عدم برداشت اور ہماری ذمہ داریاں

نوید نقوی
=======
پاکستان یوں تو ایک اسلامی جمہوریہ ہے اور یہاں الحمدللہ مسلمانوں کی اکثریت ہے لیکن اگر معاشرتی قدروں کے لحاظ سے دیکھا جائے تو بہت سے کافر معاشرے ہم سے بہت آگے ہیں اور بجائے اس کے کہ ہم اس بات کی فکر کریں الٹا ہمارے ہاں دن بدن سماجی برائیاں بڑھتی جا رہی ہیں اور اس کا خمیازہ آئے روز بے گناہ افراد بھگتتے رہتے ہیں وطن عزیز پاکستان میں عدم برداشت تیزی سے پھل پھول رہی ہے۔ اس کے نتیجے میں آئے روز افسوسناک سانحے رونما ہوتے رہتے ہیں۔ میڈیا ایک آدھ دن عدم برداشت اور تشدد کے بدترین مظاہرے سے جنم لینے والے المناک سانحے کی خبر قارئین اور ناظرین تک پہنچاکر فرض پورا کرلیتا ہے تو متعلقہ ضلعی محکمے اور صوبائی حکومت کی جانب سے انصاف کے تقاضوں کو پورا کرنے میں کوئی کسر نہ اٹھارکھنے کے وعدے بھی کبھی شرمندہ تعبیر نہیں ہوتے ہیں اور لواحقین کو چند لاکھ یا ہزار دے کر خاموش رہنے پر مجبور کر دیا جاتا ہے، ویسے بھی ان کو اس نظام سے انصاف کی امید نہیں ہوتی اس لیے وہ خاموشی میں ہی بہتری سمجھتے ہیں۔ہرچند دن بعد کوئی نہ کوئی ایسا پرتشدد واقعہ ہوتا ہے جس میں بے گناہ انسان کی جان چلی جاتی ہے۔پاکستانی معاشرے میں چھوت کی یہ بیماری اس حد تک پھیل چکی ہے کہ اس کی علامات آپ کو جا بجا نظر آئیں گی کبھی سڑک پر تو کبھی گلی محلوں میں تو کبھی منبر پر تو کبھی درسگاہوں میں تو کبھی ایوانوں میں آپ دیکھ سکتے ہیں۔ماہرین کے خیال میں عدم برداشت دراصل ہمارے اندر چھپی ہوئی مایوسی سے جنم لیتا ہے اور یہ مایوسی ہمارے ناتمام ارادوں اور ناآسودہ خواہشات کا نتیجہ ہوتی ہے۔تعصب اور فرقہ واریت نے لوگوں کو انتہا پسند اور متشدد بنا دیا ہے۔ ہر فرقہ اور ہر گروہ خود کو حق پر سمجھتے ہوئے اپنا نظریہ منوانے کے لیے ہر طرح کے جارحانہ رویے اور تشدد کو جائز سمجھتا ہے۔کسی زمانے میں سیاسی لوگ ظاہری طور پر ہی اخلاقیات کا دامن نہیں چھوڑتے تھے پر اب ہر سیاست دان دوسرے کو جب تک گالی نہ دے اس کے سیاست دان ہونے پر شک کیا جاتا ہے، ایک بار خیبر پختونخوا کے ضلع مردان میں ایک شخص کے کتے نے دوسرے شخص کا پالتو پرندہ کھا لیا، پرندے کے مالک نے کتے کو فائرنگ کرکےمار دیا۔ فریقین کے درمیان تکرار ،ہاتھاپائی اور بعد میں فائرنگ ہوئی اور نیتجے میں تین افراد قتل اور پانچ زخمی ہوئے۔یہ واقعہ جولائی 2021ء میں پیش آیا تھا ،جو ملکی میڈیا میں رپورٹ بھی ہوا تھا۔ اس جیسے دسیوں واقعات روازنہ کی بنیاد پر میڈیا کی زینت بنتے رہتے ہیں۔کراچی پاکستان کا بڑا شہر اور معاشی حب ہے یہاں عدم برداشت کے واقعات کثرت سے رونما ہو رہے ہیں جس پر اہل دانش کو سنجیدگی کا مظاہرہ کرنا چاہیئے کیونکہ کوئی بھی ٹرینڈ ہو وہ اس شہر سے ہی شروع ہوتا ہے وہ چاہے پازیٹیو ہو یا پھر نیگیٹو، چند دن قبل کراچی کے ایک علاقے مچھر کالونی میں ایک موبائل کمپنی کے سگنلز چیک کرنے کے لئے کام کرنے والے دو ماہرین پر بچوں کے اغوا کا الزام لگایا گیا تو مقامی ہجوم کچھ سوچے سمجھے بغیر ان دو انجینئرز پر پل پڑا اور ان پر شدید تشدد کیا گیا اور وہ بے چارے اس معاشرے کی بے حسی کا رونا روتے ہوئے، مدد مدد پکارتے ہوئے اپنی جان سے ہار گئے۔
اس المناک سانحہ کی ابتدائی تحقیقات میں انکشاف ہوا ہے کہ وقوعہ والے علاقے کی ایک مسجد کے پیش امام نے متعلقہ موبائل کمپنی کو پہلے متعدد درخواستیں دلوائیں کہ ہمارے علاقے میں آپ کی کمپنی کا نیٹ ورک درست طور پر کام نہیں کررہا پھر اس امر کی تحریری خواہش ظاہر کی کہ موبائل کمپنی ان کے گھر کے ساتھ والے ان کے ملکیتی پلاٹ میں اپنا ٹاور نصب کرے تاکہ نیٹ ورک کے حوالے سے شکایات دور ہوں۔
ان درخواستوں کے بعد کیے گئے ابتدائی سروے کے بعد ماہرین نے کمپنی کو رپورٹ دی کہ نیٹ ورک کے درست کام نہ کرنے کے حوالے سے بھجوائی گئی درخواستوں میں غلط بیانی کی گئی ہے۔ ابتدائی سروے کے بعد جب دوبارہ شکایات آئیں تو متعلقہ کمپنی نے اپنے سینئر ماہرین کو صورتحال کے جائزے اور نیٹ ورک سروس کے سروے کے لئے اس علاقے میں دوبارہ بھیجا۔
کمپنی کے 2 سینیئر انجینئرز نے علاقے میں پہنچ کر ابھی چند مقامات پر ہی آلات نصب کئے تھے کہ مسجد سے اعلان ہوا کہ ایک مشکوک گاڑی میں سوار دو افراد بچوں کو اغوا کرنے کے لئے علاقے میں داخل ہوچکے ہیں۔ وقوعہ والے علاقے میں یہی دو افراد اور ان کی گاڑی اجنبی تھے۔ مسجد سے اعلان ہونے کے بعد لوگوں نے بغیر کسی تحقیق کے ان ملازمین پر ہلہ بول دیا اور ان کو کسی نے ڈنڈے مارے، تو کسی نے پتھر اور اینٹوں کے وار کیے، کسی نے لوہے کے راڈز کا آزادانہ استعمال کیا گیا، اس مجمعے میں کسی نے ان کو پولیس کے حوالے کرنے کی بات تک نہ کی اور ہر کسی نے اغواءکار سمجھتے ہوئے ان کو مارنے میں حصہ لیا اس وحشیانہ تشدد سے دونوں انجینئرز جاں بحق ہوگئے بعدازاں ہجوم نے ان کی گاڑی کو بھی آگ لگادی۔ کراچی پولیس کی اتنا جرآت نہ ہوئی کہ اس دوران ان بے چارے انجینئرز کو ریسکیو کرنے کی کوشش کرتی اس دلخراش واقعہ کا نوٹس لیتے ہوئے سندھ ہائیکورٹ کے چیف جسٹس نے آئی جی سندھ اور ڈی آئی جی ساؤتھ کراچی کو طلب کیا ۔ عدالت عالیہ کے علم میں لایاگیا کہ مشتعل ہجوم نے ابتداً مقتولین کو ڈکیت اور بعدازاں بچوں کا اغواکار بتایا جبکہ دونوں بیانات کے حق میں کوئی ثبوت پیش نہیں کیا گیا عدالت کو یہ بھی بتایا گیا کہ ہجوم جمع کرنے کے لئے اعلان مسجد کے لاؤڈ سپیکر سے ہوا تھا۔ اعلان کرنے کی حقیقی وجوہات اور دیگر شواہد بھی عدالت میں پیش کئے گئے۔
مچھر کالونی کراچی کا یہ سانحہ محض غلط فہمی کا نتیجہ نہیں بلکہ ایک شقی القلب شخص نے موبائل ٹاور اپنے پلاٹ میں لگوانے کی کوششوں میں ناکامی پر سوچے سمجھے منصوبے کے تحت اہل علاقہ کو پرتشدد کارروائی کے لئے اکساکر 2 اعلیٰ تعلیم یافتہ انسانوں کی جان لے لی۔اس المناک سانحہ کا پس منظر اور مسجد سے جھوٹا اعلان کرنے والے پیش امام کے مذموم مقصد کے سامنے آنے کے بعد یہ اندازہ لگانا چنداں مشکل نہیں کہ سماجی رویوں اور روزمرہ معاملات کے حوالے سے من حیث القوم ہم کہاں کھڑے ہیں۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ اپنی نوعیت کا یہ پہلا واقعہ ہرگز نہیں ہے۔ پچھلے دو ماہ (ستمبر اور اکتوبر) کے دوران صرف کراچی میں ہجوم کے تشدد سے 7 افراد جاں بحق ہوئے۔ ملک کے دوسرے بعض شہروں میں اس نوعیت کے 150واقعات رپورٹ ہوچکے ہیں ان میں چند میں مضروب یا جاں بحق ہونے والوں پر توہین مقدسات کا الزام لگاکر تشدد کیا گیا تھا چند پر چوری کا اور بعض پر بچوں کے اغوا کا۔
بدقسمتی سے عدم برداشت کے خاتمے کے لئے سیاسی و سماجی کارکنوں نے نہ صرف اپنا فرض ادا نہیں کیا بلکہ حکومت اور انتظامیہ بھی ادائیگی فرض سے غافل رہی ہے۔توہین مقدسات اور دوسرے الزامات کے تحت لوگوں کو اکساکر کسی ناپسندیدہ شخص یا مخالف کو تشدد کا نشانہ بنوانے کے واقعات عام ہوتے جارہے ہیں۔
کچھ عرصہ قبل سیالکوٹ میں ایک سری لنکن انجینئر کو توہین مذہب کا مرتکب قرار دے کر ہجوم نے قتل کیا تھا پھر اس کی لاش کو بے دردی سے جلا بھی دیا تھا اس سانحہ کے بعد وفاقی حکومت نے اعلان کیا تھا کہ اس بات کو یقینی بنایا جائے گا کہ کسی پرتشدد واقعہ کے ذمہ داران اور الزام لگانے والوں سے کوئی رعایت نہ برتی جائے ۔ اس وعدے کا کیا ہوا؟ یہ سوال آج پوچھنا بظاہر اس لئے درست نہیں ہوگا کہ اب وہ حکومت نہیں رہی لیکن ملک کا قانون تو تبدیل نہیں ہوا، اب آخر کیوں نہیں قانون اپنی طاقت منواتا ؟
اور کیا وجہ ہے کہ سیاسی و سماجی کارکن و رہنما اس حقیقت کا ادراک کیوں نہیں کرتے کہ معاشرے میں بڑھتے ہوئے عدم برداشت کے رجحان اور تشدد کے خاتمے کے لئے انہیں میدان عمل میں اتر کر عام شہریوں کو یہ باور کرانا چاہیے کہ جھوٹی سچی اطلاع پر پُرتشدد کارروائی کا کوئی اخلاقی جواز ہے نہ ہی اسلام اور ملکی قانون اس کی اجازت دیتے ہیں ۔
کراچی کے حالیہ سانحہ کا سندھ ہائیکورٹ نے ازخود نوٹس لیا تو حقائق ذرائغ ابلاغ اور عوام کے سامنے آئے۔ ہمارے خیال میں متاثرہ خاندانوں کا یہ مطالبہ بجا طور پر درست ہے کہ مسجد سے جھوٹا اعلان کرکے لوگوں کو تشدد پر اکسانے والے شخص کے خلاف انسداد دہشت گردی کے قانون کے تحت کارروائی ہونی چاہیے۔ اسی طرح اہل اقتدار اور سماجی رہنمائوں کو بھی چاہیے کہ پرتشدد واقعات کی روک تھام کے لئے اپنا اپنا کردار ادا کریں۔ اگر ایسا نہ کیا گیا تو یہ آگ بڑھتی جائے گی اور ایک دن ہم بھی اس کا ایندھن بن جائیں گے، معاشرے ایسے ترقی نہیں کرتے بلکہ ترقی کرنے کے لیے کچھ اخلاقی اقدار کو اپنانے کی ضرورت ہوتی ہے اور سماجی برائیوں سے اجتناب کرنے کی ضرورت ہوتی ہے جبکہ ہمارے معاشرے میں ایسا کچھ نہیں ہو رہا الٹا ہم عدم برداشت جیسی برائیوں کی دلدل میں مزید دھنستے چلے جا رہے ہیں اس دلدل سے ہمیں کوئی اور نہیں بلکہ خود ہی نکلنا ہوگا اور خود ہی سماجی برائیوں کے خاتمے کے لیے میدان عمل میں نکلنا ہوگا والدین اور اساتذہ کے ساتھ ساتھ حکومت کی بھی ذمہ داری ہے کہ اس ناسور کے خاتمے کے لیے سنجیدہ کوششیں کی جائیں۔
=======================