فارما کمپنیوں کو ہر سال نئے چیلنج کا سامنا رہتا ہے ، پی پی ایم اے تین مہینے سے جن خدشات کا اظہار کر رہی تھی وہ سچ ثابت ہوئے فارما کمپنیوں کے پاس خام مال ختم ، ادویات بحران کا خدشہ پیدا ہو گیا ، بینکوں کے پاس ڈالر نہیں سامان بندرگاہوں پر پھنسا ہوا ہے ۔پی پی ایم اے کے مرکزی چیئرمین سید فاروق بخاری کا جیوے پاکستان ڈاٹ کام کو خصوصی انٹرویو ۔ملاقات محمد وحید جنگ ۔

پاکستان میں فارما سیکٹر ان دنوں شدید مشکلات کا شکار ہے ملک میں معیشت پر آنے والے دباؤ کی وجہ سے ڈالر کا بحران ہے جس نے سب کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے ادویات کی تیاری کے لیے فارما کمپنیاں جو خام مال بیرون ملک سے منگوا تی ہیں وہ ڈالروں کی کمی کی وجہ سے بندرگاہوں پر پھنسا ہوا ہے ادویات ساز کمپنیوں کی جانب سے حکومت کو خبردار کیا جاتا رہا کے مسائل آ رہے ہیں اور اب یہ مسائل سر پر پہنچ چکے ہیں تازہ ترین صورتحال کیا ہے یہ جاننے کے لیے پی پی ایم اے کے مرکزی چیئرمین سید فاروق بخاری سے محمد علی جنگ نے جیوے پاکستان ڈاٹ کام کے لیے خصوصی انٹرویو لیا اس موقع پر انہوں نے کن خیالات کا اظہار کیا آئیے آپ بھی جانئے ۔

سوال ۔فارما سیکٹر کو اس وقت سب سے بڑے مسائل کیا درپیش ہیں ؟
جواب ۔فوری طور پر سب سے بڑا مسئلہ بینکوں سے ایل سی نہ کھلنے کا ہے بینکوں سے انکار ہو رہا ہے بینک کنٹریکٹ ایڈوانس پیمنٹ نہیں ہو رہی ۔ہمارا مال بندرگاہ پر پھنسا ہوا ہے کیونکہ نیشنل بینک کے پاس ڈالرز نہیں ہیں اس بنا پر سامان ریلیز نہیں ہو رہا مسائل ہر دن گزرنے کے ساتھ بڑھ رہے ہیں مارکیٹ میں ادویات کی شارٹیج آ چکی ہے تین مہینے سے ہم شور مچا رہے تھے چیخ رہے تھے حکومت کی توجہ اس جانب مبذول کرا رہے تھے ہم یہ تھا کہ ایسا ہوگا اور اب یہ حدشات درست ثابت ہوئے خام مال کی کمی آگئی ہے ۔
سوال ۔لیکن حکومت کی طرف سے اور اسٹیٹ بینک کے ترجمان کی طرف سے کہا گیا تھا کہ ایل سی کھل رہی ہے ؟
جواب ۔جی ہاں کہا گیا تھا اور میں شکریہ ادا کرتا ہوں اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے گورنر کا اور وزیر خزانہ کا کہ انہوں نے سرکلر جاری کیا لیکن اس پر عمل درآمد بینکوں نے ابھی تک شروع نہیں کیا بینکوں کا یہی موقف ہے کہ ڈالرز نہیں ہیں ۔
سوال ۔خام مال کی کمی کا مسئلہ تو پچھلے سال ڈیڑھ سال سے چل رہا تھا اب کیا صورت حال ہے ؟
جواب ۔نہیں یہ مسئلہ سال ڈیڑھ سال پرانا نہیں بلکہ پچھلے چار پانچ مہینے سے بڑھ گیا ہے ہمیں چیپٹر 84 اور 85 کے تحت ایکسپورٹ کے لیے مشینری منگوانے نہیں دی جا رہی ۔پہلے ہم پرائزز کا مسئلہ ممبران میں مصروف تھے اب را مٹیریل کا مسئلہ ہمارے سر پر آ کھڑا ہوا ہے ۔
سوال ۔اس صورتحال میں پی پی ایم اے کا کیا کردار ہے اور وہ کیا کر رہی ہے ؟
جواب ۔بالکل پی پی ایم اے کا کردار ہے اور وہ ہر فورم پر ہر جگہ اپنا موقف پیش کر رہی ہے ہم نے حکومت سے کہا ہے کہ اگر ہمارے بزنس کا خیال نہیں تو نہ سہی کم ازکم مریض کی صحت کا خیال تو کریں مارکیٹ میں ادویات کی کمی کی وجہ سے پریشر بڑھتا جا رہا ہے مشکل سے 10دن کا خام مال اسٹاک میں رہ گیا ہے تقریبا پچیس فیصد کمپنیاں بند ہونے جا رہی ہیں فی الحال کمپنیوں کے نام نہیں بتا سکتا کیونکہ کمپنی نہیں چاہتی کہ اس کا نام آئے لیکن کام ٹھپ ہونے جا رہا ہے کمپنیاں کام بند کرنے جا رہی ہیں ۔
سوال ۔مسائل تو پچھلے سالوں میں بھی تھے نئے سال میں کیا چیلنج ہے ؟
جواب ۔اب تو ہمیں عادت سی ہو گئی ہے کہ ہر سال کسی نئے چیلنج کا مقابلہ کرنا ہے ہر سال حکومت کے سامنے بات چیت کرنی پڑتی ہے کبھی فرائض پر اور کبھی کسی اور معاملے پر ۔ ایک بحران ختم نہیں ہوتا تو دوسرا شروع ہوجاتا ہے یہ بڑی بدقسمتی کی بات ہے ۔
سوال ۔ادویات کی قیمت بڑھانے کے حوالے سے کوششیں کی جارہی تھیں کیا نتیجہ نکلا ؟
جواب ۔جس قدر مہنگائی ہوئی ہے اور یوٹیلیٹی کی مد میں 60 سے 80 فیصد اضافہ ہوا ہے ڈالر کتنا اوپر چلا گیا ہے ان سب چیزوں کو مدنظر رکھتے ہوئے مجموعی طور پر 38 فیصد اضافہ مانگا تھا لیکن ہماری بات نہیں سنی گئی اور ہمارا مطالبہ رد کر دیا گیا ۔
سوال ۔خام مال بندرگاہ سے نہ اٹھایا جا سکا تو کیا صورتحال ہوگی ؟
جواب ۔بہت برا ہوگا ۔حکومت کو بتا چکے ہیں 700 فارما کمپنیوں نے ادویات کا خام مال بیرون ملک سے منگوایا ہے لہذا حکومت ایل سیز کھو لے تا کہ کمپنیاں اپنا مال اٹھا سکیں ۔اگر پندرہ دن میں مسائل حل نہ ہوئے تو ادویات کی قلت ہو جائے گی نومبر سے لے کر اب تک 350 فارما کے کروڑوں ڈالرز کنسائنمنٹ پورٹ پر پھنسے ہوئے ہیں ۔
===================