2022۔کشمیر میں خوف کی فضاء لوگ بات کرنے سے گھبراتے ہیں۔

سچ تو یہ ہے،
==========


بشیر سدوزئی،
==========

سال 2022ء مقبوضہ جموں و کشمیر میں خاموشی اور خوف کے سائے میں گزرا۔ اکا دکا واقعات یا آرمی کی جانب سے یک طرفہ چھاپے اور پکڑ دھکڑ کے علاوہ کوئی بڑا عوامی احتجاج ہوا، نہ بم دھماکہ اور نہ کوئی مقابلہ۔خوف کی فضاء میں مکمل خاموشی کو بھارت پرامن حالات کا نام دے رہا ہے۔بی بی سی اردو سروس کی عالیہ نازکی نے سال گزشتہ کے آخری روز مختصر رپورٹ میں بھارت کے اس دعوی کا پول کھول دیا۔عالیہ نازکی کو ایک کشمیری خاتون نے شناخت ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ” احتجاج تو دور لوگ کھل کر آپس میں بات کرنے سے بھی ڈرتے ہیں۔گھر پر بھی اگر ڈنر کر رہے ہوں تو لوگ بولیں گے کہ آستہ بولو، ٹیپ ہو رہا ہو گا، راستے میں بھی لوگ آپس میں کم بولیں گے،ایسا لگتا ہے کہ دیواروں کے بھی کان ہوتے ہیں” کشمیری خاتون کی یہ مختصر گفتگو مقبوضہ جموں و کشمیر کی صورت حال کو سمجھنے اور اس پر غور کرنے کے لیے کافی ہے۔کشمیر سے کوئی خبر باہر جا سکتی ہے نہ اندر آ سکتی ہے۔ سوشل میڈیا پر پابندی ہے، نہ کوئی ایسی پوسٹ دیکھ سکتا ہے جس میں کشمیر کا تذکرہ ہو اور نہ وہاں سے کوئی ایسی پوسٹ نکل سکتی ہے۔۔ کشمیریوں کے لیے بین الاقوامی سفر بھی محدود اور مشروط کر دیا گیا۔اطلاعات کی مطابق جنوری سے دسمبر 2022 کے دوران بے گناہ سول اور پرامن افراد کی خونریزی، انسانی حقوق کے محافظ، سیاسی و سماجی کارکنوں، علماء اور اماموں کی بلاجواز گرفتاریوں کا سلسلہ جاری رہا۔ بھارت نے مقبوضہ کشمیر میں ایک سال کے دوران فوجیوں کی تعیناتی میں 1لاکھ تیس ہزار اہلکاروں کا مزید اضافہ کیا۔ سٹیٹ انویسٹی گیشن ایجنسی اور سپیشل انویسٹی گیشن یونٹ کو مذید اختیارات اور فعال کیا گیا۔گزستہ برسوں کے مقابلے میں اس سال 33 فیصد زیادہ گرفتاریاں کی گئیں۔۔ 225 افرد کو ماورائے عدالت قتل کیا گیا۔ گاوں، گاوں تلاشی کے نام پر 200 سے زائد کارروائیاں کے دوران 212 رہائشی مکانات کو تباہ کیا گیا۔جب کہ مختلف تھانوں میں 948 ایف آئی آر درج کی گئیں جن کے تحت حریت رہنماﺅں، انسانی حقوق کے محافظوں، صحافیوں، مذہبی علماء اور پی ایچ ڈی سکالرز سمیت سینکڑوں بے گناہ کشمیریوں کو گرفتار کیا گیا ان لوگوں کی تعداد اس سے بہت زیادہ ہے جن کو فورسز تھانے میں انٹری کرائے بغیر لے گئی۔281 افراد صرف کوٹ بھلوال جیل جموں منتقل کئے گئے۔182 کشمیریوں کو جموں کی جیلوں سے بھارت کے دور دراز علاقوں کی جیلوں میں منتقل کیا گیا۔ اس سال گلمرگ اور سونمرگ میں ہزاروں ایکڑ اراضی بھارتی فوج کے حوالے کی گئی جہاں فوجی چھاونیوں کے علاوہ رہائشی علاقے تعمیر ہو رہے ہیں،حریت رہنما الطاف شاہ کو تہاڑ جیل میں ہلاک اور 40 سے زائد کشمیری کو سرکاری ملازمتوں سے برطرف کر دیا گیا۔ 40 لاکھ غیر کشمیری ہندوؤں کو وادی میں ووٹنگ کا حق دیا گیا جس سے آبادی کا تناسب بگھڑنے کا اندیشہ پیدا ہو چکا۔2022ء کے دوران شبیر شاہ، سید علی گیلانی اور دیگر حریت رہنماؤں سمیت وادی کشمیر کے مختلف اضلاع میں لگ بھگ 20 جائیدادیں باحکم سرکارضبط کر لی گئیں۔اسی سال اسرائیلی سفارت کاروں نے تواتر کے ساتھ مقبوضہ وادی کے دورے کئے، مبینہ طور پر ایگریکلچر ریفارمز کے نام پر ملٹری فورسز کے تربیتہ کیمپ قائم کئے جا رہے ہیں۔ بھاجپا حکومت نے مقبوضہ جموں و کشمیر کے وقف بورڈ کی تشکیل نو کے نام پر مسلمانوں کے مذہبی مقامات خانقاہوں اور مساجد کی مقامی کمیٹیوں کو تحلیل کر کے بی جے پی کے ہندو رہنماء کی سربراہی میں نیا بورڈ قائم کیا ہے۔ نئے ہندو چئیرمین کے حکم کے تحت تمام سابق مقامی کمیٹیاں کالعدم ہو چکی اور ان کی کوئی بھی کارروائی قابل سزا جرم تصور کی جائے گی۔کشمیری اسکالر عبدالعلا فضلی کو 11 سال قبل ایک میگزین میں “غلامی کی بیڑیاں ٹوٹ جائیں گی” کے عنوان سے مضمون لکھنے کے جرم میں اس سال 17 اپریل کو سری نگر سے گرفتار کیا گیا۔کشمیر ہائی کورٹ نے پی ایچ ڈی مقالہ جمع کرانے کے لیے اس کی مختصر مدت کی ضمانت کی درخواست مسترد کر دی۔ اس کا جرم یہ ہے کہ اس نے 11 سال قبل آزادی کے حق میں مضمون لکھا تھا۔جموں و کشمیر سے شائع ہونے والے اخبارات اور میڈیا ہاوسسز پر کشمیری رہنماء کے بیانات اور مقبوضہ علاقے کی زمینی صورتحال سے متعلق خبریں شائع کرنے پر پابندی لگا دی گئی ہے۔ اس پابندی پر بھارتی فوج اور پولیس زبردستی عمل درآمد کروارہی ہے۔ روزنامہ کشمیر ریڈر کے مالک حاجی حیات اور رپورٹرز گوہر گیلانی، شوکت اے موٹا، وسیم راجہ، حکیم راشد مقبول، قاضی شبلی، خالد گل، محمد رفیع، اشفاق ریشی اور ثاقب حسین مغل سمیت متعدد کشمیری صحافیوں کو حریت قیادت کے بیانات یا زمینی حقائق سے متعلق خبر، نام یا حوالہ شائع کرنے پر پورا سال بار بارتھانے میں طلب کیاجاتا رہا ۔کشمیری صحافیوں آصف سلطان، منان گلزار ڈار، فہد شاہ اور سجاد گل مختلف جیلوں میں قید ہیں۔خاتون صحافی ثنا ارشاد متو کو اہم ترین رپورٹر پرائز ایوارڈ وصول کرنے کےلئے نیویارک جانے سے روک دیا گیا۔مودی حکومت نے کشمیر میں نئی میڈیا پالیسی جاری کی ہے جس کا مقصد آزادی صحافت پر قد غن اور ہندوتوا حکومت کی جانب سے سب اچھا ہے کا بیانیہ تیار کرنا ہے۔ میڈیا کو اس سرکاری پالیسی پر عمل کرنے کا حکم دیاگیا ہے۔نئی میڈیا پالیسی کے بارے میں کشمیر ٹائمز کی ایڈیٹر انورادھا بھسین جموال کہتی ہیں کہ صحافت کا گلا گھوٹنا اورصحافت کو موسم اور ہول سیل مارکیٹ کے بارے میں خبروں تک محدود کرنے کی ایک کوشش ہے۔ مودی حکومت نے مسئلہ کشمیر کو فرسودہ ایجنڈا قراردے کر اقوامِ متحدہ کے ٹیبل سے ہٹانے کی کوشش بھی اسی سال کی۔ سرحد کے دونوں جانب اقوام متحدہ کے فوجی مبصرین کو ریاست سے نکالنے کا مطالبہ دہریا گیا ۔بھارتی فوج کے نادرن کمانڈر لیفٹیننٹ جنرل اوپیندر دویدی نے دعویٰ کیا کہ بھارتی فوج آزاد جموں و کشمیر پر قبضے کے لئے حکومتی احکامات پر عملدرآمد کے لیے تیار ہے۔ یہ بھارتی وزیر دفاع راج ناتھ سنکھ کے اس بیان کے تسلسل میں تھا جو اس نے 27 اکتوبر کو کشمیر پر بھارتی فوج کشی کی 75ویں سالگرہ کے موقع پر وادی کشمیر میں دیا تھا۔ اسی سال امریکا بھی بھارتی کے ساتھ تعلقات کے پینترے بدلتا رہا۔ڈونلڈ لو نے کہا کہ کشمیر پر امریکی پالیسی میں تبدیلی نہیں آئی مقبوضہ جموں وکشمیرمیں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر نئی دہلی سے بات چیت کی ہے۔ اسی دوران پاکستان میں امریکی سفیر نے مظفرآباد کا دورہ کیا اور اپنے ٹویٹ میں آزاد ریاست جموں و کشمیر لکھا۔ اسلامی سربراہی کانفرنس نے اپنے اجلاسوں میں مسئلہ کشمیر کو سرفہرست رکھا تاہم جس قدر مقبوضہ کشمیر میں مظالم ہو رہے ہیں سفارت کاری کے ذریعے اس کی پوری اطلاع دنیا تک نہیں پہنچائی گئی۔ اس کی ایک وجہ پاکستان میں سیاسی عدم استحکام تو ہو سکتا ہے تاہم کشمیریوں کو صدمہ ہے کہ مبینہ طور پر بطور ریاست پاکستان نے مسئلہ کشمیر پر دست کشی کی ہے۔اس صورت حال سے نکلنے کے لیے 2023ء میں جموں و کشمیر کے عوام کو ایک ایسے ادارے یا قائد کی ضرورت ہے جو مسئلہ کشمیر پر غیرجانبدارانہ رویہ، مضبوط و پرعزم ارادہ، تخیل کی صلاحیت، مذاکرات کی مہارت اور لوگوں کو اکٹھا کرنے کا فن جانتا ہو۔ کشمیریوں کو آج بھی یہی یقین ہے کہ اس مقصد کے لیے اقوام متحدہ سے بہتر کوئی ادارہ اور سیکرٹری جنرل سے بہتر کوئی قائد نہیں ہو سکتا جو کشمیر سے متعلقہ تینوں فریقوں کے درمیان ثالثی یا سہولت کاری کرسکتا ہو ۔ یہ یقین اس لیے ہے کہ سیکرٹری جنرل یو این دنیا کا واحد عہدہ ہے جو غیرجانب دار منصب کا کردار ادا کر سکتا ہے۔اس کی کشمیر پر تسلط قائم کرنے کی کوئی خواہش نہیں ہو سکتی اور نہ کسی فریق کے ساتھ جانب داری۔ جبکہ بڑی طاقتوں کی طرح سیکرٹری جنرل کی ثالثی حسد اور عزائم سے پاک ہو سکتی ہے جو انفرادی اقدام کی خصوصیت رکھتا ہے۔ سیکرٹری جنرل کو کسی خاص طاقت یا طاقتوں کی مخصوص، خواہش کی تکمیل یا ان کو خوش کرنے کی کسی ذمہ داری کے تحت نہیں رہنا پڑتا اگر وہ غیر جانب داری کے ساتھ انصاف پر مبنی فیصلہ کرنے چاہتا ہو۔ ہاں، اس کو بھارت کی طرف سے مزاحمت ہو گی لیکن اگر بھارت اس بات سے متاثر ہے کہ وہ تنازعہ کشمیر کے منصفانہ حل سے کیا حاصل کرے گا تو اس کی قیادت کو بتانا پڑے کا کہ مسئلہ کشمیر کے حل سے اس کی منفیت ناقابل تسخیر ہے۔ لیکن بھارت کو قائل کرنے میں وقت لگ سکتا ہے۔ عبوری طور پر جموں و کشمیر کے لوگوں کے مصائب اور تناؤ کو کم کرنے کے لیے کئی اقدامات کی فوری ضرورت ہے۔آزاد کشمیر کی حکومت کو با اختیار اور ڈوگرہ کی جانشین حکومت کے طور پر تسلیم کرنے سے بین الاقوامی سفارت کاری میں تیزی، مقبوضہ کشمیر میں ہونے والے مظالم میں آسانی، اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کو قائل اور بھارت کے ساتھ کشمیری قیادت برابری کی بنیاد پر بات کرنے کی اہل ہو سکتی ہے۔مقبوضہ وادی میں انسانی حقوق کی تنظیموں کو زیادہ رسائی اور صحافت کو آزاد کیا جائے۔ بھارت کی قابض افواج کو کم کیا جائے۔ تمام سیاسی قیدیوں کو رہا کیا جائے۔ انسانی حقوق کے جرائم کے لیے ہندوستانی فوج کو استثنیٰ دینے والے ہنگامی قوانین کو منسوخ کیا جائے۔ ڈومیسائل قانون جو کشمیر کی ڈیموگرافی کو تبدیل کرنے کے لیے بنایا گیا ہے اسے منسوخ کیا جائے۔ تمام لوگوں کو ان کے سیاسی عقائد سے قطع نظر تقریر، اظہار رائے، اور پر امن سیاسی، سماجی، معاشی اور معاشرتی سرگرمیوں کی آزادی دی جائے۔ اقوام متحدہ اور سیکریٹری جنرل ہی اس کو یقینی بنا سکتے ہیں ۔
===================================