کٹاس راج کے مندر ۔۔تاریخ کے اوراق سے


تحریر ۔۔۔۔۔شہزاد بھٹہ
=============
پنجاب پاکستان کے علاقے کوہستان نمک کے درمیان چکوال شہر سے تقریباً تیس کلومیٹر دور جنوب کی جانب ہندوؤں کا متبرک مقام کٹاس راج واقع ھے مہابھارت جو مسیح علیہ السلام سے 300 سو سال پہلے لکھی گئی اس میں اس جگہ کا ذکر موجود ھے اس کی وجہ تسمیہ کے بارے تاریخ جہلم کے پرانے نسخے میں بتایا گیا ھے کہ براہمنوں کی روایت کے مطابق جب شیوا دیوتا کی بیوی ستی مر گئی تو اسے اتنا دکھ و افسوس ھوا کہ اس کی آنکھوں سے آنسوؤں کی ایک لڑی جاری ھو گئی اور ان سے دو متبرک تالاب وجود میں آگئے ایک پشکار ( اجمیر) اور کٹکشا ،سنکرت میں اس کا مطلب آنسوؤں کی لڑی ھے یہی لفظ کٹکشا بعد میں کثرت استعمال سے کٹاس بن گیا
جنرل الیگزینڈر کننگھم جو کہ آرکیالوجیکل سروے آف انڈیا کے ڈائریکٹر جنرل (1872 _73 ) تھے کے بقول ،کٹاس کا مقام ہندوؤں کے لیے نہایت مقدس مقام کی حیثیت رکھتا ھے
ایک روایت کے مطابق پانڈووں نے کٹاس میں بارہ سال گزارے اور ست گڑھ کے مندر تعمیر کروائے
کوہستان نمک کی شہرت نہ صرف جانوروں کی ہڈیوں کے فوسلز کی حالیہ دریافت کی بناء پر ھے بلکہ اھمیت کی اصل وجہ قدیم بدھ کے معبد اور ہندو مت کے مندروں کے آثار ھیں جو اس کی وادیوں میں جابجا بکھرے ھوئے ھیں ان آثار قدیمہ میں قابل ذکر نندنا،ملوٹ،گندھارا مورتی اور کٹاس ھیں
بنیادی طور پر کٹاس کی وجہ شہرت وہ قدرتی چشمے ھیں جن گنیا نالہ نکلتا ھے چینی سیاح ہیوان سانگ کے مطابق یہ تالاب مختلف ناموں سے پکارا جاتا ھے جیسا کہ وسکنڈ ( زہریلا چشمہ) ،امیر کنڈ،چمر کنڈ، اور کٹکشا کنڈ کہلاتا ھے
ست گڑھ یا سات مندروں سے روایت ھے کہ یہ مندر پانڈووں نے اس وقت تعمیر کئے جب وہ کورووں سے شکت کھانے کے بعد کوہستان نمک میں بن باس کی زندگی گزار رھے تھے لیکن مندروں کا طرز تعمیر ساتویں تا دسویں صدی عیسوی کے دوران کشمیر میں تعمیر ھونے والے مندروں سے مماثلت رکھتا ھے یہ مندر تراشیدہ پتھروں سے بنائے گئے ھیں ان میں چنائی اور پلستر کے لیے چونا استعمال کیا گیا ھے
چینی سیاح ہیوان سانگ کے مطابق کٹاس میں ایک سٹوپہ بھی تھا جس کی اونچائی 200 فٹ تھی جسے مہاراجہ اشلوک اعظم نے تعمیر کروایا تھا
مشہور سکھ جنرل ہیری سنگھ نلوہ نے اس مقام پر ایک حویلی ( دیوان خاص و زنانہ خانہ ) تعمیر کروائی
کٹاس کی عمارات ہندوؤں اور سکھ مذائب کے ماننے والوں کے لیے یکساں اہمیت کی حامل ھیں پاکستان اور ہندوستان سے ہندو اور سکھ یاتری ان قدیم مندوں کی یاترا کے ھر سال آتے ہیں یہ عمارات فن تعمیر کے نادر نمونے ھیں حکومت پاکستان نے سابقہ نگران وزیراعظم چوہدری شجاعت حسین کے دور میں پہلی دفعہ کٹاس راج میں ترقیاتی منصوبوں پر کام کروایا اور چوہدری پرویز الٰہی سابقہ وزیر اعلی پنجاب نے بھی جون 2006 میں کئی ملین روپے سے یہاں پر ترقیاتی کام کروائے تاکہ کٹاس راج مندر کی یاترا پر آنے والے یاتریوں کو مناسب اور بنیادی سہولیات فراہم کی جاسکیں
حکومت پاکستان و پنجاب کو چاھیے کہ وہ کٹاس راج مندر جیسے قدیم ورثہ کو اپ گریڈ کرنے کے لیے مزید بنیادی سہولیات کی فراہمی کو یقینی بنانے کے لیے اقدامات کرے
یہاں سیاحوں کے لئے ہوٹلز اور کاروباری مراکز بنائے سڑکوں کی حالت کو بہتر کیا جائے بلکہ بین الاقوامی قومی مذہبی ٹور ازم کو فروغ کے کٹاس کے علاقے میں ایک اہرپورٹ بنائے تاکہ دنیا بھر سے ہندو سکھ اور بدھ مت کے پیروکار آسانی سے یہاں پر آسکیں اور اپنی مذہبی رسومات ادا کریں اس سے پاکستان کو لاکھوں کروڑوں کا زرمبادلہ بھی حاصل ھو سکتا ھے بلکہ ان سیاحوں کے لئے کٹاس کے مقام پر شاپنگ سینٹر بھی قائم کئے جائیں جہاں سے وہ پاکستانی مصنوعات خرید سکیں
کٹاس کے مقام پر ایک بین الاقوامی یونیورسٹی بھی بنائی جا سکتی ھے جہاں پر تاریخ جغرافیہ اور ثقافتی ورثے کی کلاسز کروائی جائیں قدرت نے پاکستان کو بے شمار قدیمی ورثہ اور وسائل سے نواز رکھا ھے جس کو استعمال کرنے کی ضرورت ھے مگر ھم صرف آئی ایم ایف اور دیگر مالیاتی اداروں سے بھیک مانگنے کے سوائے کچھ نہیں کر سکتے کیونکہ ھم آرام طلب زندگی کے عادی ھو چکے ھیں
=====================