سعودی عرب کی قرض کے لئے شرائط خطرے کی گھنٹی ہے۔ 23 بار آئی ایم ایف سے قرضہ لے کر ضائع کر دیا گیا۔ بدترین سیاسی اور اقتصادی گورننس نے ملک کو دیوالیہ کر دیا۔ میاں زاہد حسین

mian zahid hussain business man fpcci chairmanian za
(20 جنوری 2023)
نیشنل بزنس گروپ پاکستان کے چیئرمین، پاکستان بزنس مین اینڈ انٹلیکچولزفورم وآل کراچی انڈسٹریل الائنس کے صدراورسابق صوبائی وزیرمیاں زاہد حسین نے کہا ہے کہ سعودی عرب کی جانب سے قرض کے حصول کے لئے اصلاحات کرنے کی شرط نے پاکستان کے لیے خطرے کی گھنٹی بجا دی ہے۔ پاکستان کو اپنی معیشت چلانے کے لیے فوری طور پر قرض کی ضرورت ہے جبکہ خود انحصاری کے حصول کے لیےمعاشی و اقتصادی اصلاحات کی ضرورت سے انکار بھی ممکن نہیں ہے۔ ملکی معیشت کی تباہی میں امپورٹس پرمکمل انحصار کی پالیسی نے بنیادی کردار ادا کیا ہے۔ اقتصادی تباہی کا ملبہ بیرونی عوامل پر ڈال کرعوام کو دھوکہ نہ دیا جائے۔ دنیا کے مختلف حصوں میں ہونے والے واقعات پر الزام دھرنے سے پالیسی ساز اپنی ذ مہ داری سے مبرا نہیں ہوسکتے۔ میاں زاہد حسین نے کاروباری برادری سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کے حالیہ مسائل کی وجہ کرونا وباء، اسکے بعد عالمی سطح پرقیمتوں میں بے حساب اضافہ اور یوکرین پر روس کا حملہ ہے، ملک میں سیلاب سے بھی تاریخی تباہی آئی ہے مگر اس سے بڑی اور دیرینہ تباہی اشرافیہ پروری کے نہ ختم ہونے والے سلسلے کی وجہ سے آئی ہے۔ 1958سے اب تک پاکستان 23 بار آئی ایم ایف سے قرضے لے چکا ہے اور ملک کو1988 کے بعد سے تیرہویں بار ادائیگیوں میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے مگر اسکے باوجود پالیسیوں میں کوئی واضح تبدیلی نہیں کی گئی پاکستان پیپلز پارٹی چھ بار آئی ایم ایف پروگرام لے چکی ہے جبکہ ن لیگ نے یہ کام چار بار، جنرل مشرف نے دو بار اور پی ٹی آئی نے یہ کام ایک بار کیا ہے اور یہ سلسلہ جاری ہے۔ ملک کئی دہائیوں سے بد ترین سیاسی اور اقتصادی گورننس کو بھگت رہا ہے بجلی چوری، لائن لاسز، گیس چوری، ناکام سرکاری اداروں کی پرورش، سرکلرڈیٹ، زراعت کی زبوں حالی، انرجی پالیسی، ایکسپورٹس سے بے اعتنائی اور درآمدات پر انحصارنے خوشحال ملک کو دیوالیہ کر ڈالا ہے۔ ملکی وسائل کو دونوں ہاتھوں سے لوٹنے والے لوگ معیشت سمیت کسی بھی شعبے میں اصلاحات کے سخت مخالف ہیں اور کسی بھی حکومت میں انھیں چیلنج کرنے کی ہمت نہیں ہے۔ گزشتہ سترسال میں ٹیکس سسٹم میں اصلاحات کے نام پراربوں روپے ضائع کر دئیے گئے مگر اب بھی ٹیکس کی ادائیگی جی ڈی پی کے دس فیصد کے لگ بھگ ہے جو شرمناک ہے۔ صحت، تعلیم، توانائی، پیداواراوردیگراہم شعبوں کا حال بھی مختلف نہیں ہے۔ اگر اب بھی پالیسیوں میں بنیادی تبدیلی نہ کی گئی اور انہیں پاکستان کی زمینی حقائق سے ہم آہنگ نہ کیا گیا تو ملک کا اللہ ہی حافظ ہے۔
— — –