26جنوری، یوم جمہوریہ ہند، کشمیر میں یوم سیاہ۔۔

سچ تو یہ ہے،
=========
بشیر سدوزئی،
==========

بے شک 26 جنوری نہ صرف بھارت کی تاریخ بلکہ برٹش ہندوستان کی تاریخ میں بھی اس کی بڑی اہمت ہے۔ یہ صرف اس لیے نہیں کہ موجودہ دستور ہندوستان کی دستاویزات پر دستخط اور بھارت میں نافظ العمل ہوا اور برٹش ہندوستان کا نام تبدیل ہو کر جمہوریہ ہند رکھا گیا، بلکہ اس دن کی اہمیت اس لیے بھی زیادہ ہے کہ بھارت میں نئے دستور پر دستخط اور نفاذ کے لیے اس دن کو چنا گیا۔کیوں کہ یہ وہ دن ہے جب انڈین نیشنل کانگریس (INC) نے 1930 میں ہندوستان کی آزادی کا اعلان اور اس حوالے سے ایک قرارداد منظور کی گئی اس کے بعد برصغیر کے عوام نے نوآبادیاتی حکمرانی کے خلاف ملک گیر سیاسی تحریک کا آغاز کیا جس میں قائد اعظم محمد علی جناح سمیت جید مسلم رہنماء بھی شامل تھے۔پاکستان کے قیام کا مطالبہ اس کے دس سال بعد 1940 میں کیا گیا جب مسلمان رہنماؤں نے محسوس کیا کہ انڈین نیشنل کانگریس کا جھنڈا مسلمانوں کے سر پر سایہ نہیں دے رہا۔ آزادی کے بعد بھارتی پارلیمنٹ (دستور ساز اسمبلی) کی 17 کمیٹیوں میں سے ڈاکٹر بی آر امبیڈکر (Dr BR Ambedkar) کی قیادت میں قائم مسودہ سازی کمیٹی(ڈرافٹنگ کمیٹی) کی ذمہ داری نئے ملک کے لیے نئے آئین کا مسودہ تیار کرنا تھا۔ انتہائی مختصر وقت میں اس کمیٹی نے برٹش کے آئین کی تقریباً 7,600 ترامیم میں سے بحث و مباحثہ اور غور و خوض کے بعد تقریباً 2400 ترامیم کو آئین سے حذف کر کے تیار کردہ آئین ہند کا مسودہ 26 نومبر 1949 کو آئین ساز اسمبلی میں پیش کیا اور اسمبلی نے اصولی طور پر اس کی منظوری دی۔ یہ آئین ساز اسمبلی کا آخری اجلاس تھا۔اس اجلاس میں آئین کو اپنایا گیا لیکن اس کی باضابطہ منظوری کے لیے 26 جنوری کا تعین کیا گیا کیوں کہ ہندوستان کی آزادی کے لیے انڈین نیشنل کانگریس نے 1930 میں اسی روز آزادی کی جدوجہد کا فیصلہ کیا تھا۔26 جنوری 1950 کو اس آئین پر اسمبلی کے 284 ارکان کے دستخط کے بعد اس کا نفاذ عمل میں آیا۔اسی لیے ہر سال ہندوستان میں 26 نومبر کو یوم آئین اور 26 جنوری کو یوم جمہوریہ کے طور پر منایا جاتا ہے۔لیکن جموں و کشمیر کے عوام اس یوم جمہوریہ کو اس لیے نہیں مانتے کہ وہ خود کو اس جمہوریہ کا حصہ نہیں سمجھتے اس لیے اس دستور و آئین کے پابند نہیں۔ بھارتی قیادت نے جموں و کشمیر کے عوام کے ساتھ جو وعدہ خلافی کی اور جب کشمیریوں نے پرامن اور جمہوری طریقہ سے ان کو وعدہ یاد دلانے کی کوشش کی تو ان پر فوج کشی کی گئی اور اب کشمیریوں کی نسل کشی کی جا رہی ہے۔ دنیا کی سب سے بڑی جمہوریہ ہونے کے دعوی کے باوجود بھارتی قیادت نے اپنے رویہ سے ثابت کیا کہ 26 جنوری کو بھارت میں 74واں یوم جمہوریہ بنانے کے باوجود جمہوری معاشرہ نہیں پنپ سکا اور نہ ہی جمہوری سوچ پروان چڑی۔ وقت مقررہ پر انتخابات ہونے سے کوئی معاشرہ جمہوری نہیں کہلا سکتا جب تک جمہوری قدریں مضبوط نہ ہوں اور ہر کوئی اس کو جمہوری تسلیم نہ کرے۔ بھارت میں وقت گزرنے کے ساتھ ہندو فاشزم نے جان پکڑی، اقلیتوں اور خصوصا مسلمانوں کے مذہبی اور انسانی حقوق محفوظ نہیں۔ خاص طور پر گزشتہ 76برس سے جموں و کشمیر کے عوام کی سوچوں پر تالے لگائے ہوئے ہیں بلکہ اب تو پوری کشمیری قوم کو جیل میں بند کر دیا گیا ہے۔اسی بنیاد پر جموں و کشمیر کے عوام ہر سال 26جنوری کو یوم سیاہ اور یوم احتجاج کے طور پر مناتے ہیں۔ 26جنوری 2023کو یوم سیاہ منانے کے لیے کل جماعتی م حریت کانفرنس سمیت جموں و کشمیر کی تمام آزادی پسند جماعتوں، سماجی اور مذہبی تنظیموں نے آر پارکشمیر اور دنیا بھر میں پھیلے کشمیریوں سے اپیل کی ہے کہ وہ یوم سیاہ کو پھر پور طریقے سے منائیں۔ سخت اسکورٹی اور دس لاکھ فوج کے باوجود جموں و کشمیر کے ہر شہر اور گاوں کو احتجاجی پوسٹروں سے پھر دیا گیا ہے جن میں مختلف سلوگن درج ہیں ۔ مقبوضہ پونچھ میں مجاھدین غزنوی فورس (JKGF) کی جانب سے بڑے پیمانے پر پوسٹرز چسپاں کئے گئے ہیں جن میں نام نہاد بھارتی جمہوریت کی مذمت اور کشمیری عوام سے کہا گیا کہ جہاد کے لیے تیار رہیں ۔پوسٹروں میں اِس عزم کا اعادہ کیا گیا کہ آخری ہندوتوا فوجی کے انخلاء تک قابض دشمن کیخلاف جنگ آزادی جاری رہے گی ۔کشمیر لبریشن وائیرز(KLW) نے سرینگر ، بڈگام ، پلوامہ ، بارہمولہ اور انت ناگ سمیت دیگر اضلاع کے در و دیوار پوسٹرز سے بھر دئے ہیں۔ان پوسٹرز میں لکھا ہے کہ “بھارت انسانیت کا قاتل ، نام نہاد بھارتی جمہوریہ مردہ باد 26 جنوری یوم سیاہ” پوسٹرز میں مذید لکھا گیا ہے کہ “ڈھائی کروڑ کشمیریوں کے بنیادی جمہوری حقوق غصب کر کے بھارت کو کشمیر میں یوم جمہوریہ منانے کا کوئی حق نہیں۔ دس لاکھ سے زائد قابض بھارتی فوج گزشتہ 75 سال سے جموں کشمیر میں جنگی جرائم کا ارتکاب کر رہی ہے اور مودی کا بھارت کوئی جمہوری ملک نہیں بلکہ ایک انتہاپسند فاشسٹ اور جمہوریت دشمن ملک ہے۔بھا رتی فورسز ان پوسٹرز کو صاف کر رہی ہیں جب کہ ہر ضلع کے ڈپٹی کمشنر کو ہدایت کی گئی ہے کہ 26جنوری سے قبل ان پوسٹرز کو صاف کر دیا جائے۔۔ دریں اثناء کل جماعتی حریت کانفرنس نے کنٹرول لائن کے دونوں جانب اور دنیا بھر میں مقیم کشمیریوں سے کہا ہے کہ 26 جنوری بروز جمعرات بھارت کے یوم جمہوریہ کو یوم سیاہ کے طورپر منایا جائے جس کا مقصد بھارت کی طرف سے کشمیریوں کے حق خودارادیت سے مسلسل انکار کے خلاف دنیا کے سامنے احتجاج ریکارڈ کرانا ہے۔ سری نگر سے جاری ایک بیان میں کہا گیا کہ “اس دن مقبوضہ کشمیر میں یوم سیاہ منایا جائے گا اور آزاد کشمیر ، پاکستان اور مختلف ممالک کے دارالحکومتوں میں بھارت مخالف مظاہرے اور ریلیاں نکالی جائیں گی تاکہ عالمی برادری کو یہ پیغام دیا جاسکے کہ بھارت جس نے کشمیریوں کے تمام بنیادی حقوق سلب کر رکھے ہیں اور اسے مقبوضہ علاقے میں اپنا یوم جمہوریہ منانے کا کوئی حق حاصل نہیں ہے ۔کشمیریوں کی دیگر تنظیموں صدائے مظلومین ، جموں کشمیر غزنوی فورس ، جموں و کشمیر ڈیموکریٹک موومنٹ ، تحریک آزادی جموں و کشمیر ، جموں و کشمیر لبریشن الائنس ، جموں وکشمیر پولیٹیکل ریزسٹنس موومنٹ ، یوتھ فریڈم فائٹرز اور دیگر نے اپنے بیانات، پیغامات اور پوسٹروں کے ذریعے سرینگر اور وادی کشمیر کے دیگر علاقوں کے کشمیری عوام سے بھارتی یوم جمہوریہ کی سرکاری تقاریب کا بائیکاٹ کرنے اور اپنے گھروں ، دکانوں، دیگر عمارتوں پر سیاہ جھنڈے لہرانے اور سول کرفیو نافذ کرنے کی اپیل کی ہے اس حوالے سے مقبوضہ کشمیر کے مختلف علاقوں میں گزشتہ ایک ہفتے سے مسلسل پوسٹر آویزاں کئے جا رہے ہیں۔ 5اگست 2019 کے بعد یہ پہلا موقع ہے کہ جموں و کشمیر کے عوام نے ایک مرتبہ پھر انگڑائی لی ہے اور پورے مقبوضہ کشمیر میں اس کی حرارت محسوس کی جا رہی ہے، آزاد کشمیر کی حکومت اور عوام کو اس موقع پر مقبوضہ کشمیر کے عوام کے ساتھ پھر پور طریقہ سے کھڑا رہنا چاہیے پورے آزاد کشمیر میں بھی سول کرفیوں کا ماحول بنا کر مقبوضہ کشمیر کے عوام کے ساتھ اظہار یکجہتی کرنا چاہیے جب کہ کشمیری ڈائس پورا دنیا بھر کے دارالحکومتوں میں بھارتی سفارت خانے کے پاس مظاروں کے علاوہ اقوام متحدہ ،یورپ یونین اور امریکا کے صدر اور اسلامی تنظیم کو خطوط لکھیں اور مقبوضہ کشمیر کی بدترین صورت حال سے ان کو آگاہ کرنے کے مسئلہ کشمیر پر ساتھ توجہ کی درخواست کریں ۔
==============================