بھارت کے مسلم ممالک سے بڑھتے تعلقات، پاکستان کے لیے لمحہ فکریہ ؟


ویو پوائنٹ
========

نوید نقوی
=============
قوموں کی تقدیر اچانک ہی نہیں بدلتی بلکہ اس کے لیے طویل منصوبہ بندی اور محنت درکار ہوتی ہے اس کے بعد کہیں جا کر اس محنت کا پھل ملتا ہے اور وہ قومیں ترقی کی معراج تک پہنچنے میں کامیاب ہوتی ہیں۔ ہمارے پڑوس میں بھی ایسا ہوا ہے اور خاموشی سے کی گئی محنت کا صلہ ملنا اب شروع ہو گیا ہے۔ بھارت اب دنیا کی پانچویں بڑی معیشت بن چکا ہے اور آبادی کے لحاظ سے بھی دنیا کا سب سے بڑا ملک بننے کے قریب ہے۔ آج مشرق وسطیٰ کے تمام عرب ممالک کے ساتھ اس کے تجارتی تعلقات اپنی نئی بلندیوں پر پہنچ چکے ہیں اور متحدہ عرب امارات ہو یا سعودی عرب مودی کی مسلمان دشمن پالیسیوں کو جاننے کے باوجود اس کے ملک کے ساتھ تعلقات رکھنے پر مجبور ہیں اور ہم تمام تر کوششوں کے باوجود اپنے ان دیرینہ خلیجی دوستوں کو انڈیا کے خلاف نہیں کر سکے پانچ اگست 2019 کو جب مودی گورنمنٹ نے کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرتے ہوئے اس ریاست کو بھارت میں ضم کیا تو اس وقت بھی متحدہ عرب امارات اور دیگر خلیجی ریاستوں نے مودی کے اس سفاکانہ اقدام کی مذمّت کرنا گوارا نہیں کیا تھا اس کی سب سے بڑی وجہ انڈیا کی کمپنیوں کی ان عرب ممالک میں بھاری سرمایہ کاری کرنا اور بھارت نژاد باشندوں کا ان ممالک کی معیشت میں اہم کردار ادا کرنا ہے، مودی جب سے انڈیا کی وزارت عظمیٰ پر فائز ہوئے ہیں مشرق وسطیٰ کے ممالک کے بعد اب بھارت مغربی ایشیا اور شمالی افریقہ میں اپنے اثر و رسوخ اور تجارتی رشتوں کو بڑھانے پر توجہ مرکوز کر رہا ہے اور دنیا کی بدلتی ہوئی علاقائی سیاسی اور اقتصادی پس منظر میں انڈیا کے لیے مصر کی اہمیت بہت بڑھ گئی ہے۔ مصر کا رقبہ 1،001،450 مربع کلو میٹر ہے۔ اس کی آبادی 102,334,404 نفوس پر مشتمل ہے۔ مصر کی سرحدوں کو دیکھا جائے تو شمال مشرق میں غزہ پٹی اور اسرائیل، مشرق میں خلیج عقبہ اور بحیرہ احمر، جنوب میں سوڈان، مغرب میں لیبیا اور شمال میں بحیرہ روم ہیں۔ خلیج عقبہ کے اس طرف اردن، بحر احمر کے اس طرف سعودی عرب اور بحیرہ روم کے دوسری جانب یونان، ترکی اور قبرص ہیں حالانکہ ان میں سے کسی کے ساتھ بھی مصر کی زمینی سرحد نہیں ملتی ہے۔ نائیجیریا اور ایتھوپیا کے بعد بر اعظم افریقا کا تیسرا بڑا آبادی والا ملک ہے اور دنیا بھر میں بلحاظ آبادی اس کا نمبر 15 واں ہے۔ ملک کی زیادہ تر آبادی دریائے نیل کے کنارے بسی ہے۔ مصر پر اس وقت عبد الفتح السیسی کی حکومت ہے اور وہ انڈیا کے قریبی دوست سمجھے جاتے ہیں 26 جنوری کو بھارتی یوم جمہوریہ پر وہ مہمان خصوصی کے طور پر شرکت کر چکے ہیں اور وہ پہلے مصری رہنما ہیں جو بھارت کے کسی قومی دن پر مہمان خصوصی بن کر آئے ہیں۔صدر السیسی کو مہمان خصوصی کے طور پر مدعو کیا جانا انڈیا کی سفارت کاری میں مصر کی بڑھتی ہوئی اہمیت کا عکاس ہے۔ بھارتی بنیا بہت چالاک ہے اور سوچ سمجھ کر اپنی خارجہ پالیسی کو آگے بڑھا رہا ہے جبکہ اس کے برعکس پاکستان میں معیشت کی صورتحال انتہائی خراب ہے اور فوڈ کرائسس کے علاوہ زندگی بچانے والی ادویات تک عام آدمی کی پہنچ سے دور ہو چکی ہیں اور ملک کے ڈیفالٹ کرنے کی باتیں زبان زد عام ہیں۔ مصر اور بھارت نے دفاع کے شعبے میں تعاون پر بھی کئی اہم فیصلے کیے ہیں۔ مصر نے انڈیا کے لڑاکا طیارے تیجس کے علاوہ میزائلوں اور انڈیا کے دفاعی تحقیق کے ادارے ڈی آر ڈی او کے تیار کردہ ہتھیاروں اور ریڈار کی خریداری میں بھی دلچسپی کا اظہار کیا ہے۔ واضح رہے کہ مصر میں بھی فوڈ کرائسس کا خطرہ سر پر منڈلا رہا ہے اور روس-یوکرین جنگ کے بعد سے اجناس کی قلت کا بحران ہے۔
انڈیا نے اگرچہ گندم کی برآمد پر پابندی عائد کر رکھی ہے لیکن گزشتہ مئی میں پابندی کے باوجود 61 ہزار ٹن گندم مصر برآمد کی گئی۔ مصر کے صدر نے انڈین اہلکاروں سے اپنی بات چیت میں مزید گندم کی فراہمی کی بات بھی کی ہے۔ دوسری جانب انڈیا نے مصر سے مزید کھاد خریدنے کا فیصلہ کیا ہے۔ بھارتی حکومت اپنے ملک کے مفاد میں سوچے سمجھے منصوبے کے تحت مصر میں اپنے قدم جما رہی ہے۔ بھارت نے سوئز نہر کے اطراف میں خصوصی اقتصادی زون کی شکل میں بڑے پراجیکٹ تعمیر کرنے میں دلچسپی دکھائی ہے۔ سوئز نہر انڈیا کے لیے انتہائی اہمیت کی حامل ہے۔ سوئز نہر سے تقریبا 5 ملین بیرل خام تیل روزانہ گزرتا ہے۔ ان میں سے اوسطا 5 لاکھ بیرل تیل روزاںہ لاطینی امریکہ، امریکہ اور الجیریا سے انڈیا پہنچتا ہے۔اس لحاظ سے انڈیا سوئز نہر سے تیل درآمد کرنے والا سب سے بڑا ملک ہے۔ یہی نہیں، انڈیا اس نہر کے راستے کیمیکل، مشینری، کپڑے، قالین اور دستکاری کی مصنوعات دوسرے ملکوں کو بھیجتا ہے جس کی مالیت تقریبا 200 ارب ڈالر ہے۔بین الاقوامی ادارہ جہاز رانی کے اعداد و شمار کے مطابق مشرق اور مغرب کے درمیان اس اہم آبی تجارتی گزر گاہ پر سفر کرنے والے تجارتی ساز و سامان کی مالیت فی گھنٹہ چالیس کروڑ ڈالر بنتی ہے۔
تجارتی جہاز رانی کے اعداد و شمار رکھنے والے ادارے لائڈ لسٹ کے مطابق اس کینال سے مغربی ممالک کی طرف روزانہ پانچ اعشاریہ ایک ارب ڈالر کا تجارتی مال آتا ہے جبکہ مشرقی ممالک کے لیے چار اعشاریہ پانچ ارب ڈالر کا سامان جاتا ہے۔نہر سوئز کی آبی گزر گاہ افریقہ اور مشرق وسطیٰ کے ملکوں کے درمیان ہے اور دنیا کے مصروف ترین آبی راستے میں شامل ہے جہاں سے عالمی تجارت کی 12 فیصد آمدورفت ہوتی ہے۔ انڈیا اور مصر کے درمیان باہمی تجارت کا حجم پچھلے کچھ سالوں میں بہت تیزی سے بڑھا ہے۔ اور یہ تجارتی تعلقات یقیناً بھارت کے حق میں ہیں۔
2020-21 میں باہمی تجارت کی مالیت 4 اعشاریہ 15 ارب ڈالر تھی جس میں 2021 -22 میں 75 فیصد کا اضافہ ہوا اور اس کا حجم 7 اعشاریہ 26 ارب ڈالر پر پہنچ گیا۔انڈیا مصر کی برآمدات کی تیسری سب سے بڑی مارکٹ اور چھٹا سب سے بڑا تجارتی پارٹنر بن چکا ہے۔ ساتھ ہی انڈین کمپنیوں نے پورٹ سعید میں کئی بڑی کمپنیوں میں بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کی ہے۔ فری پریس جنرل کے مطابق انڈیا کی 50 سے زیادہ کمپنیوں نے مصر میں آٹو موبائل،کیمیکل، توانائی، ملبوسات، زرعی اور ریٹیل شعبے میں 3 ارب ڈالر سے زیادہ کی سرمایہ کاری کی ہے۔
اہرام آن لائن نے مصر میں انڈیا کے سفیر اجیت گپتے کے حوالے سے لکھا ہے کہ مصر میں انڈین کمپنیوں میں کم از کم 38000 مصری شہری کام کر رہے ہیں۔ ان میں سے کئی کمپنیاں اجتماعی طور پر تقریبا ایک ارب ڈالر کی اضافی سرمایہ کاری سے توسیع کرنے والی ہیں۔ مصر میں انڈیا کا امیج کافی بہتر ہے اور مصری شہری بھارتی حکومت کی فسطائیت سے بے خبر اس ملک کو ایک لبرل اور سیکولر سمجھتے ہیں۔انڈیا بھی مصر کو مذہبی اعتبار سے ایک اعتدال پسند ملک تصور کرتا ہے۔ کچھ عرصہ قبل جب پیغمبر اسلام خاتم النبیین حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بارے میں بی جے پی کی ایک خاتون رہنما نوپور شرما کے نازیبا بیان پر کئی عرب ملکوں کی جانب سے شدید ردعمل ہوا تھا اس وقت بھی مصر نے حکومتی سطح پر کوئی ردعمل نہیں دیا تھا۔ اور بھارتی حکومت کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے خاموش رہنا بہتر سمجھا تھا ۔ پاکستان کے سفارت کار بھی محدود وسائل کے باوجود اپنا کام بہ احسن خوبی کر رہے ہیں اور حالیہ برسوں میں پاکستان نے سفارتکاری کے ذریعے اسلامی ملکوں کی تنظیم او آئی سی میں کشمیر کے سوال پر کئی اہم رکن ممالک کی حمایت حاصل کرنے میں کامیابی حاصل کی ہے اور اس کے اجلاسوں میں اکثر کشمیر کا معاملہ اٹھایا بھی جاتا ہے۔ تاہم مصر عموما غیر جانب دار رہا ہے۔
====================