ہم کہاں کھڑے ہیں

سہیل دانش۔
========

کئی سال گزرے اسی چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے ہال میں کھڑے ہو کر اس وقت کے امریکی سفیر رابرٹ اوکلے نے کہا تھا پاکستان میں کراچی وہ واحد شہر ہے جو ملکی اور غیر ملکی سرمایہ کاری کے لیے سب سے پرکشش شہر کا درجہ رکھتا ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ کراچی کو دنیا کے جدید شہروں کی طرح بہترین انفراسٹرکچر سے آراستہ کیا جائے۔ یہاں امن و امان پر خصوصی توجہ دی جائے اور اس شہر کو باقاعدہ اقتصادی کیپٹل کا درجہ دے کر خصوصی اہمیت دی جائے کیونکہ یہ شہر پورے پاکستان کی معاشی و اقتصادی ترقی کے لیے ڈرائیونگ فورس کا درجہ رکھتا ہے اس تقریب میں جب صحافیوں نے امریکی سفیر سے پوچھا کہ اگر آپ کے ملک نے کسی میگا پراجیکٹ کے لیے پاکستان میں سرمایہ کاری کی تو اس کا انتخاب بھی کراچی ہوگا۔ رابرٹ اوکلے کا جواب تھا ”یقینا“ Certainly۔
گزشتہ روز اسی جگہ شہر کے بڑے بڑے صنعکار سٹیٹ بینک کے گورنر کے سامنے ملک کی معاشی صورتحال پر روشنی ڈالتے ہوئے سچ مچ رو پڑے تھے، کچھ نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ اب ہماری بس ہوگئی ہے۔ خدارا ہماری صنعتوں کی چابیاں پکڑیں اور آپ خود انہیں چلائیں۔ جو باتیں اس محفل میں ہوئیں اس کے بعد کہا جا سکتا ہے کہ واقعی ہم معاشی طور پر ایک عمودی چٹان پر آ کھڑے ہوئے ہیں جس کے پیچھے کھائی ہے اور آگے تباہی ۔ اگر اس کی روداد لکھی جائے‘ یہ ایک مضمون میں نہیں سما سکتی۔ یہ درحقیقت پاکستان کی خستہ حال اقتصادیات کا نوحہ پڑھنے کی محفل تھی۔ جو میں اندازہ کرسکا وہ یہ کہ اس محفل میں اقتصادی خرابیوں کو دور کرنے کے لیے بنیادی اصلاحات‘ اقتصادی طرز حکمرانی کے معیار میں بہتری اور اقتصادی استحکام کے حصول اور غربت کے خاتمے جیسے معاملات پر بالواسطہ اور بلاواسطہ گفتگو ہوئی۔ روپے کی قدر میں استحکام‘ ڈ الرز کی حصولیابی‘ سٹاک ایکسچینج کی صورتحال‘ غیر ملکی سرمایہ کاری‘ معتدل اقتصادی نظام اور روایتی پابندیوں سے آزاد طریقے سے بیرون ملک سے پاکستان کے لیے زرمبادلہ کی ترسیل۔ کہا جارہا تھا کہ ہم دیوالیہ ہونے کے قریب ہیں ”ناکام ریاست“ کا ڈراﺅنا لفظ ہر ایک کے لبوں پر تھا۔ گھٹتی ہوئی فی کس آمدنی‘ ناقابل برداشت مہنگائی‘ محصولات کی گھٹتی شرح‘ ان تمام لوگوں کا خیال یہ تھا کہ معیشت کو بحال کرنے کی کوئی بھی کوشش مکمل نہیں ہو سکتی جب تک بڑے اقتصادی دائرے عوام کو بہتر معیار زندگی میں منتقل نہ ہوں۔ ان سب کا خیال تھا کہ غربت کا خاتمہ ایک ضرورت ہے نہ کہ خواہش جبکہ صورتحال بالکل ریورس ہے۔ گزشتہ پانچ سال میں غربت اور بیروزگاری کے سائے اتنے گہرے ہو گئے ہیں کہ صورتحال بہت ہی پیچیدہ ہو گئی ہے۔ اس صورتحال سے نکلنے کے لیے انقلابی اوور ہالنگ کی ضرورت ہے۔ سب اس بات پر متفق تھے کہ معاشی صورتحال کو بہتر کرنے کے لیے سیاسی استحکام بنیادی شرط ہے۔ اس کے لیے کچھ نہ کچھ out of the box کرنا پڑے گا۔
اب آئیں ذرا سیاسی میدان کی طرف ۔ ایسا لگتا ہے کہ ہماری پوری قیادت نے ماضی کی غلطیوں سے نہ سبق سیکھا‘ نہ اس کی روشنی میں مسائل کی حکمت عملی تیار کی۔ تمام صلاحیتیں اور توانائیاں ایک دوسرے کو نیچا دکھانے پر صرف ہورہی ہیں۔ پی ڈی ایم اپنی حکومت کو طول دینے کے لئے پھڑ پھڑا رہی ہے اور عمران کے حمایتی ہر وقت ان کی باسی گفتگو سن کر بیزار ہو گئے ہیں۔ ہر کوئی ایک دوسرے کو سرپرائز دینے کے چکر میں ہے۔ ہر دعویٰ عمل سے محروم ہے۔ عمران نے دونوں صوبائی اسمبلیاں توڑ کر اس بات کی کوشش کی کہ وفاقی حکومت لڑ کھڑا جائے۔ ایسا لگتا ہے آنے والے دنوں میں الیکشن کے علاوہ کچھ نہیں ہوگا۔ وزیراعظم کے پاس صرف اسمبلیاں توڑنے کا اختیار رہ گیا ہے۔ شاید آنے والے دنوں میں یہ اختیاربھی کام آئے یا چھن جائے۔ اب لگتا ہے کہ آئی ایم ایف سے معاہدہ کر کے وہ اپنی غلطیوں کا کوئی کفارہ ادا کرنا چاہتی ہے۔ عام پاکستانی کا ریاستی نظام پر رہا سہا اعتماد بھی ڈگمگا گیا ہے۔ معیشت زمین بوس ہورہی ہے۔ عمران خان کی حکومتی کارکردگی ہو یا شہباز حکومت، جو سیاسی تلچھٹ سے کشید کی گئی تھی اب بالکل سٹپٹائی دکھائی دے رہی ہے لیکن ان سب کی آپس کی محاذ آرائی کا تاوان عوام کو بھرنا پڑ رہا ہے، جس کی سچ مچ چیخیں نکل رہی ہیں۔ پھر سوچنے لگا کہ بھارت اور بنگلہ دیش ہم سے آگے کیسے ہیں۔ بھارت بھی ہمارے ساتھ آزاد ہوا۔ بنگلہ دیش تو ہمارا ہی حصہ تھا۔ اس کی آزادی کا سفر تو محض نصف صدی کا ہے۔ بھارت بھی بے شمار بحرانوں سے گزرا لیکن فرق یہ ہے کہ وہ مضبوط اقتصادی بنیادوں پر کھڑا ہے جس کی بندرگاہوں سے روزانہ کروڑوں ڈالر کا سامان عالمی منڈیوں کی طرف اپنا سفر شروع کرتا ہے ،جس کے تین لاکھ بڑے صنعتی یونٹوں کی بھٹیاں پورا سال گرم رہتی ہیں۔ جس کے فارم دنیا میں سب سے زیادہ پیداوار دیتے ہیں۔ جس کے گنگا جمنا جب جوش میں کناروں سے نکلتے ہیں تو دور دور تک زرخیزی پھیلاتے جاتے ہیں، جو دنیا کا چوتھا بڑا سیاحتی مرکز ہے، جو دنیا کا آٹھواں بڑا صنعتی زون ہے اور جو قدرتی وسائل کے حوالے سے دنیا کا پندرھواں بڑا ملک ہے۔ بھارت میں متعین ایک بھارتی سفیر نے مجھے بتایا تھا کہ لوک سبھا میں ابھی ایسے ممبران موجود ہیں جو رکشوں اور ٹیکسیوں میں اجلاس میں شرکت کے لیے آتے ہیں۔ مانگ کر اخبار پڑھتے ہیں۔ سودا ادھار لیتے ہیں‘ بارش میں بوسیدہ چھتری لے کر گھروں سے نکلتے ہیں۔ جوتے بغل میں دبا کر کیچڑ سے گزرتے ہیں اور گلی کے نل سے پانی بھر کرلاتے ہیں۔ پھر مجھے وہ پاکستانی سیاستدان یاد آیا جس نے بڑے دعوے سے کہا تھا پاکستان کی پارلیمنٹ میں ایک بھی ایسا شخص ہے جس کے پاس ذاتی گھر‘ گاڑی اور بینک بیلنس نہ ہو۔ جس کا روزانہ کا خرچہ ہزاروں لاکھوں میں نہ ہو جس کے بچے مہنگے ترین اداروں میں نہ پڑھتے ہوں ۔ جو اپنے بچوں کی شادی میں دو تین کروڑ خرچ نہ کرتا ہو، جس کے الیکشن کے اخراجات 4 سے 5 کروڑ نہ ہوں اور جو اپنے گارڈز اور ملازمین کو لاکھوں کی تنخواہ نہ دیتا ہو۔ مجھے وہ سابق سپیکر قومی اسمبلی یاد آ گیا جس نے کہا تھا کہ پاکستان کی پارلیمانی تاریخ میں ارکان اسمبلی کی تنخواہ میں اضافے کا بل واحد ایشو ہوتا ہے جس پر کسی رکن کو کوئی اعتراض نہیں ہوتا اور مجھے وہ اقتصادی ماہر بھی یاد آگیا جس نے بڑے دکھ سے کہا تھا کیا وہ ملک اقتصادی موت نہیں مرتا جس کے کھیتوں میں صرف بھوک اگتی ہو، جس کے دریا صرف سیلاب لاتے ہوں، جس کے کارخانے صرف سرمایہ داروں کے ٹکسال ہوں اور جس کی پارلیمنٹ کی اکثریت چوروں‘ سمگلروں اور نادہندوں کی محافظ ہو۔
پھر ہم اپنے آپ پر نظر ڈالیں‘ ہم میں سے کتنے لوگ ہیں جو اپنی خواہشوں کے پٹرول سے اپنے جسم کو داغ رہے ہیں۔ یہاں کتنے لوگ ہیں جو کرپشن لوٹ کھسوٹ اور ہیرا پھیری کی اس زمین پر بھی افلاس کی بنیادیں ہلاتے‘ محرومی ان کی آنکھوں کی چمک اور بیماری لہجے کی شوخی چراتی رہی ہے۔ ان کے خون کا ابال رگوں سے الجھ رہا ہے۔ پھر ان کروڑوں مفلس اور غریب لوگوں کو دیکھتا ہوں جن میں کوئی باپ اور ماں اپنی اولاد کی گردنوں پر چھریاں پھیر رہے ہیں‘ نہروں میں دھکے دے رہے ہیں۔ آخر پھر یہ امید ہی دستک دیتی ہے کہ اگر ہم زندہ ہیں تو یہ ہمارے لیے خدا کی طرف سے ایک کھلا اور واضح پیغام ہے کہ ہم زندگی کے ہل سے اس کی کیاری میں اپنی پسند کے پھول اگانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ پوچھنے والے نے پوچھا ”اللہ کے نزدیک کتنے گناہ ناقابل معافی ہیں“ بتانے والے نے بتایا۔ ”دو“ پوچھنے والے نے پوچھا ”یارسول اللہ کون کون سے“ حبیب خدا نے فرمایا ”کسی دوسرے کو خدا کی ذات میں شریک کرنا اور ناامید ہونا۔“

==================