پاکستان کے مشہور کرکٹ کمنٹیٹر حسن جلیل – وہ نئے روپ اور انداز میں آپ کے سامنے جلد آرہے ہیں۔

پاکستان کے مشہور کرکٹ کمنٹیٹر حسن جلیل

وہ نئے روپ اور انداز میں آپ کے سامنے جلد آرہے ہیں۔
·
زی اسپورٹس یو ایس اے کے بیٹ، بال اور مزید کے سیٹ پر زاہد محمود کے ساتھ۔ جلد آرہا ہے۔


کیا اردو کرکٹ کمنٹری زوال کا شکار ہے؟
پی ایس ایل برانڈ کا مستقبل کیا ہے؟

https://www.facebook.com/HasanJalilOfficial/videos/287611589326259
یادیں زندگی کا بڑا قیمتی سرمایہ ہوتی ہیں انہی یادوں کے سہارے انسان برسوں اور میلوں کے فاصلے پلک جھپکتے میں طے کرلیتاہے۔ یادیں جو زمانے کی تندوتیز ہواؤں سے بےنیاز رنگ برنگے پھولوں کی طرح کھل اٹھتی ہیں اور ان سے چمن حیات کا گوشہ گوشہ مہک اٹھتا ہے۔ آج دل چاہا کہ ان خوبصورت یادوں سے سجے اپنے لڑکپن کے چند لمحات دوستوں کی نذر کروں اور انہیں بھی ماضی کی ان وادیوں میں لے چلوں جہاں ہر شے حسین تھی ۔بے فکری کے دور میں وقت ہمارے ساتھ چلتا تھا اور ہماری خواہشوں کے ساتھ گھومتا تھا۔ کرکٹ کا مجھے بچپن سے ہی شوق تھا اور کمنٹری کا بھی.جب آٹھویں جماعت میں تھا تو arithmetic کی ایک کتاب آتی تھی تقریباً ایک ہزار صفحات کی اس پر کرکٹ کھیلا کرتا تھا، باقاعدہ سکور بورڈ بناتا اور تبصرہ لکھتا۔ جب کوئ سیریز شروع ہوتی تو اخباروں کی کٹنگ اور تصویروں سے البم تیار کرتا۔ ایک میگزین بھی ڈیزائن کیا جو ھم عمر لڑکوں نے بہت پسند کیا۔ ہمارے کزن تھوڑے ہی فاصلے پر رہتے تھے اور تینوں بھائیوں کو نہ صرف کرکٹ کا شوق تھا بلکہ کھیلتے بھی بہت اچھا تھے۔ ان کا دوستوں کا حلقہ بھی بہت وسیع تھا اس لئے بہت جلد ہمارا ایک مضبوط کرکٹ کا گروپ بن گیا۔ سعید بھائ سب سے بڑے تھے ان کے بعد بدر اور پھر مظہر تھے۔ غلام نبی باقاعدہ اور بہترین کرکٹر ہونے وجہ سے ہمارے گروپ کے خود ساختہ لیڈر اور کوچ بن گئے۔ دوسرے ریگولر کھلاڑیوں میں خالد، نجی، نظیم، شفاعت شامل تھے۔ گھر کے قریب ایک بڑا گودام تھا۔ ایک طرف چھوٹی سی عمارت تھی باقی میدان خال تھا۔ یہ گودام ہمارا کرکٹ گراونڈ بن گیا۔ ہر روز سکول اور کالج کے بعد وہاں کرکٹ ہوتی تھی۔ گرمیوں کی چھٹیوں میں یہ جوش وخروش اور بڑھ جاتا۔ گھر والے سو رہے ہوتے اور ہم گودام میں پہنچ کر پچ صاف کرتے، جھاڑو دینے کے بعد اس پر پانی چھڑکا جاتا اور پھر وکٹیں لگائ جاتیں اس دوران سعید بھائ کی ڈانٹ ڈپٹ بھی چلتی رہتی۔ سعید بھائ اچھے آل راونڈر تھے اور اچھے بیٹسمین بھی لیکن مسئلہ یہ تھا کہ وہ ہر گیند پر بیٹسمین کو آوٹ سمجھتے اور باقاعدہ بحٹ کرتے لیکن اپنی باری پر ؤہ آوٹ ہونے لئے تیار نہ ہوتے اور مخالف ٹیموں کو بے ایمان قرار دے کر کھیلتے رہتے لیکن انکی وجہ سے کھیل میں مزہ بھی آتا اور رونق بھی خوب رہتی۔ بدر دانشنمندی اجھے میڈیم پیس بولر تھے ان کا شوق اپنی تصویریں کھنچوانا تھا اور تصویریں اجھی بھی آتی تھیں لہذا یہ بیماری دوسرے لڑکوں کو بھی لگ گئی اور ایک سے بڑھ کر ایک پوز بنا کر ہیرو نظر آنے کی کوشش کرنے لگے۔ مظہر واقعی تیز بولر تھے وہ انڈر نائنٹین کے ٹرائل میں منتخب بھی ہوگئے تھے۔ غلام نبی کئ مشہور کلبزکی جانب سے کھیل چکے تھے اس لئے سب لڑکے ان سے مرعوب بھی رہتے تھے۔ ایک اور کھلاڑی ضیا الرحمن تھے جنہوں نے بعد میں فرسٹ کلاس میچوں میں نیشنل بنک کی نمائندگی بھی کی۔ نہ جانے کیوں یہ محسوس ہوتا ہے کہ ٹی ٹوئنٹی کی ایجاد کا سہرا ہمارے ہی سر ہے۔ اس لئے کہ جب ہم نے کراچی میں ماہ رمضان میں دس دس اور بیس بیس اوورز کے میچ شروع کئے وہ ساٹھ کی دہائ تھی اور اس وقت تو سوائئے ٹیسٹ کرکٹ کے کوئ اور فارمیٹ موجود ہی نہیں تھا۔ کرکٹ کے شوق میں اور میچ کھیلنے لئے ٹرین اور بسوں کے سفر آج بھی ذھن میں تازہ ہیں اسی دوران مجھے کرکٹ کمنٹری کا شوق پیدا ہوا۔ عمر قریشی صاحب ذھنوں پر چھائے ہوئے تھے میں انکی بہت کامیاب نقل اتارنے لگا۔ اس زمانے میں نیا نیا ٹو ان ون یعنی ٹیپ ریکارڈر اور ریڈیو آیا تھا جب لڑکے اکٹھے ہوتے تو میں کمنٹری کرتا دوستوں کی تسلیاں اور شور ماحول بناتا اور پھر ہم اس ریکارڈنگ کو گھر گھر لے جاکر بزرگوں کو سناتے اور داد ؤصول کرتے- میں سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ کبھی میں بھی قریشی صاحب کے ساتھ کمنٹری کا اعزاز حاصل کرونگا۔ میں شکر گذار ہوں اللہ تعالی جس کی کرم نواز یوں نے میری ہر خواہش پوری کی۔ عمر کے اس حصے میں یو ں لگتا ہے جیسے وقت پر لگا کر اڑ گیا ہے بہت کچھ بدل گیا ہے نہ وہ لمحات ہیں نہ وہ شوق وجذبات، دوست بھی سب بکھر گئے۔ نارتھ کیرولینا میں اچانک نظیم سے ملاقات ہوئ۔ البتہ دانشمندی برادران سے فون پر یا جب پاکستان جانا ہو تو بات ہوتی رہتی ہے ۔ سعید بھائ کی بڑی خواہش تھی کہ میں اس زمانے پر کچھ لکھوں ۔ آج موڈ بنا تو لکھ ڈالا۔ باتیں تو بے شمار ہیں انشااللہ کچھ اور بھی لکھونگا۔

========================

https://jeeveypakistan.com/wp-admin/post.php?post=223512&action=edit