اقوام متحدہ وزیراعظم کا شاندار خطاب اندرونی صورتحال

امیرمحمد خان  اقوام متحدہ  وزیر اعظم کا  شاندار خطاب،  اندرونی صورتحال   اس امر میں کوئی شک نہیں کہ وزیراعظم نے اپنی حالیہ تقریر میں تمام امور کو بڑی خوبصورتی سے بیان  کیا۔اندرونی سیاسی اختلافات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے ہمیں یہ بات تسلیم کرنی چاہیے کہ عالمی فورم پر وزیر اعظم نے تمام مقدمات بڑی خوبی سے بیان کیے۔مسئلہ کشمیر کے حوالے سے انہوں نے اپنی گفتگو کو خوبصورت انداز میں منضبط کرکے دنیا کے سامنے پیش کیا وہ لائق تحسین ہے۔بھارت کی طرف سے پانچ اگست کو کیے جانے والے اقدامات کو کھل  کر قومی بین الاقوامی برادری کے سامنے پیش کیا۔اقوام متحدہ جیسے فورم پر پہلی مرتبہ، اسلام اور مسلمانوں کی نسل کشی کا ذکر کیا۔اسلاموفوبیا کے حوالے سے بھارتی اقدامات کو بے نقاب کیا۔گستاخانہ خاکے شائع کرنے کے متعلق پاکستانی قوم کے جذبات کو سیاسی انداز میں دنیا کے سامنے پیش کیا۔جبکہ فلسطین کے مسئلہ پر فلسطینی عوام کی امنگوں کی بھرپور ترجمانی کی۔مجموعی طور پر یہ ایک ایسی تقریر تھی جس میں مسئلہ کشمیر پر فوکس رہا اور مسئلہ کشمیر کو مشرقی تیمور سے جوڑ کر عالمی برادری کی توجہ حاصل کرنے کی کوشش کی جس میں وہ کافی حد تک کامیاب رہے۔اس بات کی امید کی جانی چاہئے کہ وزیراعظم کی اس تقریر سے بین الاقوامی برادری کو پاکستانی موقف سے آگاہی حاصل ہو گی اور تمام مسائل کے حل کے لیے اقدامات کرنے پر سوچ بچار کی ہوگی۔ادھر  RSS  دہشت گرد کی  دہشت گردآنہ پالیسوں پر عمل پیرا  بھارتی  وزیر اعظم مودی جنرل اسمبلی کے اجلاس میں اصل معاملات و امور سے صرفِ نظر کرتے ہوئے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی رکنیت کے حصول کیلئے کوشاں ہے۔ بھارت آج نہیں عرصہ سے سلامتی کونسل اور نیوکلیئر سپلائر گروپ اور سلامتی کونسل کی رکنیت کیلئے بے قرار ہے اور دونوں اداروں کی رکنیت اسکے مقدر میں نظر نہیں آتی۔ امریکہ اور کچھ دیگر ممالک بھارت کی حمایت پر کمربستہ ہیں۔ کسی بھی ملک کے نیوکلیئر سپلائر گروپ اور سلامتی کونسل کا رکن بننے کیلئے کچھ لوازم اور شرائط ہیں‘بھارت ان پر پورا ہی نہیں اترتا۔ محض مودی کی خواہش اور کچھ ممالک کی پشت پناہی پر بھارت نیوکلیئر سپلائر گروپ کا رکن بن سکتا ہے نہ ہی سلامتی کونسل کی مستقل ممبرشپ حاصل کر سکتا ہے۔   بھارتی ریاستوں میں ریاستی دہشت گردی کیخلاف آزادی کی تحریکیں چل رہی ہیں۔ مقبوضہ کشمیر میں انسانی بحران بدترین شکل اختیار کرچکا ہے‘ جہاں چادر اور چار دیواری کا تحفظ بری طرح پامال کیا جا چکا ہے۔ اقلیتوں کے ساتھ بھارت میں شرمناک سلوک کیخلاف عالمی تنظیمیں آواز اٹھاتی رہتی ہیں۔  گزشتہ دنوں  16  امریکی سینیٹرز نے بھارت میں مذہبی آزادیوں پر ریاستی قدغنوں پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے اپنی حکومت سے بھارت کیخلاف سخت نوٹس لینے اور بھارت کو اقلیتوں کیلئے خطرناک ترین ملک قرار دینے کا مطالبہ کیا تھا۔مگر  امریکی حکومت تو مسخروں کے ہاتھ ہے  وہ صرف اپنے مفا دات کا  تحفظ کرنے کو  اولیت دیتے ہیں انکے لئے جسطرح مسئلہ کشمیر  مسئلہ نہیں  اور جب    ”لالی پاپ“دینا ہوتا ہے ڈرامہ رچا دیتے ہیں ، ہم اور ہماری  حکومتیں  اس لالی پاپ کے سحر میں  کھو  جا تے ہیں  امریکہ تو شرم سے عاری ہے مگر ہماری جانب سے  کشمیر ی عوام کو  ”ڈھکوسلے“ کشمیر کے شہیدوں کے  خون سے غداری کے مترادف ہے۔  بھارت آبادی کے لحاظ سے جتنا بڑا ملک ہے‘ اتنا ہی فسطائیت میں بھی بڑا نام پیدا کرچکا ہے بھارت میں دہشت گرد تنظیموں کی موجودگی اور مودی حکومت کی ان تنظیموں کی سرپرستی انتہائی تشویش ناک معاملہ ہے۔ بھارت کے 44بینکوں سے اربوں ڈالرز کی منی لانڈرنگ کے علاوہ یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ سرکاری سر پرستی میں ان بینکوں سے دہشت گردوں کی مالی معاونت بھی کی جاتی ہے۔ اقوامِ عالم کو اب بھارت کے خلاف تجارتی و اقتصادی پابندیوں،نریندر مودی اور بی جے پی کے رہنماؤں پر سفری و سفارتی پابندیاں لگانے میں ذرہ برابر تامل نہیں کرنا چاہئے یہ وقت کی فوری ضرورت اور دنیا کے مفاد میں ہے، منی لایرڈنگ کی خبر نے تو بھارت کے دہشت گرد ہونے کے  تمام شکوک شبہات  مٹا د یئے  ہیں ، گو کہ بھارت کو  تمام  ترہٹ دھرمیوں کے بعد  کوئی شرم نہیں مگر  وہ عالمی ادارے جو  دہشت گردوں کی تقاریر  عالمی فورم پر کراتے ہیں  اور  بھارتی دہشت گردی، اسکی  اپنی  قرادادوں کو نفی کرنے پر بھارت سے کوئی سوال نہیں کرتے   تو زیادہ بے شرم کون ہوا ؟؟ایسے اداروں سے  تیسری دنیا کے ممالک کیا  توقع رکھ سکتے ہیں،  خطے میں امن و امان کو تہہ  و بالا کرنے والے ممالک  بھارت کو  آبادی اور رقبہ کو مد نظر رکھتے ہوئے علاقے کا ٹھیکہ دار بنان چاہتے ہیں، جو  انکے مفادات کا تحفظ کرے۔مودی نے اپنی تقریر میں گزشتہ سال کی طرح اب بھی خاموشی اختیار کی۔ اقوام متحدہ کی کارکردگی بھی سوالیہ نشان ہے کہ وہ اپنی قراردادوں سے صریح انکار کرنیوالے بھارت سے جواب مانگنے سے قاصر ہے۔ اقوام متحدہ کے رویے میں تبدیلی نہ آئی تو اس کا حشر بھی لیگ آف نیشنز جیسا ہو گا۔ اب جنرل اسمبلی کے شیڈول کے مطابق اینٹی کرپشن ایجنڈے پر ایک خصوصی اجلاس 2021کے پہلے چھ ماہ میں ہوگا، اس پر وزارتِ خارجہ کو وزیراعظم کی خصوصی تیاری کرانے کا فرض پورا کرنا ہوگا، کیونکہ منی لانڈرنگ کے حوالے سے عالمی ادارے، فنانشل کرائمز انفورسمنٹ نیٹ ورک نے بھارت کے خلاف ناقابلِ تردید شواہد پیش کردیے ہیں، فیکٹس فائنڈنگ کے کسی سنجیدہ اقدام پر اس کا یقیناً تعلق پاکستان کے خلاف برسوں سے ہونے والی دہشت گردی سے نکلے  گا  اوربھارت  عالمی اداروں کے سامنے برہنہ  ہوگا۔بھارت دہشت گردوں کی سہولت کاری کرنے اور منی لانڈرنگ کرنے والا ایسا ملک ہے جس نے 44بینکوں کے ذریعے 1.53کھرب ڈالر سے زیادہ کی منی لانڈرنگ سمیت کئی سنگین جرائم کئے ہیں۔ جہاں تک پاکستان کا تعلق ہے، وہ بدترین دہشت گردی کا شکار بھی ہوا ہے، اسے شکست بھی دے چکا ہے اور ایسے ہر طریقے کا خاتمہ بھی چاہتا ہے جس سے دہشت گردوں کی مالی اعانت ہو۔ اسلام آباد دولت کی منتقلی کے ایسے تمام طریقوں کا بھی مخالف ہے جن کے باعث ترقی پذیر ممالک کا ہر سال ایک کھرب ڈالر سرمایہ غائب  ہو رہا ہے۔  بھارت کے خلاف دہشت گردی منی لانڈرنگ کے  کے  واضح ثبوتوں کے باوجود بھی   ”برف گرتی ہے تو بے چارے مسلمانوں پر “ کی مصداق   پاکستان  ہی کا نام ہے  GRAY فہرستوں میں ہوتا ہے  اور پاکستان پر دباؤ  ڈالا جاتا ہے،  ہمارے ہاں مسئلہ یہ سیاست دان  عوام کو گدھا  سمجھتے ہیں  ہر حکومت   اور سیاست دان اپنے آپ کو  عقل کل سمجھتا ہے، FATF  کے معاملے کو  اسمبلی و سینٹ میں لایا گیا۔حزب اختلاف  اور حکومت میں بیان بازیاں ہوئیں  بلا آخر  اسمبلی سے کچھ ممبران  غائب ہوگئے،  گنتی  ہوئی   اور  حکومت  نے  بل منظور کرلیا ،  بحث ختم،  مگر  عوام جنہیں  حیبب جالب نے کہا  تھا   چالیس سال پہلے  ”دس کروڑ یہ گدھے  جنکا نام ہے عوام “  تو  عوام کو کچھ نہیں پتہ کہ  ہم  FATF  کے اجلاس میں کیا وعدے  وعید   لیکر جارہے  ہیں   FATF  کو رام کرنے کو۔ ملک میں جب تک سیاسی ہم آہنگی نہ  ہوگی ملک ایک قدم بھی نہیں  چلے گا،  حکومت  حزب اختلاف   کے ساتھ بیٹھے کو تیار،  نہیں ، کرپشن، کرپشن ،کر پشن   کا راگ ہے۔ دہلہ حاصل نہیں ہوا  توقع یہ تھی کہ حکومت دسمبر تک کے چھ ماہ کے آزمائشی دور میں اپوزیشن سے چھیڑ چھاڑ کئے بغیر اپنی پوری توجہ گورننس پر دے گی تاکہ حکومت پر اعتراض کرنے والوں کے منہ بند ہو سکیں مگر حکومت کو اپنی مضبوطی کا احساس ضرورت سے کہیں زیادہ ہے۔ وفاقی وزیر  فواد چوہدری  فرماتے ہیں کہ مسلم  لیگ ن  اور پی  پی  ملکر   ایک شادی ہال بھی جلسے  کیلئے نہیں بھر سکتے ،  انکا مطلب   ہے   500 آدمی بھی جمع نہیں ہونگے کاش کے کوئی حکومت  اتنی  عوام پسند ہوکہ  بائیس کروڑ کی آبادی  میں سے  حزب اختلاف  کے ساتھ  پانچ سو لوگ  بھی نہ ہوں،ایک طرف فواد چوہدری کا یہ بیان   اور نواز شر یف کی تقریر کے بعد  وزراء کی  ”دوڑکیاں“قابل دید  ہیں ، تمام حکومتی کام ایک طرف رکھ کرکابینہ سمیت  سب اسی کام پر لگ گئے  ہیں کہ حزب اختلاف کی تحریک کو  کسطرح  تہہ و بالا  کیا جائے،جبکہ  جمہوریت  کے معنی میں حزب اختلاف کی آواز  کر دبانا  غیر جمہوری عمل ہے، جو کچھ  حکومت  میڈیا کے ساتھ ”رحم و کرم “ کررہی  ہے وہ ایک طویل  داستان ہے، تعلیم یافتہ ممالک میں بھی حکومت  اور  حزب اختلاف میں جنگ  رہتی ہے، مگر  حزب  اختلاف  کے الزامات کا جوابات  دیتے ہوئے شائیستگی  کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوٹتا۔ مگر    ہماری حکومت کے ترجمان  پر کیا کہا جائے؟؟ ہر حکومت  حزب اختلاف کو  ملک دشمن کہتی ہے، آج جو  حزب اختلاف  بیانئے دے رہی ہے  ماضی میں جب موجودہ  حکومت  حزب اختلاف تھی اسوقت  شائد  آج سے زیادہ  شدید  بیانئے ہر معاملے پر  تھے اب دوسروں کی باری ہے تو اس میں کیا مسئلہ ہے ، اگر کل  آجکی حزب اختلاف   حکومت میں آئی تو وہ بھی اپنا بیانیہ تبدیل کرلے گی  اور  تمام تر سابقہ  بیانات  کو ماضی کہے گی۔ چونکہ عوام  تو ہیں نہ ۔۔۔۔۔۔جیسا میں نے اوپر تحریر کیا ہے ۔حزب اختلاف کا جواب ”شدت سے  مقابلہ“ نہیں بلکہ کارکردگی سے مقابلہ ہونا چاہئے، ملک کی معیشت کی مضبوطی حزب  اختلاب  کے سوالات کا جواب ہونا چاہئے، معیشت  تباہی کے دھانے پر  اور ہم  دس اکتوبر  کو  حزب اختلاف کو   بقول  چوہدری فواد  کا  ”سر پرائز “دینے کے چکر میں ہیں یہ اعداد و شمار  ہماری معیشت کے افسوسناک ہیں کہ   دو  سال کے دوران وفاقی حکومت نے ملکی ذرائع سے 69 کھرب 30 ارب 60 کروڑ روپے کے نئے قرضے لیے، رواں مالی سال کے دو ماہ میں لیے گئے قرضوں کا حجم گذشتہ سال سے 35 فیصد زیادہ ہے، صرف 2 ماہ میں سوا 2 ارب ڈالر کے نئے قرضے لیے۔ جس کے بعد وفاقی حکومت کے قرضے 35 ہزار 555 ارب روپے کی بلند ترین سطح پر جا پہنچے۔ حکومت نے ہر روز اوسطاً15 ارب روپے قرض لیا۔دوسری جانب  آئی ایم ایف   دوسری قسط  اس شرط پر دینے کو تیارہے کہ عوامی استعمال کی  گیس،  بجلی  (جو عوام کو ملتی بھی مشکل سے ہے )  کے دام بڑھائے جائیں  اس پر  سبسڈی  ختم کی جائے، عوام پہلے ہی بے روزگاری،  اور مہنگائی کے  ناک  دباؤ میں ہیں اللہ جانے آنے والے سال میں کیا ہوگا  اللہ اپنا رحم فرمائے اور  سیاست دانوں کو  محب وطنی اور انکے دلوں کو  عوام کی محبت سے آشناء کرے آمین۔