کیا جامعہ کراچی میں ڈائریکٹر فنانس طارق کلیم کے ساتھ ایسا ہی ہونا چاہیے تھا ؟ ڈی جی پرائیویٹ اسکولز سلمان رضا کو کس کے دباؤ پر عہدے سے ہٹایا گیا ؟ انتظامی جھگڑے ختم ہوجائیں تو طلباء کی پریشانیوں اور مسائل پر بھی تھوڑی توجہ دی جائے ۔ طلباء اور والدین کا موقف ۔

کیا جامعہ کراچی میں ڈائریکٹر فنانس طارق کلیم کے ساتھ ایسا ہی ہونا چاہیے تھا ؟ ڈی جی پرائیویٹ اسکولز سلمان رضا کو کس کے دباؤ پر عہدے سے ہٹایا گیا ؟ انتظامی جھگڑے ختم ہوجائیں تو طلباء کی پریشانیوں اور مسائل پر بھی تھوڑی توجہ دی جائے ۔ طلباء اور والدین کا موقف ۔
======================

مدت پوری، دفتر کیوں آئے، ملازمین نے طارق کلیم کو نکال دیا

کراچی- جامعہ کراچی کے ڈائریکٹر فنانس طارق کلیم کو جامعہ کراچی کے ملازمین نے زبردستی دفتر سےباہر نکال دیا بتایا جاتا ہے کہ ڈائریکٹر فنانس طارق کلیم نے اپنی مدت ختم ہونے کے بعد زبانی احکامات پر ڈائریکٹر فنانس کا دفتر کھلوا کر کے کام شروع کردیا تاہم جامعہ کراچی کے افسران اور ملازمین بڑی تعداد میں دفتر پہنچ گئےاور طارق کلیم کو دفتر سے زبردستی باہر نکال دیا اور ان کے خلاف نعرے لگائے ملازمین کا کہنا تھا کہ جب ڈی ایف کی مدت 6اکتوبر کو ختم ہوچکی ہے اور وزیر اعلی سندھ نے ان کی مدت میں توسیع بھی نہیں کی ہے اور نئی بھرتیوں کا اشتہار بھی آچکا ہے تو بغیر نوٹیفکیشن کے طارق کلیم کیسے کام کرسکتے ہیں۔ ملازمین کا کہنا تھا اس سے قبل شہید بینظیر چیئر پر ایسے شخص کو سربراہ لگایا گیا جو پی ایچ ڈی بھی نہیں اور جس کا ایک تحقیقی مضمون بھی کہیں نہیں شائع نہیں ہوا اسی طرح درجنوں بھرتیاں ہوئیں مگر کوئی ایکشن نہیں ہوا۔
https://e.jang.com.pk/detail/267783
============================

ڈی جی پرائیویٹ اسکولز سلمان رضا کو عہدے سے ہٹا دیا گیا

کراچی( اسٹاف رپورٹر) نجی اسکولوں کی ایسوسی ایشنز کا احتجاج رنگ لے آیا اور وزیر تعلیم سردار شاہ کی ہدایت پر چیف سیکریٹری سندھ نے ڈی جی پرائیویٹ اسکولز پروفیسر سلمان رضا کو عہدے سے ہٹا دیا ہے انھیں محکمہ کالج ایجوکیشن میں رپورٹ کرانے کی ہدایت کی گئی ہے یاد رہے کہ نجی اسکولوں کی ایسوسی ایشنز کو پروفیسر سلمان رضا کے بیانات اور اقدامات پر اعتراضات تھے انھوں پریس کانفرنس میں سلمان رضا کو ہٹانے کا مطالبہ بھی کیا تھا اور وزیر تعلیم سے ملاقات میں ان کے رویئے کی شکایت بھی کی تھی۔
https://e.jang.com.pk/detail/267784


================================
ملک بھر کے ہزاروں طلباء گزشتہ دوبرس سے ایم اے کے امتحانات کے منتظر ہیں مگر جامعات اب یہ امتحانات لینے کیلئے تیار نہیں ہیں۔ایم اے پرائیویٹ کی بندش سے ہزاروں طلباء پریشان ہیں تاہم چیئرمین ایچ ای سی ڈاکٹر مختار کا کہنا ہے کہ پچھلی انتظامیہ نے عجلت میں پروگرامز ختم کئے ، نظر ثانی کافیصلہ کیا ہے ۔ یہ امتحانات ہائرایجوکیشن کمیشن کے سابق چیئرمین ڈاکٹر طارق بنوری کے دور میں ختم کردیئے گئے تھے جبکہ بی کام، بی اے اور بی ایس سی پروگرام ختم کرکے جامعات اور کالجوں میں ایسوی ایٹ ڈگری پروگرام متعارف کرایا گیا تھا اور پرائیویٹ امیدواروں کے لیے بھی ایسوسی ایٹ ڈگری پروگرام شروع ہوا لیکن ایم اے کی جگہ کوئی پروگرام متعارف نہیں ہوا تھا۔ جامعہ کراچی اور جامعہ سندھ سے ہرسال بی اے اور بی کام کرنے والے ہزاروں طلبہ اپنی تعلیمی قابلیت بڑھانے اور ملازمتوں کے حصول کے لیے ایم اے اور ایم کام پرائیویٹ کیا کرتے تھے تاہم ریگولر طلبہ کے لیے تو ایم اے، ایم کام اور ایم ایس سی کی جگہ چار سالہ بی ایس پروگرام متعارف کرادیا گیا لیکن پرائیویٹ طلبہ کی ایم اے اور ایم کام کے متبادل طور پر امتحانات کا نظام وضع ہی نہیں کیا گیا۔ اس وقت ملک بھر میں ہزاروں پرائیویٹ طلبہ ایم اے کے امتحانات کے منتظر ہیں۔ جامعہ کراچی کے ناظم امتحانات ڈاکٹر ظفر نے جنگ کو بتایاکہ ہر مہینے ہزاروں طلبہ ہم سے ایم اے پرائیویٹ کے امتحانات کی تاریخ کا معلوم کرتے ہیں لیکن ہم اس بارے میں انہیں میں کچھ بتانے سے قاصر ہوتے ہیں کیونکہ ریگولر طلبہ کے لیے ماسٹرز کے مساوی چار سالہ بی ایس پروگرام جامعات اور کچھ کالجوں میں شروع ہوچکا ہے تاہم ڈگری کالجوں میں چار سالہ بی ایس پروگرام کے لیے گنجائش ہی نہیں ہے اور نہ ہی مطلوبہ تعداد میں اساتذہ ہیں اس کے علاوہ طلبہ ایسوسی ایٹ ڈگری پروگرام کا مستقبل غیر واضح ہونے کی وجہ سے پریشان ہیں کہ وہ آگے کیا کریں گے جس کی وجہ سے ایسوسی ایٹ ڈگری پروگرام کی رجسٹریشن کم ہوگئی ہے۔ انہوں نے بتایاکہ ایسوسی ایٹ ڈگری جو بی اے، بی کام کے مساوی ہے اسے امیدوار پرائیویٹ بھی دے رہے ہیں تاہم ایم اے کی سطح پر ان کے لیے کوئی پرائیویٹ امتحان نہیں اور وہ بند گلی میں داخل ہوچکے ہیں انہوں نے کہاکہ پہلے بی کام پرائیوٹ میں25؍ ہزار اور بی اے پرائیویٹ میں 15ہزار امیدوار ہوتے تھے لیکن اب ایسوسی ایٹ ڈگری ہونے کی وجہ سے ان کی تعداد نصف سے بھی کم ہوگئی ہے۔ ہائر ایجوکیشن کمیشن کے چیئرمین ڈاکٹر مختار نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پچھلی انتظامیہ نے ورکنگ کے بغیر عجلت میں بی کام، بی اے اور بی ایس سی پروگرام ختم کرکے ایسوی ایٹ ڈگری پروگرام متعارف کرادیا تھا جبکہ پرائیوٹ ماسٹرز کرنے والوں کو نظر انداز کردیا تھا جس سے آنے والے وقتوں میں مسائل پیدا ہوں گے چنانچہ ہم نے مسائل کا ادراک کرتے ہوئے انڈر گریجویٹ اور گریجویٹ پروگرامز پر نظرثانی شروع کر دی گئی ہے تا کہ ورکنگ کلاس امیدواروں کو پرائیویٹ ماسٹرز کا متبادل نظام مل سکے۔
https://e.jang.com.pk/detail/267777
==================================================
اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور اور دِلّی کی فتح
—-
گل نو خیز اختر
—–
بہاولپور کا شمار پاکستان کے اُن پرسکون اور محبت بھرے شہروں میں ہوتا ہے جہاں کی میٹھی سرائیکی اور میٹھے لوگ کبھی نہیں بھلائے جاسکتے۔ یہ فنکاروں، تخلیق کاروں اور ہنرمندوں کا شہر ہے۔ اس کی نوابی اہمیت اپنی جگہ لیکن یہ آج بھی علم و ادب اور ثقافت کے رنگوں میںرنگا ہوا ہے۔ یہاں کی اسلامیہ یونیورسٹی ملک کی ممتاز یونیورسٹیز میں شمار ہوتی ہے اور اسے اِس مقام تک لانے میں وائس چانسلر انجینئر ڈاکٹر اطہر محبوب کا بہت بڑا کردار ہے۔ میری ڈاکٹر صاحب سے چند ملاقاتیں ہیں لیکن ان کی علمیت اور نرم خو طبیعت کا حصار ایسا ہے کہ کبھی کبھی میں سوچ میں پڑ جاتا ہوں کہ ایسی باکمال شخصیت سے ملاقات میں اتنی تاخیر کیوں ہوئی۔علم کا ایک سمندر ہے جو اُن کے اندر موجزن ہے۔ اٹھتے بیٹھتے ان کی ایک ہی خواہش ہے کہ ملک ترقی کرے، طلبا کو تعلیم کے اچھے سے اچھے مواقع فراہم کیے جائیں اور یونیورسٹیز کی فضا میں تحقیق اور مکالمے کی فضا کو فروغ دیا جائے۔ اس مقصد کے لیے یہ دیگر سرگرمیوں کے ساتھ ساتھ اسلامیہ یونیورسٹی میں مختلف موضوعات پر سیمینارز کا انعقاد بھی کرتے رہتے ہیں۔ اس بار انہوں نے یہ ذمہ داری ڈاکٹر جام سجاد کو سونپی اور پاکستان کو درپیش معاشی اور سماجی مسائل کے حوالے سے سیمینار کا انعقاد کیا۔ جام سجاد میرے پرانے دوست بھی ہیں اور بذات خود بہت شاندار شخصیت کے مالک ہیں۔حس ِ مزاح کمال کی پائی ہے اورجس محفل میں بیٹھتے ہیں اسے کشت ِ زعفران بنا دیتے ہیں۔ لاہور سے دس پندرہ شخصیات کا بہاولپور جانا، ایک رات قیام کرنا، یونیورسٹی کا وزٹ اور پھر سیمینار میں شرکت، یہ جوئے شیر کوئی آسان کام نہیں۔ جام سجاد نے دو ماہ پہلے سے اس کی تیاری شروع کر دی تھی اور جتنا انہوں نے خود اس کام کو سر پر سوار کیا اتنا ہی میرا بھی جینا حرام کیے رکھا۔ بعض اوقات تو دن میں دس دفعہ ان کی کال یا میسجز آتے رہے۔اصل میں کام کرنے کا یہی طریقہ ہے کہ اس کے ساتھ جڑ ا جائے۔ جام سجاد نے پہلے شخصیات کی لسٹ فائنل کی، پھر سب سے رابطہ کیا، سب کو کنفرم کیا اور پھر ایسا پروگرام ترتیب دیا کہ جو احباب ہمارے ساتھ بہاولپور گئے تھے وہ پھر بہاولپور کے ہی گن گاتے ہوئے واپس آئے۔ اسلامیہ یونیورسٹی کی پرشکوہ عمارت دوحصوں پر مشتمل ہے، ایک اولڈ کیمپس کہلاتا ہے اور دوسرا نیوکیمپس یا بغداد کیمپس۔ دونوں کیمپس دیکھنے سے تعلق رکھتے ہیں۔ میری یہاں مالی، چوکیداروں اور کچھ ایسے اسٹاف کے لوگوں سے ملاقات ہوئی جن کا بظاہر یونیورسٹی کی تعلیمی سرگرمیوں سے براہ راست تعلق نہیں اس کے باوجود یہ لوگ بھی معترف نظر آئے کہ اسلامیہ یونیورسٹی ایسی کبھی نہیں تھی جیسی آج ہے۔ مجھے خود بھی یاد ہے بہت عرصہ پہلے غالباً 1989میں مجھے اسلامیہ یونیورسٹی آنے کا موقع ملا تھا، تب میں اباجی کے ساتھ یہاں آیا تھا اور اولڈ کیمپس تک جانے کیلئے ہم سائیکل رکشہ میں سوار ہوکر آئے تھے۔ بہاولپور کی نئی نسل شاید اس بات سے بے خبر ہو کہ یہاں ایک عرصہ تک سائیکل رکشہ چلتا رہا ہے۔ لیکن آج کا بہاولپور بہت مختلف ہے۔یہاں گاڑیاں ہیں، برینڈز ہیں، خوبصورت سڑکیں ہیں، باغات ہیں اور نور محل سمیت دیگر نوابین کے محلات ہیں۔لاہور سے مرشد یاسر پیرزادہ، اوریا مقبول جان، اشرف شریف، رضوان رضی، عباس تابش، فرخ شہباز وڑائچ، نعیم مسعود اور خاکسار جبکہ ملتان سے برادرم سجاد جہانیہ اور نسیم شاہد پہنچے۔ یارِ غار رانا ممتاز رسول ملتان سے اپنی سب مصروفیات پس پشت ڈال کر محض دوستوں کی محبت میں یونیورسٹی پہنچے اور ہمیشہ کی طرح دل جیت لیا۔ یونیورسٹی کی ٹیم نے جس انداز سے مہمانوں کو ویلکم کیا اس نے سفر کی ساری تھکن اتار دی۔ پہلی رات صوفی نائٹ کا اہتمام کیا گیاتھا جس میں طلباء نے ایسی شاندار آوازمیںپرفارمنس دی کہ ایک لمحے کو بھول گیا کہ یہ ابھی اسٹوڈنٹس ہیں۔ یوں لگ رہا تھا جیسے انتہائی پروفیشنل سنگرز اپنے فن کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔ یہاں ڈی پی او بہاولپور عبادت نثار بھی موجود تھے۔ نہایت ینگ اور ہنستی مسکراتی شخصیت ہیں اور بہاولپور کو جرائم سے پاک رکھنے میں دن رات کوشاں ہیں۔ اگلے روز نیو کیمپس میں ڈاکٹر اطہر محبوب صاحب کی طرف سے ایک بریفنگ کا اہتمام کیا گیا تھا جس میں تفصیل سے یونیورسٹی کی سرگرمیاں اور مستقبل کے پلان بتائے گئے۔ ڈاکٹر صاحب نے بتایا کہ یونیورسٹی میں داخلے کے وقت جو طلبا و طالبات منتخب ہوتے ہیں ان میں سے کئی معاشی مسائل کی وجہ سے فیس ادا نہیں کر پاتے ۔ایسے میں یونیورسٹی ان سے رابطہ کرتی ہے اور اُنہیں آمادہ کرتی ہے کہ آپ تعلیم نہ چھوڑیں ، فیس ہم ادا کریں گے۔ یونیورسٹی کا سیمینار ہال ہمیشہ کی طرح حاضرین سے بھرا ہوا ملا، اور حاضرین بھی جیتے جاگتے جو مکمل توجہ اور انہماک سے مقررین کو سنتے اور برداشت کرتے رہے۔عام طور پر ایسے سیمینارز میںوائس چانسلرز کچھ وقت کے لیے بیٹھتے ہیں اور پھر نکل جاتے ہیں لیکن ڈاکٹر اطہر محبوب شروع سے آخر تک نہ صرف موجود رہے بلکہ اختتامی کلمات میں تفصیلی طور پر یونیورسٹی کی سرگرمیوں اور آئندہ کے لائحہ عمل کا بتایا۔ شام کے وقت ہمیں نورمحل لے جایا گیا جہاں تھری ڈی لائٹس کے ذریعے انتہائی خوبصورت انداز میں نور محل کی تاریخ پر مبنی ڈاکیومنٹری پیش کی گئی۔بہاولپور نوابوں کے ساتھ ساتھ خوابوں کا بھی شہر ہے۔ یہاں کے لوگ خواب دیکھتے ہیں اور پھر اس کی تعبیر کیلئے جدو جہد کرتے ہیں۔آپ یہاں آئیں تو اسلامیہ یونیورسٹی کا ایک وزٹ بھی ضرور کریں۔ یہاں ہر وہ جدید تعلیم دی جارہی ہے جو شاید ابھی بڑے شہروں کی یونیورسٹیز تک بھی نہیں پہنچی۔اتنا شاندار ایونٹ منعقد کرانے پر ڈاکٹر اطہر محبوب، اسلامیہ یونیورسٹی کی انتظامیہ اور خصوصاً جام سجاد کا شکریہ جنہوں نے دِ لّی فتح کردکھایا۔
https://e.jang.com.pk/detail/267573
=========================================================