور مربوط نظام تشکیل دیا جائے، رپورٹ میں سفارش کی گئی ہے کہ منہ کے کینسر کی روک تھام کے لیے مختلف نوعیت کی تمباکو کی اشیا، پان، گٹکا، سگریٹ، بیڑی، شیشہ، نسوار وغیرہ پر پابندی عائد کی جائے، کیونکہ درست سمت میں موثر اقدام کے بغیر کینسر کے بڑھتے کیسز پر قابو نہیں پایا جاسکتا۔رپورٹ کے مطابق منہ کے کینسر کے اکثر متاثرین تمباکو کے استعمال کے دیرینہ عادی پائے گئے ہیں، رپورٹ میں کو لوریکٹل(آنتوں کا) کینسر کے بڑھتے ہوئے رجحان کو خطرے کی گھنٹی قرار دیتے ہوئے بتایا گیا ہے، ترقی یافتہ ممالک میں عام طور پر زیادہ پایا جاتا ہے، اس کی وجہ ان ممالک کی غذائی اشیا اور عادات ہیں، اس لیے یہ دیکھنے کی ضرورت ہے کہ پاکستان میں اس بڑھتے کینسر کی وجہ مغربی انداز کے کھانوں کا بڑھتا رجحان تو نہیں  ہے، رپورٹ کے مطابق کراچی میں گذشتہ عشرے کے دوران جلد کے کینسر کی ایک بڑی وجہ تو شہر کی خط استوا سے قربت ہے، جبکہ دوسری وجہ اوزون کی حفاظی تہہ کا پتلی ہونا، جس کی وجہ سے الٹرا وائلٹ شعاعیں زمین تک پہنچ رہی ہیں، جو جلد کے کینسر کی وجہ بن رہی ہیں۔رپورٹ کے مطابق اوزون کی تہہ کے پتلا ہونے کی وجہ ہائڈرو کلورو فلوروکاربن کی زیادہ مقدار میں پیداوار ہے۔ ان کی سالانہ پیداوار کی شرح 71.7فیصد ہے، جو اوزون کو نقصان پہنچانے کے ساتھ ساتھ جلد کی بیماریوں کی وجہ بھی بن رہی ہے۔