بہرم ڈی آواری۔ایک لیجنڈ کا سفر زندگی تمام….


سہیل دانش
==========
کامیاب و کامران شخصیات کی سوانح پڑھنا میرا سب سے محبوب مشغلہ اور شوق رہا ہے۔کسی میں تھرل‘ ہنگامہ خیزی‘ ہلچل کسی کی کہانی میں قسمت کے عجیب و غریب رنگ کہیں جدوجہد اور محنت سے عبارت سفر‘ کسی کی زندگی میں حسن کارکردگی اور کمٹ منٹ کہیں ذہانت‘ چابکدستی اور کچھ کرنے کے ارادے اور حوصلے سے وابستگی‘ لیکن خوابوں کی تعبیر میں ڈھالنے اور اپنی منزل پانے کی لگن وہ انسپائرنگ اور ڈرائیونگ فورس دکھائی دیتی ہے جو انسان کو کامیاب بنانے میں کلیدی حیثیت رکھتی ہے۔ہاں یہ ماننا پڑے گا۔بہت سے ایسے کامیاب انسانوں کے پیچھے ان کے ارادوں‘ عزائم اور کوشش کے ساتھ ساتھ مقدر بھی ایک خصوصی کردار ادا کرتا دکھائی دیتا ہے۔بہرام ڈی آواری بھی ایسے ہی نایاب اور قیمتی لوگوں میں سے ایک تھے۔میں نے کئی بار ان کی سوانح کو رقم کرنے کی خواہش کا اظہار کیا لیکن ان کی مصروفیات کے سبب ان کی زندگی کامیابی کے تمام ابواب کو اکٹھا نہ کر سکا۔آج جب وہ اس دنیا سے چلے گئے ہیں تو شاید میں اپنی اس خواہش کی تکمیل کر سکوں۔ بغیر لگی لپٹی اور صاف گوئی سے اپنی بات کہہ دینے والے بہرام ڈی آواری ان کامیاب اور روشن لوگوں میں سے ایک تھے۔جنہوں نے زندگی میں کاروبار بھی کیا۔کچھ بنیادی اصول بھی اپنائے‘ دوستیاں اور تعلقات بھی نبھائے‘ انتھک محنت بھی کی تیز وتند زندگی گزاری۔ لیکن جذباتیت سے کبھی مغلوب نہیں ہوئے۔ان کے ذہن میں اپنے اہداف بڑے واضح ہوتے تھے۔لبرل سوچ کے مالک تھے۔دنیا بھر میں گھومتے پھرتے رہے۔ لیکن اپنے وطن کی معاشرتی اقدار سے خود کو الگ نہیں کیا۔یہی وجہ ہے کہ اپنی عادت و اطوار رکھ رکھاﺅ اور نفیس طبیعت کے سبب ان کا

حلقہ احباب پاکستان کے علاوہ دنیا بھر میں تھا۔ان کی خوبی ہی یہ تھی کہ وہ سب کے دوست تھے اور ہرکوئی انہیں اپنا سب سے اچھا دوست سمجھتا تھا۔بات کہنے سے زیادہ سننا پسند کرتے تھے۔ان کے ساتھ درجنوں بار لمبی لمبی بیٹھک لگی جب کشتی رانی کا جنون سوار ہوا تو پھر قابل فخر کامیابیاں سمیٹیں 1978ءمیں ایشین گیمز میں گولڈ میڈل سینے پر سجایا یہ ان کی زندگی کا گولڈن پیریڈ تھا۔ان کی اہلیہ گوشپی آواری بڑی زندہ دل خاتون تھیں، ہر موڑ پر ہر میدان میں وہ شوہر کی نہ صرف اچھی دوست اور ساتھی تھیں بلکہ اسپورٹس سے بزنس تک وہ ہر لمحے ان کے ساتھ شامل


حال رہیں۔بہرام آواری بھی ہر فیصلے میں ان کی رائے کو بڑی اہمیت دیتے تھے۔اپنے والد سے انہوں نے زندگی میں کامیابی کے گر سیکھ لئے تھے۔ہوٹلنگ کی صنعت میں ان کی غیر معمولی دلچسپی بھی بتدریج ان کے دائرہ کارکو وسیع کرتے ہوئے آج یہ سطریں لکھتے ہوئے سچ مچ وہ بہت یاد آ رہے ہیں۔وہ واقعی ایک پرجوش اور بلند حوصلہ انسان تھے مشکلات کو پھلانگنا جانتے تھے نت نئے تجربات کے عادی تھے وہ سمجھتے تھے


کہ زندگی کے دریا میں کچھ نہ کچھ نیا کر کے ہی انسان خود کو منفرد اور نمایاں کر سکتا ہے۔ان کا سب سے سادہ تعارف یہ ہے کہ وہ سب کے دوست تھے۔محبت و پیار بانٹنے والے ہر کسی کے کام آنے والے۔دنیا بھر میں کاروباری نیٹ ورک سے جڑے رہنے کے باوجود انہیں کراچی سے عشق تھا، اس شہر کی ہر ادا سے واقف تھے،کہتے تھے دنیا بھر میں گھومتا ہوں لیکن پاکستان میں آ کر ایک نئی طمانیت اور توانائی محسوس ہوتی ہے۔یہ اپنا گھر ہے۔کبھی کبھی بلکہ اکثر کراچی کے بدلتے رنگ اور چہرے کا تذکرہ وہ بڑی دلچسپی سے کرتے۔ایک دن کہنے لگے کراچی ایک کاسمو پولیٹن شہر تھا۔آج بھی ہے اور ہمیشہ رہے گا۔ اس شہر کی راہیں ہر ایک کے لئے ہمیشہ کشادہ رہتی ہیں، خواہ وہ آزادی کے بعد آنے والے مہاجرین ہوں۔

اس پرانے شہر میں قدیم رہنے والے بلوچی ہوں پھر وقت کے ساتھ ساتھ پورے پاکستان سے آنے والے پنجابی پٹھان سندھی اور تمام لسانی اکائیاں ہوں یہ ہر ایک کو خوش آمدید کہنے کے لئے مضطرب رہتا ہے، جہاں رہنے والے پارسی ہوں۔ آپ ان کی خدمات اور اس شہر کی ترقی میں ان کے کردار کو کیونکر نظر انداز کر سکتے ہیں۔یہ پاکستان کا واحد شہر ہے، جس کو آپ ہمیشہ ملٹی نیشنل کلرز میں رنگا دیکھتے ہیں۔ میں ابتدائی زندگی میں پڑھنے کی غرض سے گھوڑا گلی مری گیا وہاں پر ایسا سکون تھا بلکہ سکوت تھا۔سناٹے اور کم آبادی کے باوجود نہ کسی کو کوئی خوف تھا نہ کبھی اس وقت کسی کی حفاظت کے لئے گارڈز دیکھے۔سچ پوچھیں تو یہی حال کراچی کا تھا۔میرے والد کہا کرتے تھے کہ یہ شہر بزنس کے لئے جنت کی طرح ہے، یہاں مواقع بھی ہیں۔سب سے زیادہ ذہین اور سوجھ بوجھ کے لوگ یہیں رہتے ہیں، دنیا بھر کے لوگ یہاں آتے ہیں۔ بلا خوف و خطر اس شہر میں گھومتے پھرتے ہیں، اس لئے وہ کہا کرتے تھے کہ ہوٹلنگ بزنس کے حوالے سے کراچی دنیا کے کسی شہر سے کم نہیں۔وہ بتاتے تھے کہ ان کے والد نے کہ کہ کراچی میں سب کچھ ہے، یہاں کتنی لسانی اکائیوں کے لوگ آباد ہیں ایک دوسرے کے لئے پیار و محبت رکھتے ہیں۔کیا زمانہ تھا جب نہ کوئی تعصب کی بات کرتا تھا نہ کوئی تفریق اور تقسیم کی بات تھی ہم نے اسی شہر میں تعلیم حاصل کی یہاں سب کچھ سیکھا قدم قدم پر لوگوں کے ساتھ روابط اور رویوں کو دیکھا۔یہ سب کچھ بہت ہی خوشگوار تجربہ ہے۔سچی بات تو یہ ہے کہ بہرام آواری جس طرح اپنی ذات میں ایک انجمن تھے۔زندگی کا کون سا ایسا طبقہ فکر تھا جن کے ان سے قریبی تعلقات اور ارادت کا رشتہ نہ ہو۔انہوں نے زندگی میں عزت اور شہرت کمائی۔ہاں یہ درست ہے کہ یہ ان کی خوش بختی تھی کہ انہوں نے سونے کا چمچہ منہ میں لے کر آنکھ کھولی تھی۔لیکن انہوں نے اپنے والد کے اس سبق کو گرہ سے باندھ لیا تھا کہ کامیابی کے تمام راستے علم‘ ذہانت اور محنت سے نکلتے ہیں۔انہیں اندازہ تھا کہ اگر انسان ارادہ کر لے تو پھر اپنے قد سے اونچی دیوار پھلانگ سکتا ہے زندگی میں کوئی رکاوٹ آپ کا راستہ نہیں روک سکتی۔اگر آپ میں حوصلہ اور صلاحیت ہو۔وہ عموماً کہتے تھے یار میں تو معمولی سا بندہ ہوں وہ لوگ بھی تو ہیں جو ماﺅنٹ ایورسٹ جیسے اہداف عبور کر لیتے ہیں۔ بس اگر عقل اور محنت آپ کے پاس ہے تو آپ کچھ بھی بن سکتے ہیں جب کسی منصوبے کے متعلق سوچتا ہوں تو صرف یہ پختہ ارادہ ہوتا ہے کہ میں یہ کر گزروں گا۔بہرام آواری نے بھی اپنے والد کی وراثت کو یوں آگے بڑھایا کہ سب ششدر رہ گئے میں نے ان کے کئی کاروبار کو بہت قریب سے دیکھا ان کی لیڈرانہ صلاحیتوں کا میں پہلے ہی قائل تھا۔وہ جو بزنس پلان بناتے تھے اسے ہر قیمت پر کامیاب کرنے کے لئے ان کے پاس ویژن‘ عقل اور کام کرنے کی صلاحیت موجود ہوتی تھی، ان کے کام کرتے دیکھ کر مجھے اندازہ ہوتا تھا کہ یہ قتل کو معاف کر سکتے ہیں لیکن ان کے نزدیک کام میں کوتاہی وقت کا ضیاع اور دوران ڈیوٹی فضول گپ شپ کی کوئی معافی نہیں۔آج جب وہ اس دنیا میں نہیں لیکن ان کی کاروباری کامیابیوں کو دیکھ کر میں بآسانی کہہ سکتا ہوں کہ بہرام آوازی صاحب کسی شخص کا نام نہیں ایک جدوجہد کا نام ہے۔ہاں یہ شخص مجھے ہمیشہ ایک کھلی کتاب کی طرح لگا۔وہ دوٹوک انداز میں بات کرتے تھے۔کاروباری معاملات میں بھی نفع نقصان کا فارمولا اپناتے ہوئے وہ کبھی کسی کا نقصان نہیں چاہتے۔شاید یہ بات بہت کم لوگوں کو معلوم ہے کہ وہ کئی خیراتی اداروں ے لئے فنڈز مہیا کرتے بلکہ اس سلسلے میں اپنا اثرورسوخ بھی استعمال کرتے۔ان کی ایک بڑی خوبی یہ تھی کہ دوسروں پر اپنے ساتھیوں پر بے پناہ اعتماد اور بھروسہ کرتے ان کے لہجے میں جوش ہوتا ہوش ہوتا اور ساتھ ساتھ وہ جس موضوع پر بات کرتے ان کا کبھی بھی لہجہ شکستہ نہیں دیکھا۔پورے اعتماد سے بات کرتے۔ ایک دن میں نے ان سے کہا کہ پاکستان میں بے روزگاری خطرناک حد تک بڑھ گئی ہے سرمایہ داروں کو کاٹیج انڈسٹری کی طرف آنا چاہیے کہ لوگوں کو چھوٹی چھوٹی ملازمتیں مل سکیں۔یکدم بولے میرا خیال میں دنیا میں کوئی بے روزگار نہیں کہ جس شخص کو قدرت نے عقل سے نواز ہو دو ہاتھ دیے ہوں وہ بے روزگار کیسے رہ سکتا ہے؟ محروم‘ نادار اور مسکین کیسے ہو سکتا ہے؟ بہرام آواری اب ہم میں نہیں رہے لیکن ان کی یادتیں اور باتیں ہمیشہ یاد رہیں گی۔ مجھے تو وہ جوان بہرام آواری بھی یاد ہیں جو نیکر اور بنیان میں لگژری ہوٹل کے لان میں اپنی اہلیہ کے ساتھ کشتی رانی میں ایشین گولڈ میڈل کا تمغہ سینے پر سجائے فخریہ ہم سے گفتگو کر رہے تھے اور وہ بہرام آوازی بھی جو زندگی کی آٹھ دہائیاں دیکھنے کے کے باوجود اپنے کام سے عشق رکھتے تھے نہ جانے ہم نے کتنی بار لاہور اور کراچی میں ان کی ہوٹلوں میں قیام کیا وہ صحافیوں کے بڑے دوست اور ہر وقت ان کا خیال رکھتے درجنوں تقریبات کے لئے میں نے جب بھی کہا ان کے قلم سے بل کی کٹوتی یقینی تھی ان کے صاحبزادے خصوصاً ڈتسنا ہمارے لئے اتنے ہی عزیز اور محترم ہیں۔
======================