سچ تو یہ ہے،
==========
بشیر سدوزئی ۔
===========
حبا کی والدہ کہتی ہیں! ” ہم چاہتے ہیں اس کی بینائی واپس آسکے، چاہے اس کے لیے ہمیں اپنی زمین ہی کیوں نہ فروخت کرنا پڑے”۔ والد کہتا ہے! “کاش پیلٹ مجھے لگ جاتے، تمہیں نہ لگتے۔” لیکن ان دونوں کی خواہش پوری نہیں ہو سکتی چاہیے اس پر ان کا دم نکلے۔ ان کے پاس تو وسائل نہیں لیکن جیسے تیسے کر کے انہوں نے لخت جگر پر پانچ لاکھ خرچ کر دیئے، ابواجداد کی زمین بیچنے چاتے ہیں، اپنی آنکھوں دینا چاتے ہیں لیکن ڈاکٹروں کے جواب کے بعد ان کے لیے مایوسی کے سوا کوئی چارہ نہیں۔ ریاست کیا مدد کرے گی، ریاست تو وہاں کے انسانوں پر زمین کو ترجیح دے رہی ہے،اس کی پالیسی ہے انسان سارے ختم ہو جائیں یا اندھوں بہروں کی طرح رہیں ورنہ پاکستان چلے جائیں، ڈاکٹروں کہتے ہیں کہ تین آپریشن کے بعد حبا کا مزید آپریشن کرنے سے بچی کا چہرہ خراب ہو جائے گا۔۔19ماہ کی خوبصورت کشمیری بچی کے لیے اب یہ دنیا اندھیروں میں بدل چکی۔ ڈاکٹر نے تین آپریشن کے بعد جواب دیا ہے کہ اس کی بینائی کبھی بحال نہیں ہو سکتی۔ شوپیاں مقبوضہ کشمیر کی اس معصوم کی آنکھیں 25 نومبر 2018 کو بھارتی فورسز نے پیلٹ گن سے زخمی کی تھی۔اس وقت وہ اپنے گھر کے صحن میں ماہ کی گود میں تھی۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق حبا کی ماں مرسلہ جان واقعہ کے بارے میں بتاتی ہیں! ” پانچ حریت پسندوں کی تلاش میں اس دن علاقہ فوج نے گھیرا ہوا تھا، صبح سویرے علاقے میں انڈیا مخالف نعرے بازی شروع ہوئی اور سکیورٹی فورسز نے مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے آنسو گیس پھینکی۔ پولیس اور مظاہرین کا یہ تصادم ہمارے گھر کے داخلی راستے سے چند میٹرز کے فاصلے تک پہنچ چکا تھا۔ میں ناشتہ بنانے کی تیاری کر رہی تھی۔ اسی اثنا مجھے شدید کھانسی ہوئی۔آنسو گیس کے شیلز کا سرمئی دھواں گھر میں داخل ہو چکا تھا ، میں گھر میں دو بچوں کے ساتھ اکیلی تھی۔ ہر گزرتے منٹ کے ساتھ ہوا مزید سانس لینے کے قابل نہیں رہی۔حبا نے قے کرنا شروع کر دی اور میرے پانچ سالہ بیٹے کو سانس لینے میں مشکل ہو رہی تھی۔ اس صورت حال میں بچوں کی حالت خراب سے خراب تر ہونے پر حبا کو گود میں اور بیٹے شہادت کا ہاتھ پکڑ کر کھلی فضاء میں سانس لینے کے لیے باہر بھاگیں، ابھی دروازہ پورا کھولا بھی نہیں تھا کہ فورسز نے میری جانب فائرنگ شروع کر دی میں نے بیٹے کو اپنے پیچھے کر لیا اور حبا کا منہ اپنے ہاتھ سے چھپا لیا۔ایک سپاہی نے پیلٹ گن کی تین فائر میری جانب کیے جن میں سے دو میرے ہاتھ پر لگے جس سے ہاتھ زخمی ہوئے لیکن ایک حبا کی دائیں آنکھ میں جا لگا۔ حبا چلائی کہ ‘ماں، یہ جل رہا ہے’ اور اس کی آنکھ سے خون بہنے لگا۔ بچی کی یہ حالت دیکھ کر میں بے ہوش ہوگئیں۔ اس وقت ہوش آیا جب مجھے ایمبولینس پر سری نگر ہسپتال پہنچایا جا رہا تھا اور میرے اردگرد ہمسائے کھڑے تھے۔ حبا کی آنکھ کی روشنی ختم اور شدید زخمی ہو چکی تھی”۔پرندوں کے شکار کے لیے استعمال ہونے والی اسرائیل ساخت پیلٹ گن کا حبا بے بی پہلا اور آخری شکار نہیں بلکہ بھارتی فورسز بین الاقوامی سطح پر ممنوع اس اسلحہ کو 2010 سے مقبوضہ کشمیر میں انسانوں پر بڑی بے دردی سے استعمال کر رہی ہیں۔ اب تک دس ہزار سے زائد افراد کے چہرے داغدار کئے جا چکے۔ آٹھ ہزار سے زائد کی آنکھیں زخمی ہوئی ہیں۔ ٹائمز آف انڈیا” کی رپورٹ کے مطابق جن لوگوں کی آنکھیں چھروں سے زخمی ہوئی تھیں بڑی تعداد کی بینائی میں کمی آئی ہے۔جن زخمیوں کی آنکھوں کے آپریشنز ہوئے ان میں سے 80 فیصد کی بصارت مکمل یا جزوی متاثر ہوگئی۔انسانی حقوق کے اداروں اور سول سوسائٹی نے اس گن کے استعمال کے خلاف آوازیں بلند کی ہیں۔ لیکن سفارت کاری اور بین الاقوامی سطح پر بھارتی فوج کے اس مجرمانہ فعل کو بے نقاب کرنے میں ناکامی کے باعث مقبوضہ کشمیر میں قابض بھارتی فورسز پر اس کا کوئی اثر نہیں پڑتا اور ہزاروں کشمیری شہریوں کو پیلٹ گنوں کے مہلک حملوں سے اندھا کردیا ہے جن کی بین الاقوامی سطح پر کوئی آواز بھی نہیں پہنچاتا۔33 سال ہو چکے مقبوضہ جموں کشمیر کے عوام سخت اذیت میں ہیں اور کشمیر مسلسل جلتا، سلگتا، تڑپتا، دہکتا اور فنا کے گھاٹ ہو رہا ہے۔ وہاں حق استصواب رائے، آزادی مانگنا، انسانی حقوق اور انصاف کی بات کرنا جرم کبیرا بن چکا، جو ایسی بات بھی کرے وہ آنکھیں اور جان کھو دیتا ہے ، عزت و عصمت گنوا دیتا ہے، خود کو ٹارچر سیل کے حوالے کر دیتا ہے یا ہمیشہ کے لیے اس دنیا سے رخصت کر دیا جاتا ہے ۔بھارتیہ جنتا پارٹی نے فوج کو سفاکی اور ریاستی دہشت گردی کا مکمل اختیار دیا ہوا ہے فوج کی جانب سے مظالم کا کوئی بھی کھناونا اقدام ریاست کا قانون ہے ۔ بھارتی پارلیمنٹ میں ایسا انوکھا قانون منظور ہوا کہ امن اماں قائم رکھنے کے لیے ریاستی فورسز جو بھی اقدام کریں وہ جائز اور ریاستی قانون ہے۔اس اختیار کے تحت انصاف و احساس سے عاری فوجی جتھے چاہئیں تو معصوم حبا جان کی آنکھ لے لیں اور چاہئیں تو کنن پوش پورا کا واقع کریں۔ چاہئیں تو کسی نوجوان کو سر راہ چلتے گولی مار دیں یا ٹارسیل میں تشدد کریں اور لاش جنگلات میں پھینک دیں، غائب کریں قتل کریں اور خفیہ طور پر کھڑے میں ڈال دیں ان کا ہر اقدام قانون کے مطابق ہے۔ طرہ یہ کہ بھارت کی عدالت عظمی بھی کشمیریوں کو کیا تاریخی انصاف دیتی ہے کہ جرم ثابت نہیں ہوا لیکن اجتماعی ضمیر کو مطمئن کرنے کے لیے ملزم کو سزائے موت دی جاتی ہے پھر ملزم کو مجرم ہوئے بغیر ہی تہاڑ جیل میں سولی پر چڑھا دیا جاتا ہے ۔ واہ رے جمہوریہ ہند، تیری جمہوریت کے بھی کتنے رنگ ہیں کسی کے لیے سفید اور کسی کے لیے سیاح۔کٹر ہندو ہے تو جمہوریت کے مزے لے، مسلمان ہے تو کم ترین ہے اگر کشمیری ہے تو کٹر ہندو کے اجتماعی ضمیر کو مطمئن کرنے کے لیے موت کا حقدار ہے۔۔سفاک فوجیوں نے نہتے شہریوں پر انتہائی تباہ کن ہتھیار پیلٹ گنز کا جس بے دردی اور بے رحمی سے استعمال کیا اس کی دنیا میں دوسری کوئی مثال نہیں ملتی۔بچوں، خواتین، بیمار اور بزرگ شہریوں کا ہر معاشرے میں لحاظ رکھا جاتا ہے لیکن مقبوضہ کشمیر میں معصوم بچوں،خواتین اور بزرگوں سمیت سامنے آنے والے ہر شہری کو پیلٹ گن سے چھلنی کیا جاتا ہے۔ پیلٹ گنوں سے ہزاروں کی تعداد میں زخمی ہونے کے علاوہ 130 شہری شہید بھی ہوچکے۔ غیر جانب دار ذرائع کے مطابق پیلٹ گنوں سے زخمیوں کے چہرے بگاڑ دیئے یا انہیں اندھا کر دیا گیا فورسز دانستہ طور پر چھرے چہرے پر ہی مارتی ہیں ۔ رپورٹ کے مطابق بہت سارے ایسے زخمی بھی ہیں کہ فورسز کے خوف سے وہ سامنے ہی نہیں آتے۔ فوجیوں نے ہسپتالوں پر چھاپے مار کر زیر علاج کئی نوجوانوں کو گرفتار کرکے ٹارچر سیل میں پہنچا دیا کہ زخمی ہونے والا ضرور آتنگ وادی ہو گا۔ کشمیری کےلئے یہ دنیا ایک ایسا ظلمت کدہ بن چکی جس میں انہیں جینے کی کوئی امید نظر نہیں آتی۔ کیوں کہ یہاں ان کو انصاف ہوتا نظر نہیں آتا۔ اب تو وہ رو بھی نہیں سکتے ڈاکٹر کہتے ہیں زخمی آنکھوں میں پانی نہیں آنا چاہیے ورنہ مسائل بڑھ جائیں گے۔ مزاروں پر گھومتی ماہیں قبر سے سوال کرتی ہیں میرا بچہ کب آئے گا، اسے تو گئے 20 سال ہو گئے، اسے تو پچیس سال ہوگئے۔ بچے ماہوں سے سوال کرتے ہیں بابا جیل میں کیوں بند ہے اس نے کیا قصور کیا، ماہ کہتی ہے بیٹا شبیر شاہ اور قاسم فکتو کو 30 سال ہو گئے جیل میں ان کا قصور ابھی معلوم نہیں ہوا، آپ کے ابو کو تو جیل میں دس سال ہوئے ابھی کیسے معلوم ہو گا کہ اس نے کیا قصور کیا، لیکن مجھے یاد ہے کہ اسے فوجی کھیتوں سے پکڑ کر لے گئے تھے جب وہ کھیتی باڑی میں مصروف تھا کہ تم آتنگ باد ہو۔۔ اسی طرح حبا جان کو معلوم ہی نہ ہوا کہ اس کے ساتھ کیا ہوا کیوں اور کیسے ہوا اس نے ایسا کون سا جرم کیا تھا، کشمیری ماں کی کوکھ سے جنم دینے کی اتنی بڑی سزاء کہ دنیا ہی اجاڑ دی۔ کھڑکی سے باہر جھانکنے والی پندرہ برس کی کالج گرلز انشاء مشتاق پیلٹ گن کے چھرے سے بینائی سے محروم ہوگئی۔بارہ مولہ کا محمد کبیر کا چہرہ پیلٹ گن کے چھروں سے شدید متاثر اور دونوں آنکھوں کی بینائی ختم ہو گئی ۔ 15 سالہ عابد میر کو راستے میں چلتے ہوئے پیلٹ گن سے شکار کر کے آنکھیں متاثر کر دیں۔احمد ڈار گریجویشن کے آخری سال میں پیلٹ گن کا نشانہ بنا، پانچ مرتبہ سرجری کرانے کے باوجود مکمل بینائی واپس نہیں آئی۔ فراز احمد کو اس لیے پیلٹ گن کا نشانہ بنایا کہ وہ نوجوان ہے ضرور آتنگ وادی ہو گا۔سرینگر میں 18سال کا نوجوان ٹیوشن جاتے ہوئے پیلٹ گن کا شکار ہوا۔21 برس کا محمد مشتاق راشن گھر لاتے ہوئے پیلٹ گن کے چھرے سے بینائی سے محروم ہو گیا۔ کیا ہے کوئی ان مظلوموں اور مجبور بے کس انسانوں کی داد رسی کرنے والا، کوئی ان کی آواز بن سکتا ہے، کیا اس مطلبی دنیا میں کوئی ان کا غم بانٹ سکتا ہے، کوئی ہے ایسا جو بھارت کی اس درندگی کو دنیا پر عیاں کرے۔ یہ ذمہ داری اخلاقی اور قانونی آزاد کشمیر کے حکمرانوں کی ہے جو تین تحصیلوں کے تیرا ضلع بنا کر اختیار و اقتدار اور وسائل کے مزے لوٹ رہے ہیں نسل در نسل انہی مظلوم انسانوں کے نام پر لوٹ کھسوٹ میں لگے ہوئے ہیں لیکن آقاوں سے پوچھے بغیر ان کی طرف دیکھتے ہیں نہ سوچتے ہیں ۔۔وزیراعظم سردار تنویر الیاس صاحب،آپ کی طرف اللہ کا بڑا کرم ہے۔ آپ 25 نومبر کو حبا بے بی کے نام سے منسوب کرنے کا اعلان کر کے مقبوضہ کشمیر میں پیلٹ گن سے زخمی بھائی بہنوں کے ساتھ علامتی دن منائیں تاکہ آپ کی تحریک پر کشمیر ڈائس پورا اس دن، دنیا کو بھارت کے ان انسانیت سوز مظالم سے آگاہ کرنے کے لیے حبا بے بی اور دیگر زخمیوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کریں۔ آئیے! ہم سب مل کر 25 نومبر کو یوم حبا مناتے ہیں۔
کالم نویس ۔۔ بشیر سدوزئی مقبوضہ کشمیر کی صورت حال پر لکھتا ہے برہان وہانی ایک تحریک ایک سنگ، معروف تصنیف ہے،کے ایچ خورشید کے ساتھ کام کر چکا۔ رابطہ03002116511 ای میل bashirsaddozai@gmail.com
==============================