نیوزی لینڈ کی انسانیت دوست وزیراعظم روتے ہوئے مستعفی


نوید نقوی
============

قومیں ایسے نہیں بنتیں بلکہ اس کے لیے طویل محنت اور منصوبہ بندی درکار ہوتی ہے۔ آج کی ترقی یافتہ دنیا نے ایسے بیٹھے بٹھائے ترقی کے مدارج طے نہیں کیے اس کے لیے دن رات ایک کیا، کچھ اصول وضوابط وضع کیے اور ان کی پابندی ہر امیر غریب فرد نے کی، آج سے 1400 سال پہلے اسلامی فلاحی ریاست نے جو اصول ترقی کرنے کے لیے بنائے تھے ان پر سوائے ہم مسلمانوں کے تمام یورپ نے عمل کیا اور اس کے نتیجے میں پوری دنیا پر یورپی النسل لوگوں کا راج ہے اور میں بحیثیت مسلمان یہ یقین رکھتا ہوں جب تک وہ عظیم محسن انسانیت، پاک نبی اکرم خاتم النبیین حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سنہرے اقوال پر عمل کرتے رہیں گے وہ ترقی کی معراج پر یوں ہی سفر کرتے رہیں گے، جس دور میں ہمارے بادشاہ محبت کی یاد میں نت نئے محل بنا رہے تھے اس دور میں یورپ کے جہازراں سمندر کا سینہ چیرتے ہوئے نئی دنیائیں تلاش کر رہے تھے۔ نیوزی لینڈ بھی ایک ایسا ملک ہے جو جدید دنیا میں ایک ترقی یافتہ ملک شمار ہوتا ہے، یہاں کے بارے میں پاکستانی عوام زیادہ تر کرکٹ ٹیم کے حوالے سے جانتے ہیں لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ اس چھوٹے سے ملک کی تمام بڑے کھیلوں میں شمولیت ہوتی ہے اور یہ ترقی میں ہم سے کافی آگے ہے۔ نیوزی لینڈ جنوب مغربی بحر الکاہل کی ایک خود مختار ریاست ہے۔ یہ ایک جزیرہ ملک ہے۔جغرافیائی حساب سے یہ ملک دو بڑے زمینی ٹکڑوں پر مشتمل ہے شمالی جزیرہ اور جنوبی جزیرہ۔ ان دو مرکزی جزیروں کے علاوہ 600 دیگر چھوٹے جزائر ہیں۔ نیوزی لینڈ بحیرہ تسمان میں آسٹریلیا سے 2000 کلومیٹر مشرق میں واقع ہے۔ اسی طرح ٹونگا، فجی اور نیو کیلیڈونیا کے بحر الکاحل کے جزائری علاقوں سے 1000 کلومیٹر جنوب میں ہے۔انسانوں کے ذریعے آباد کیے جانے والے جزائر میں نیوزی لینڈ کا مقام آخری ہے۔ یعنی یہ ان جزئر میں سے ہے جسے انسانوں نے سب سے آخری میں آباد کیا ہے۔ انسانوں کی آبادی سے قبل نیوزی لینڈ ایک نا معلوم تنہا جزیرہ تھا جو مختلف جانور، پیڑ پودوں اور فنگی فنگس کا ایک خوشنما علاقہ تھا۔ نیوزی لینڈ کا دار الحکومت ویلنگٹن ہے جبکہ سب سے زیادہ آبادی والا شہر آکلینڈ ہے۔اس کے پاس کل 15,000 کلومیٹر ساحل ہے اور خشکی کا رقبہ 268,000 مربع کلومیٹر ہے۔ جبکہ اس کی کل آبادی 4923910 افراد پر مشتمل ہے۔ چونکہ اس کے جزائر باقی ملکوں کی پہنچ سے دور ہیں اور اس کے پاس بڑے سمندر بھی ہیں لہذا نیوزی لینڈ آبی وسائل سے مالا مال ہے۔ اس کا ذاتی معاشی خطہ دنیا میں سب سے بڑا ہے جو اس کے خشکی رقبہ سے تقریباً 15 گنا بڑا ہے۔ کرائسٹ چرچ میں مساجد پر جب ایک سفید فام دہشت گرد نے جدید اسلحے سے حملہ کیا اور 50 سے زائد مسلمانوں کو شہید کر دیا تھا تب ایک ایسی شخصیت نے شہرت حاصل کی جس نے مشکل کی اس گھڑی میں مسلمانوں کو نہ صرف گلے لگایا بلکہ ان کو حوصلہ بھی دیا اور ان کے حق میں پورے نیوزی لینڈ کو اکٹھا کر دیا تھا۔ جاسنڈا آرڈرن کو اپنی وزارت عظمیٰ کے دوران کئی بحرانوں کا سامنا رہا۔ ان میں سے خاص طور پر 51 مسلمانوں کے قتل عام کے بعد جس طرح انھوں نے صورتحال کو سنبھالا اسے بین الاقوامی سطح پر سراہا گیا۔اس کے بعد 2020 میں کووڈ 19 کی وبا سے تحفظ کے لیے کیے گئے اقدامات کی وجہ سے ان کی قیادت میں لیبر پارٹی کو زبردست کامیابی حاصل ہوئی۔ مگر شہریوں کے گھروں تک محدود رہنے اور ملکی سرحدوں کو بند رکھنے جیسی سخت پابندیوں نے جب طول پکڑا تو ان کی مقبولیت میں کمی واقع ہونے لگی۔19 جنوری 2023 کو ان کے مستعفی ہونے کے اعلان سے واضح تھا کہ ان پر پڑنے والے دباؤ نے انھیں متاثر کیا ہے اور یہ کہ انھیں یقین نہیں رہا کہ وہ اکتوبر 2023 میں ہونے والے انتخابات میں اپنی پارٹی کو جیتوا سکیں گی۔بیالس برس کی جاسنڈا آرڈرن شمالی جزیرے کے شہر ہیملٹن میں مورمن خاندان میں پیدا ہوئیں۔ ان کے والد ایک پولیس افسر تھے۔ ہم جنس پرستی پر اپنے موقف کی وجہ سے انھوں نے قدامت پسند پس منظر کو مسترد کردیا اور لیبر پارٹی سے وابستہ ہوگئیں۔ وہ 2008 میں رکن پارلیمنٹ منتخب ہونے سے پہلے نیوزی لینڈ کی سابق وزیر اعظم ہیلن کلارک اور برطانوی وزیراعظم ٹونی بلیئر کے لئے کام کر چکی ہیں۔نیوزی لینڈ میں ہر تین سال بعد عام انتخابات ہوتے ہیں۔ اس کے ایم ایم پی سسٹم کے تحت ووٹروں سے کہا جاتا ہے کہ وہ اپنی پسند کی پارٹی اور اپنے انتخابی حلقے کے رکن اسمبلی کے لیے دو ووٹ دیں۔کسی پارٹی کو پارلیمان میں داخل ہونے کے لیے پانچ فیصد سے زیادہ پارٹی ووٹ حاصل کرنا ہوں گے یا پھر ایم پی کی کوئی نشست جیتنی ہوگی۔ اتحاد کی حکومت کے نتیجے میں جماعتوں کو عام طور پر مل کر کام کرنا پڑتا ہے۔ سنہ 2017 میں نیشنل پارٹی نے سب سے زیادہ نشستیں حاصل کیں لیکن وہ حکومت تشکیل نہیں دے سکی اور لیبر نے قوم پرست جماعت گرین اور نیوزی لینڈ فرسٹ کے ساتھ اتحاد قائم کر کے حکومت سازی کی۔ سنہ 2017 میں جب اینڈریو لٹل کی قیادت میں لیبر پارٹی اپنی عوامی مقبولیت کھو رہی تھی تو جاسنڈا آرڈرن ان کی نائب منتخب ہوئیں اور جلد ہی ان کی اور پارٹی کی مقبولیت میں اضافہ ہونے لگا۔ لٹل انتخابات سے آٹھ ہفتے قبل مستعفی ہوگئے اور یوں جاسنڈا ان کی جانشین بن گئیں۔
انتخابی مہم کے دوران انھیں ان کے ناقدین نے یہ کہہ کر مسترد کر دیا تھا کہ وہ زیادہ کچھ نہیں پیش کرتیں۔ لیکن نیوزی لینڈ کے متناسب نمائندگی کے نظام کے تحت، اگرچہ لیبر پارٹی نے مرکزی دائیں بازو کی نیشنل پارٹی کے 44.5 فیصد کے مقابلے میں صرف 36.9 فیصد ووٹ حاصل کیے، لیکن وہ نیوزی لینڈ فرسٹ پارٹی کے ساتھ مل کر حکومت بنانے میں کامیاب رہیں۔
یہ ان کے لیے ایک سیاسی سنگِ میل ثابت ہوا کیونکہ پارٹی کے رہنما ونسٹن پیٹرز نے لیبر پارٹی کی بہت سی پسندیدہ پالیسیوں کی مخالفت کی، جیسے کیپٹل گین ٹیکس۔
جاسنڈا نے پیٹرز کو وزیر خارجہ بنانے کے بعد انھیں مکمل آزادی دیدی۔ مگر کرائسٹ چرچ میں مسلمانوں کے قتل عام کے بعد یہ سب کچھ بدل گیا۔ انھوں نے فرانسیسی صدر کے ساتھ مل کر کرائسٹ چرچ کال نامی ایک بین الاقوامی کوششوں کو آگے بڑھایا تاکہ سوشل میڈیا کمپنیوں کو اس بات پر آمادہ کریں کہ وہ براہ راست پر تشدد ویڈیوز پوسٹ کرنے والے صارفین کی صلاحیت کو محدود کریں، جیسا کہ کرائسٹ چرچ کے مسلح حملہ آور نے کیا تھا۔ لیکن ان کی خارجہ پالیسی کا سب سے بڑا چیلنج چین کے ساتھ نیوزی لینڈ کے تعلقات تھے، جو اس کا سب سے بڑا تجارتی شراکت دار اور سیاحوں اور تارکین وطن کا سب سے بڑا ذریعہ ہے۔ چین کے ساتھ قریبی روابط کی وجہ سے نیوزی لینڈ اور آسٹریلیا کے مابین تناؤ پیدا ہوا۔ وزیر خارجہ پیٹرز نے نیوزی لینڈ کی خارجہ پالیسی کا رخ روایتی شراکت داروں برطانیہ، امریکہ اور آسٹریلیا کی طرف موڑنے کی کوشش کی۔ مگر جاسنڈا آرڈرن نے اسے اس آزادانہ موقف کی طرف واپس لے گئیں جو اس ملک نے 1985 میں اس وقت اختیار کیا تھا جب امریکہ نے اسے انزوس سکیورٹی معاہدے سے نکال دیا تھا۔
سنہ 2018 میں اپنی وزارت عظمی کے دوران بیٹی نیو کو جنم دینے کے بعد وہ پہلے ہی ایک بین الاقوامی شہرت یافتہ شخصیت بن چکی تھیں۔ وہ نیو یارک میں اقوام متحدہ کے اجلاس میں نوزائیدہ بچی کو لانے والی پہلی خاتون عالمی رہنما تھیں جب انھوں اور ان کے ساتھی کلارک گیفورڈ نے بیٹی نیو کے ساتھ نیلسن منڈیلا امن سربراہ کانفرنس میں شرکت کی۔انھوں نے 2019 میں بیجنگ کا ایک روزہ دورہ کیا اور اس کا زیادہ تر حصہ صدر شی جن پنگ اور وزیر اعظم لی کیچیانگ کے ساتھ ملاقاتوں میں گزارا۔وہ وائٹ ہاؤس، اور لندن بھی گئیں اور باقاعدگی سے آسٹریلیا کے وزرائے اعظم سے ملاقات کرنے کے لیے تسمان بھی جاتی رہیں۔ تاہم، وہ سکاٹ موریسن یا انتھونی البانیز میں سے کسی کو بھی نیوزی لینڈ میں پیدا ہونے والے کسی بھی 12 سال سے زیادہ سزا یافتہ شخص کو ملک بدر کرنے سے متعلق پالیسی میں نرمی کرنے پر راضی نہیں کر سکیں۔ان کا دور کووڈ سے متعلق پالیسی کی وجہ سے یاد رکھا جائے گا۔ تقریباً دو سال تک وہ مسلسل روزانہ میڈیا کانفرنسز کرتی رہیں اور لاک ڈاؤن کی وجہ سے گھروں میں رہنے پر مجبور لوگوں کے لیے انھیں دیکھنا ناگزیر ہو گیا تھا۔
لیکن ان کی پارٹی کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو رہا تھا، ان کے ساتھی چاہتے تھے کہ ان کی حکومت ورثے میں ترقی پسند اصلاحات چھوڑ کر جائے۔ لہذا، 2020 کی زبردست فتح کے بعد لیبر پارٹی نے پانی، صحت کے نظام، وسائل کے انتظام اور منصوبہ بندی، نشریات اور آب و ہوا کی تبدیلی کے بارے میں اصلاحات کا ایک سلسلہ شروع کیا۔حزب اختلاف نے اصلاحات کی ہر کوشش کی مخالفت کی اور گزشتہ سال مظاہرین اور پولیس کے درمیان پرتشدد تصادم کے بعد پارلیمنٹ کے لان میں ایک طویل عرصے سے لگے ویکسین مخالف احتجاجی کیمپ کو ختم کر دیا گیا۔ اس سے جاسنڈا مخالف جذبات مزید بھڑک اٹھے۔ گزشتہ سال جون میں جاری ہونے والے اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ ان کے خلاف دھمکیوں میں تین گنا اضافہ ہوا۔نتیجتاً وزیر اعظم کی جانب سے ویٹنگی معاہدے پر دستخط کی نسبت سے ویٹنگی ڈے کے موقع پر روایتی دعوت کو منسوخ کرنا پڑا۔
ان کے اصلاحاتی ایجنڈے کا بڑا حصہ یا تو منظور ہونے کے انتظار میں ہے یا نفاذ کے ابتدائی مراحل میں ہے۔لہذا اس مرحلے پر ان کی وراثت بنیادی طور پر ایک قابل رسائی، ہمدرد سیاست دان کی ہے، جس نے محاذ آرائی کی جگہ مہربانی کو ترجیح دی۔ اور اندرون ملک کے بجائے بیرون ملک انھیں زیادہ پذیرائی حاصل رہی۔ خاص طور پر مسلم دنیا میں کرائسٹ چرچ حملوں کے بعد ان کی مقبولیت میں بے پناہ اضافہ ہوا اور ان کو ایک انسان دوست رہنما سمجھا گیا جو ہمیشہ انسانیت کی خدمت میں پیش پیش رہا۔ نیوزی لینڈ میں ایسا کوئی لیڈر نہیں رہا جس کو اتنا بین الاقوامی پذیرائی حاصل ہوئی ہو جتنا جاسنڈا آرڈرن کو ملی۔ آرڈرن نے مہربانی اور رحم دلی کے ساتھ دہشت گردی کے حملے، قدرتی آفات اور عالمی وبائی مرض کے دوران نیوزی لینڈ کی قیادت کی۔
======================