پنجاب کارڈ کھیل کر ریڈ لائن کراس ہو رہی ہے، بلاول بھٹو اور آصفہ بھٹو کے بارے میں باتیں کرنا نامناسب ہے

پیپلزپارٹی کی سینیٹر شیری رحمٰن نے کہا کہ پنجاب کارڈ کھیل کر ریڈ لائن کراس ہو رہی ہے، بلاول بھٹو اور آصفہ بھٹو کے بارے میں باتیں کرنا نامناسب ہے، بلاول بھٹو نے بس اتنا کہا کہ بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کو استعمال کرکے سیلاب متاثرین کی مدد کی جائے۔

انہوں نے کہا کہ لوگوں کی تذلیل کرکے حکومتی اتحاد نہیں چلا کرتے، معافی مانگ کر کسی کی عزت نفس میں کمی نہیں ہوتی۔

یاد رہے کہ گزشتہ روز سندھ کے سینئر وزیر شرجیل انعام میمن نے پریس کانفرنس کے دوران دعویٰ کیا تھا کہ پنجاب حکومت ہماری آڑ میں وزیراعظم کو نشانہ بنارہی ہے اور ایسا ماحول پیدا کرنے کی کوشش کی جارہی ہے پیپلزپارٹی وفاقی حکومت کوسپورٹ نہ کرے۔

جس کے جواب میں وزیر اطلاعات پنجاب عظمیٰ بخاری نے کہا تھا کہ آپ اتنے بچے ہیں پنجاب حکومت آپ کو وفاق کے خلاف سازش کرنے کی طرف دھکیل رہی ہے اور آپ اس کا حصہ نہیں بن رہے ہیں، انہوں نے سوال کیا کہ آپ کو پنجاب کے سیلاب متاثرین پر سیاست کرنے کے لیے وزیراعظم نے کہا تھا؟

پاکستان پیپلزپارٹی نے ایک بار پھر قومی اسمبلی اور سینیٹ اجلاس سے واک آؤٹ کردیا اور پنجاب حکومت کی بیان بازی رکنے تک مفاہمت سے انکار کر دیا۔

ڈان نیوز کے مطابق قومی اسمبلی کا اجلاس اسپیکر ایاز صادق کی زیر صدارت شروع ہوا، وقفہ سوالات کے دوران پیپلز پارٹی کے رکن راجا پرویز اشرف نے نکتہ اعتراض پہ وقت مانگ لیا جس پر اسپیکر نے کہا کہ یہ طے ہے کہ وقفہ سوالات کے دوران پوائنٹ آف آرڈر نہیں ہو سکتا، تاہم اراکین کے اصرار پر اسپیکر نے پرویز اشرف کو فلور دے دیا۔

سابق وزیراعظم نے ایوان میں اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ میں جانتا ہوں وقفہ سوالات میں بات نہیں ہو سکتی، تاہم اس وقت ایک اہم مسئلہ ہے جس سے ہمارے لوگ دوچار ہیں، ہم حکومت کے اتحادی ہیں اور صرف وفاق پاکستان کے لیے ہم نے حکومت سے اتحاد کیا۔

ان کا کہنا تھا کہ سیلاب سے بہت سے لوگ متاثر ہوئے، بلاول بھٹو تمام متاثرہ علاقوں میں گئے اور مجھے دکھ ہوا ہے کیوں کہ بلاول بھٹو تو حکومت پنجاب اور وزیر اعلی کی تعریف کر رہے تھے جب کہ معرکہ حق میں بھی انہوں نے ملک کی نمائندگی کی اور بے نظیر کا بیٹا، بھٹو کا نواسہ ہونے کا حق ادا کیا۔

انہوں نے کہا کہ ہم بھی الجھنا نہیں چاہتے اور نہ ہم وفاق کو کمزور کرنا اور صوبائیت پھیلانا نہیں چاہتے، ہم وفاق کمزور کرنے والے نہیں، پاکستان کھپے کا نعرہ لگانے والے لوگ ہیں، ہم صوبوں اور ملک کو مضبوط بنانے کے خواہاں ہیں اور آپ کے علم میں تمام معاملہ ہے۔

راجا پرویز شرف کا کہنا تھا کہ کشمیر کا معاملہ ہوا تو میں بھی وفد کا حصہ بن کر گیا، جو غیر ذمہ دارانہ بیانات آ رہے ہیں اس سے صرف پیپلزپارٹی کارکنان نہیں پورے ملک میں پریشانی ہے، ایسے میں ہمارے خلاف جو زبان استعمال ہوئی میں دہرا بھی نہیں سکتا، اسے ہماری کمزوری نہ سمجھا جائے۔

انہوں نے کہا کہ جب تک پنجاب سے کوئی بات نہیں ہوتی اور کوئی ذمہ دار یہاں یقین دہانی نہیں کروائے گا ہمارا ایوان میں بیٹھنا ممکن نہیں، جب تک ہمیں کوئی مطمئن نہیں کرتا ہم واک آؤٹ کریں گے۔

مزید کہا کہ پنجاب اسمبلی میں ہمارے پارلیمانی لیڈر کی سیکیورٹی واپس لے لی گئی، بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے حوالے سے باتیں کی گئیں، ہمارے چہرے پر خراشیں ڈالی جا رہی ہیں ہم جوابا ایسا نہیں کر سکتے کیونکہ ہماری ایسی سیاسی تربیت نہیں۔

اس دوران، پاکستان تحریک انصاف کے رکن اور سابق اسپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر نے پیپلزپارٹی کے موقف کی تائید کرتے ہوئے کہا کہ پیپلز پارٹی کے فرینڈلی فائر کو خوش آمدید کہتے ہیں، اگر یہ سنجیدہ ہیں تو عدم اعتماد لائیں ہم ساتھ دیں گے۔

بعد ازاں، پیپلزپارٹی اراکین نے وزیراعلیٰ پنجاب کی جانب سے تنقید پر سخت احتجاج ریکارڈ کرایا اور ایوان سے واک آؤٹ کردیا۔

اسپیکر ایاز صادق کی مفاہمت کی کوشش بھی ناکام رہی، پیپلز پارٹی نے پنجاب حکومت کی بیان بازی روکنے تک کسی قسم کی مفاہمت سے انکار کر دیا۔

پیپلز پارٹی نے اسپیکر کو جواب دیا کہ بلاول بھٹو اور پیپلز پارٹی کے خلاف بیانات جاری رہنے پر کسی قانون سازی کا حصہ نہیں بنیں گے۔

آخر کار، قومی اسمبلی کا ہنگامہ خیز اجلاس کورم مکمل ہونے تک ملتوی کردیا گیا، قومی اسمبلی کا اجلاس 9 اکتوبر بروز جمعرات شام 5 بجے تک ملتوی کیا گیا۔

سینیٹ میں واک آؤٹ
اس سے قبل، پاکستان پیپلزپارٹی نے سینیٹ اجلاس سے بھی واک آؤٹ کیا، پیپلزپارٹی نے موقف اپنایا ہماری قیادت سے معافی نہیں مانگی گئی لیکن ہمیں گرانٹڈ نہیں لیا جائے، پیپلزپارٹی کے سینیٹرز ایجنڈا کی کاپیاں پھاڑتے ہوئے اجلاس سے چلے گئے۔

جس کے بعد پی ٹی آئی کے سینیٹر بھی ایوان سے واک آؤٹ کرگئے، ڈپٹی چیئرمین سینیٹ نے ایوان کی کارروائی بروز جمعرات شام 5 بجے تک ملتوی کردی۔

بعد ازاں، وفاقی وزیر قانون نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ اپوزیشن خوش نہ ہو، کوشش کریں گے کہ دوستوں کو منا کر واپس لے آئیں، سیاست میں نرمی گرمی چلتی رہتی ہے۔