کووڈ ویکسین۔۔۔۔۔مقبوضہ کشمیر میں نفسیاتی بیماری میں اضافہ۔

سچ تو یہ ہے۔
==========

بشیر سدوزئی،
=============

کووڈ۔19 کے بعد مقبوضہ جموں و کشمیر کےعوام میں نفسیاتی مرض میں انتہائی تیز رفتار اور تشویش ناک حد تک اضافہ ہوا ہے، مبینہ طور پر شبہ کیا جا رہا ہے کہ نفسیاتی مسائل میں اچانک بھڑکاو بھارتی سرکار کی جانب سے کووڈ۔19 میں کوئی گڑبڑ کی وجہ سے تو نہیں ہوا۔ مقبوضہ جموں و کشمیر میں نفسیاتی مسائل تو تین دھائیوں سے پنپ رہے ہیں ۔عوام پر ریاستی تشدد اور انسانی حقوق کی بدترین خلاف ورزیوں کے باعث جہاں بے شمار سماجی، سیاسی اور معاشی مسائل پیدا ہوئے وہاں طبی مسائل میں بھی روز بروز اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ ان میں ایک تو وہ لوگ ہیں جو پیلٹ گن سے زخمی ہوئے اور ان کے چہرے داغ دار اور بینائی سے محروم ہو گئے یا فائرنگ سے زخمی ہونے کی صورت میں معذور ہو گئے لیکن اس سے بھی خطرے ناک صورت حال بڑھتے ہوئے نفسیاتی مریضوں کی ہے جن میں مرحلہ وار اضافہ ہوا
5/اگست 2019 کے کچھ عرصے بعد معروف برطانوی میڈیکل جریدے ‘لانسیٹ’ نے ادارتی مضمون میں لکھا کہ ہندوستان کے زیر انتظام کشمیر کے عوام کی ذہنی صحت تشویش ناک ہو چکی۔ یہاں کے عوام کئی دہائیوں سے مسلسل آزادی کی جدوجہد کر رہے ہیں۔ بھارت کی خواہش ہے کہ یہا اقتصادی خوشحالی اور امن اور سول آزادیاں ہوں لیکن اس سے پہلے یہاں کے لوگوں کو پرانے ذہنی زخموں سے نجات چاہیے۔ میگزین کے مطابق 5/ اگست کے فیصلے سے مقامی لوگوں میں علیحدگی پسندی اور تشدد کے ایک نئے چکر سے نفسیاتی مسائل میں اضافہ ہوا۔اگرچہ انڈین میڈیکل ایسوسی ایشن نے اس اداریے کو سختی سے مسترد کردیا تھا لیکن ماہرین کا ماننا ہے کہ انڈین میڈیکل ایسوسی ایشن کا بیانیہ دراصل بھارتی حکومت اور ریاست کا بیانیہ ہے جن کے نزدیک سری نگر اور جموں میں نیرو سکھ اور چین کی بانسری بجا رہا ہے۔ جب کہ دنیا پر آشکارہ ہے، خاص طور پر میڈیکل سے متعلقہ تمام ہی دنیا جانتی ہے کہ کشمیریوں کی ذہنی صحت کے بارے میں یہ پہلا تبصرہ نہیں تھا۔اس حوالے سے دس، پندرہ برس قبل بھی جموں و کشمیر کے عوام کے نفسیاتی حالات اچھے یا مثالی نہیں تھے 2006 میں شائع ہونے والے تحقیقی مقالے میں ماہر نفسیات ڈاکٹر مشتاق مگروب نے لکھا تھا کہ ‘اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ پچھلے پندرہ برسوں میں کشمیر میں شدید افسردگی، تناؤ اور پی ٹی ایس ڈی کے مریضوں کی تعداد میں کئی گنا اضافہ ہوا ہے۔ یہ تجزیہ 1990 کے لیے تھا ۔گویا جموں و کشمیر کے عوام میں نفسیاتی مسائل کا آغاز 1990 کے بعد سے ہوا۔ اور تیزی سے بڑھ رہا ہے۔ 2006 میں نفسیاتی مریضوں کی تعداد اس قدر خوف ناک نہیں تھی جو آج ہے۔ ان 33برسوں کا بغور مطالعہ کیا جائے تو اندازہ ہوتا ہے کہ گزرتے برسوں کے ساتھ جس طرح ریاستی تشدد میں اضافہ ہوتا جاتا رہا مودی سرکار کی طرح،نفسیاتی مرض بھی ریاستی عوام پر پنجے گاڑتا رہا ہے۔انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والے بین الاقوامی ادارے ‘ڈاکٹرز وداؤٹ بارڈرز’ نے مئی 2016 میں شائع ہونے والی ایک تفصیلی رپورٹ میں بتایا تھا کہ کشمیر میں41 فیصد آبادی ذہنی دباؤ کا شکار ہیں۔اس تعداد میں اب کافی اضافہ ہو چکا۔
کووڈ۔19 کے بعد یہ مرض قابو سے باہر ہو گیا ہے اور لگ بھگ آدھی سے زیادہ آبادی باقاعدہ نفسیاتی مریض بن چکی یا ان میں ڈیپریشن کے اثرات نمایاں ہو رہے ہیں۔کووڈ۔19 کے بعد ریاست میں نفسیاتی مریضوں کے لیے بڑے پیمانے پر اچانک اسپتالوں اور گاوں گاوں نفسیاتی ڈسپنسریوں کا قیام بھی کسی خطرے اور بھاجپا کی جانب سے سازش کا عندیہ دیتا ہے۔ حکومت کا اس جانب اچانک متحرک ہونا اور لوگوں کو نفسیاتی مرض کے علاج کے لیے راغب کرنے کی مہم سے یہ تاثر حقیقت میں بدل رہا ہے کہ گووڈ۔19 کے ویکسینیشن میں بھارتیہ جنتا پارٹی نے بدعنوانی کی ہے، مبینہ طور پر کہا جاتا ہے کہ کشمیر میں استعمال ہونے والی کووڈ۔19 ویکسین ان بین الاقوامی تصدیق شدہ ویکسین میں سے نہیں تھی جن کو ڈبلیو ایچ او نے پاس کیا تھا۔بلکہ مقامی طور پر تیار کردہ نئی ویکسین تھی جس میں ایسے کیمیکل استعمال کئے گئے جس سے لوگوں کی ذہن سازی ہو، تاکہ لوگوں کے جذبات کو بھارت کے خلاف ٹھنڈا اور حریت تحریک سے بے گانہ کیا جا سکے۔گو کہ اس کی تصدیق نہیں ہو سکی لیکن موجودہ صورت حال میں تصدیق ہونے کے امکانات بھی نہیں ہیں،کیوں کہ بھاجپا نے کشمیر کو مکمل جیل بنا رکھا ہے جہاں کوئی بھی شخص داخل ہو سکتا نہ خبر باہر آ سکتی ہے۔ میڈیا پر مکمل پابندی ہے حریت رہنماؤں کے بیانات اور زمینی حقائق پر خبر کی اشاعت آتنگ بادی جیسا جرم ہے اور ایسے صحافیوں پر انسداد دہشت گردی ایکٹ کے تحت مقدمہ اور گرفتاریاں عمل میں آتی ہے۔ کوئی انکوائری اور میڈیکل بورڈ وہاں کے عوام کا میڈیکل چیک اپ نہیں کر سکتا۔ایسے حالات میں وہی صحیح ہے جو بھارتی فورسز یا حکومت کہے اور حکومت کو تو سب درست معلوم ہوتا ہے۔البتہ نفسیاتی مریضوں میں اچانک اصافہ اور ان کے اعلاج کے لیے حکومت کی سرگرمی اس شک کو یقین میں بدلتی ہے کہ کووڈ۔19 کے بعد نفسیاتی مریضوں میں تیز رفتاری سے اضافہ یقینا حکومت نے کوئی بددیانتی کی ہے جس کے اثرات لوگوں کے ذہنوں پر پڑھ رہے ہیں اور آج کشمیری قوم شدید الجھن کا شکار ہے۔ بھارت اس صورت حال کو جوں کا توں رکھنے کے لیے ڈسپنسریوں کا ایک وسیع نٹ ورک قائم کر چکا جہاں ان مریضوں کو علاج کے نام پر وہی ادویات دوبارہ دی جا رہی ہیں جن کی ویکسینیشن کی گئی تاکہ وقت گزرنے کے ساتھ انسانی باڈی سے ویکسینیشن کا اثر ختم نہ ہو سکے۔آزادی کی 76 سالہ تاریخ میں کشمیریوں کے لیے یہ بھارت کی جانب سے سب سے زیادہ خوف ناک عمل ہے کہ اب اس نے قوم نفسیاتی مسائل میں جکڑ لی ہے جس پر فوری ردعمل کی ضرورت ہے اور اقوام متحدہ سے مطالبہ کیا جانا چاہیے کہ غیر جانب دار بین الاقوامی طبی ماہرین کے بورڈ سے مقبوضہ جموں و کشمیر کے عوام کا طبی معائنہ کرایا جائے تاکہ بڑتی ہوئی نفسیاتی بیماریوں کی وجوہات معلوم ہو سکے اور اس بات کی تحقیقات بھی ضروری ہے کہ بھارتی حکومت نے کووڈ۔19 کے فوری بعد گاوں گاوں نفسیاتی اسپتالوں اور ڈسپنسریوں کا اتنا بڑا نٹ ورک کیوں قائم کیا۔ 16 دسمبر 2019 کو سری نگر سے خبر رساں ایجنسی آئی این پی نے ڈاکٹروں کی ایک تنظیم ڈاکٹرز ودآؤٹ بارڈرز کی جانب سے چند سال قبل کئے گئے سروے کی رپورٹ جاری کی۔جس کو حکومت ہند کی ہدایت کے مطابق پبلک کرنے سے روک دیا گیا تھا۔آئی این پی نے اس کو اپنے ذرائع سے حاصل کیا اور عام کرنے میں کامیاب ہوئی۔رپورٹ کے مطابق، مقبوضہ جموں وکشمیر میں اس وقت تقریبا 18 لاکھ دس ہزار افراد ذہنی مسائل کا شکار تھے۔ تاہم کووڈ۔19 کے بعد سے مریضوں میں تیزی سے اضافہ ہوا۔مبینہ طور پر 2023 میں ان نفسیاتی مریضوں کی تعداد 30 لاکھ سے زائد ہو گئی ہے۔ نفسیاتی مریضوں کی تعداد میں چند برسوں کے دوران خوف ناک اضافہ اس شبہ کو تقویت دیتا ہے کہ حکومت نے دانستہ کووڈ۔19 کی ویکسینیشن میں ملاوٹ کی ہے۔کشمیر میں نفسیاتی مسائل تو تھے لیکن 5اگست 2019 کے بعد ان مریضوں میں اصافہ ہوا جب جموں و کشمیر میں لاک ڈاون لگا اور ہر قسم کی سرگرمی بند کر دی گئی، معاشی پریشانی کے ساتھ معاشرتی پریشانی نے کشمیریوں کو بڑی تعداد میں ذہنی پریشانی میں مبتلا کر دیا ۔ بھارتی فورسز نے لاک ڈاون کے دوران گھروں کی تلاشی شروع کی ،عورتوں کی بے حرمتی بچوں کو خوف زدہ بھوڑوں پر تشدد اور نوجوانوں کو گرفتار کیا جانے لگا۔اس خوف اور حراست کے عالم میں کشمیر کی نصف آبادی کے ذہن پر منفی اثرات مرتب ہوئے۔رپورٹ میں ایک 55 سالہ خاتون فرضی نام (ف) کا حوالہ دیا گیا کہ جب اس کے اکلوتے بیٹے کو بھارتی سیکیورٹی فورسز لے گئی اور پھر کبھی واپس نہیں ملا وہ فوج کی تحویل میں غائب ہوگیا تو خاتون شدید ذہنی انتشارکا شکار ہوئیں۔ ایک نفسیاتی اسپتال کے ڈاکٹروں نے انہیں مولانا جلال الدین رومی کے مزار کی زیارت کرنے اور صوفی موسیقی سننے کو کہا۔ رپورٹ کے مطابق سری نگر میں وادی کشمیر کے واحد دماغی اسپتال کے ایک ڈاکٹر نے کہا کہ ہمارے پاس ان کو دینے کے لئے کچھ نہیں، سوائے نید کی دوائیوں کے ۔ انہیں ذہنی سکون کی ضرورت ہے جس کے لیے ہمارے پاس یہی کچھ ہے۔ لہذا ہم ان سے اپنے اعصاب کو پرسکون کرنے کے لئے صوفی موسیقی سننے کو کہتے ہیں۔عام تاثر یہی پایا جاتا ہے کہ صوفیانہ موسیقی سننے سے نفسیات کے بہت سارے مریضوں کی جزوی بحالی کی اطلاع ملی ہے۔ کشمیر میں جلال الدین رومی، نورالدین عبدالرحمن جامی،خواجہ شمس الدین حافظ شیرازی، الیاس نظامی گنجوی کی صوفیانہ شاعری کے میوزک کو صدیوں سے سنا جاتا ہے جو سامعین کو محظوظ اور کچھ دیر کے لیے ان کی روح افسردہ طبیعت غم کوش ہوتی ہے۔ اسی لیے ڈاکٹر بھی کشمیر میں بڑتے نفسیاتی مریضوں کو صوفیانہ میوزک سے دل بھلانے کا مشورہ دیتے ہیں تاکہ غمگین دل و دماغ کو کچھ وقت کے لیے ہی صحیح راحت و سکون کا کچھ ساماں تو ہو جس سے ذہن پر سوار غموں کا طوفان ہلکہ ہو سکے۔ جموں و کشمیر میں صوفیانہ طرز زندگی تو اسلام کی آمد کے ساتھ ہی چلی آ رہی ہے اسی وجہ سے کشمیر کے مزارات نفسیاتی مریضوں سے بھر گئے۔ اب لوگ ذہنی سکون کے لیے اور اپنے پیاروں کی تلاش میں مزارات کا رخ کر رہے ہیں اور ان میں خواتین کی تعداد زیادہ ہے جو بابا کے مزار سے برائے راست سوال کرتی ہیں کہ ہمارا بیٹا کب آئے گا جس کو بھارتی آرمی گھر کی دلیز سے لے گئی ہے۔27 اکتوبر2022 کو سری نگر پی پی آئی کی جانب سے جاری ایک رپورٹ میں بتایا گیا کہ مقبوضہ جموں و کشمیر میں نفسیاتی مریضوں میں خواتین کی تعداد 60 فی صد سے زیادہ ہے۔ یعنی 30 لاکھ نفسیاتی مریضوں میں سے لگ بھگ 20 لاکھ سے زائد خواتین نفسیاتی مریضہ بن چکی۔ کشمیری خواتین کا نفسیاتی مریض ہونے کی وجہ بھارتی فوجیوں کی جانب سے غیر انسانی، غیر اخلاقی اور غیر فطری سلوک، نوجوانوں کا اغواء اور لاپتہ کرنا، قتل عام تشدد خاندان کے افراد کی موجودگی میں ریپ، عدالتوں میں انصاف نہ ملنا، فوجیوں، پولیس اہلکاروں اور ایجنسیوں کی طرف سے چادر اور چار دیواری کی مسلسل پامالی، بچوں رشتہ داروں اور خود ان کی جان کا عدم تحفظ، مظالم اور مشکلات کی وجہ سے ہے۔۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ بھارت کی ریاستی دہشت گردی کی وجہ سے جنوری 1989 سےاب تک 24 ہزار کے لگ بھگ کشمیری خواتین بیوہ ہوئیں ان کے شوہروں کو بھارتی فوجیوں، پیراملٹری اور پولیس اہلکاروں نے ان کے سامنے شہید کیا یا اٹھا کر لے گئے اور کچھ عرصے بعد کسی ویرانے سے لاش ملی جب کہ ان کو معلوم تھا کہ وہ بے قصور ہیں، کسی سیاسی سرگرمی میں نہیں۔ بھارتی فوجیوں اور پولیس اہلکارں نے گزشتہ 34 برس کے دوران 25سو کے لگ بھگ خواتین کے شوہروں کو گرفتارکرنے کے بعد لاپتہ کردیاہے جنہیں آدھی بیوائوں کا نام دیا گیا ہے۔پی پی آئی کے مطابق رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بھارتی فورسز اہلکاروں نے 1989 سے اب تک 8 ہزار سے زائد افراد کو گرفتارکرکے لاپتہ کر دیا ہے۔ رپورٹ میں مذید انکشاف ہوا کہ جنوری 2001 سے آج تک 681 خواتین کو فوجیوں نے شہید کیا ہے۔کشمیر خواتین کوجو علاقے کی کل آبادی کا اکثریتی حصہ ہیں ، بہت سے نفسیاتی مسائل کا سامنا ہے۔ مسلسل پریشانی اور مشکلات کی وجہ سے کشمیری بیوائیں اور آدھی بیوائیں نفسیاتی مسائل کا سامنا کررہی ہیں۔
===================