پنجاب اور کے پی کی حکومتیں عجب تماشا بنی ہوئی ہیں


کشور ناہید
===========
طالبان کو افغانستان پر قبضہ کیے سوا سال ہو رہا ہے۔ وہ سب سے زیادہ لڑکیوں اور عورتوں پر ظلم، لڑکیوں کے تعلیمی اداروں کوبند اور دوچار روشن خیال خواتین و حضرات اگررہ گئے ہیں توان کو کہیں گھر میں گھس کر اور کہیں اور مار ڈالتےہیں،ساری دنیا کے ممالک خاموشی سے یہ منظر دیکھ رہے ہیں۔ ہمارے کئی علما کہ جن کے وہ شاگرد بھی رہے ہیں، حکومت پاکستان نےطالبان کو سمجھانے کے لیے وفد بھیجا مگر لاحاصل۔حال ہی میں منشیات کا بادشاہ رہا ہو کرافغانستان پہنچا تو اس کا باقاعدہ استقبال کیا گیا۔
دوسری جانب ساری دنیا میں پاکستان نےاخوت کو پیش نظررکھتے ہوئے ہزاروں افغانیوں کو پاکستانی شناختی کارڈ جاری کیے مگر کرکٹ میچ میں وہی افغان نوجوان، پاکستانیوں کو کرسیاں اٹھا اٹھا کر مار رہے تھے۔ صرف سوات میں ہی نہیں، وزیرستان اور گلگت بلتستان کے علاقوں میں بھی بارودی مواد عام استعمال ہو رہا ہے اور ہمارے نوجوان فوجی کفن میں لپٹے واپس آرہے ہیں۔
سیلاب میں پاکستانی فوجی جوانوں سے لےکر حتی المقدور رضا کارانہ کام کرنے والوں کی خدمات سراہی جائیں مگر قدرت کی ناراضی ابھی ختم نہیں ہوئی۔ مچھر اور پھر ڈینگی مچھر کا علاج کرنےکو بحریہ اور فوجی ڈاکٹرز ہیں مگر اکتوبر سر پر ہے اور سورج کا غصہ کم ہی نہیں ہو رہا ۔ اب بھی لاکھوں لوگوں تک رسائی اس لئے نہیں ہو سکی کہ سارے زمینی راستےبند ہو گئے ہیں۔ اس کھڑے پانی میں شلواریں اوپرکر کے، بچے اسکول جانے کی ہمت کر رہے ہیں۔ تحسین ان عورتوں پر جو خود اپنے کچے گھروں کو اپنے آپ لیپ کر کے رہنے کے قابل بنانے کی کوشش کر رہی ہیں اور وہ مائیں جو بچوں کو اسکول میں کھڑے پانی میں اس لیے بھیج رہی ہیں کہ پہلے دو سال کورونا نے اسکول بند رکھے۔ محکمۂ تعلیم نے رعایتاً سب بچوں کو پاس کر دیا مگر ایسے لائق بچوں کو آگے کہاں داخلہ ملے گا۔ پہلے ہی سندھ میں کتاب کھول کر امتحان دینے کی آزادی تھی، اب تو تعلیم کا بحران اور اس میں بھی نصاب کا تنازعہ کیا رنگ دکھائے گا؟
ایک تجزیہ یہ کیا گیا ہے کہ میڑک پاس بچوں کو تو چپڑاسی کی نوکری بھی نہیں ملتی۔ والدین اور وہ بھی راج مزدور یا بجلی ٹھیک کرنے اور گاڑیاں مرمت کرنےوالے مردوں نے اپنے بچوں کو کام سکھانے کے لیے سکول چھڑوا دیاتاکہ وہ اس قابل بنیں کہ اپنی ورکشاپ بنا سکیں۔ بہت حد تک شہروں میں بھی یہی رواج فروغ پا رہا ہے۔ اسی لیے ہم کہہ رہے ہیں کہ مدرسوں کا نصاب ہو کہ اسکول، کا لج کا نصاب، اس میں جب تک ہر کلاس میں کوئی ہنر سکھانے کی کوشش اور نصاب میں تبدیلی نہیں کی جائے گی، تو بے روزگاری کا مسئلہ حل نہیں ہوگا۔آج سے بیس برس پہلے تک ٹریکٹر سے لے کر بجلی کا معمولی سا کام کرنے کے لئے بھی شہر سے کاریگر بلائے جاتے تھے۔ ہم لوگوں نے اپنے زمانے میں دیہات میں لڑکیوں کو بھی فیوز لگانا سکھایا تھا۔ ہم نے جوکام سکھا کر جہاں چھوڑا تھا ۔ اس کے بعد سرکار کو این جی او زیکدم بری لگنے لگیں۔ شاید اس لیے بھی کہ نوجوان لڑکے لڑکیاں سوال کرنے لگے تھے۔ کھیتوں میں تو بےزبان عورتیں اور مرد، مٹر، بھنڈیاں اور ساری سبزیاں، ساگ توڑنے کے لئے دن بھر کے کام کےعوض جو ٹھیکیدار دیتا تھا وہ چپ کر کے قبول کر لیتے تھے۔ مگر اب دھان کی پنیری لگانی ہو کہ کپاس چننی ہو تو پہلے پیسے طے تو نہیں کر سکتیں مگر پوچھ کر کام شروع کر دیتی ہیں۔
افغانستان کی طرح ایران میں بھی ملٹی نیشنل کمپنیوں کو کام کرنے کی اجازت اس لیے ہے کہ وہ فنڈز لےکر آتی اور خرچ کرتی ہیں۔ ایران میں تمام تر حجابی پابندیوں کے باوجود خواتین ہر شعبے میں کام کرتی ہیں۔ اس بات کو بھی دنیا سرا ہتی ہے کہ ایرانی فلمیں کئی دفعہ اول انعام حاصل کر لیتی ہیں البتہ مقامی پولیس نے حجاب کی آڑ میں جس طرح خاتون کو تشدد کرکے مار ڈالا، اس پر ایران کے علاوہ دنیا بھر کی عورتیں احتجاج کر رہی ہیں۔ اپنے اسکارف جلا رہی ہیں۔ ادیبوں میں رولنگ اور ایلف شفق نے بھی احتجاج کیا ہے۔ اسی طرح خواجہ سرائوں کے قانون کو اسلامی کونسل زبردستی رگید رہی ہے۔ خوفناک فرقہ وارانہ تفاوت بجائے کم ہونے کے روز بروز بڑھ رہا ہے۔ قطر میں مسلسل مذاکرات ہوتے رہے ہیںمگر کوئی پیش رفت نہیں ہوئی۔ جسٹس فائز عیسیٰ نے بڑی دانشمندی سے پوچھا ہے کہ طالبان سے مذاکرات کا کیا مطلب ہے اور کس لیے؟اب پچھلے ایک ہفتے میں سو یا ہوا شیر جاگ اٹھا ہے۔ دوسری طرف حقیقی آزادی کا نعرہ لوگوں کو گمراہ کر رہا ہے۔ شیر کے جاگنے کے بعد، وہ ریفرنسز جو روز شنوائی ہونے کے بعد بھی کسی انجام کو نہیں پہنچ رہے تھے۔ ان کی واپسی کا قانون قومی اسمبلی نے اچانک پاس کر دیا ہے اور یوں حاتم طائی کی فلم آخری سین تک پہنچ رہی ہے۔ آنکھیں کھول کر دیکھو تو ڈالر، پاکستانی روپے کو کھائے جا رہا ہے۔ مت سوچیں یہ بھی ریفرنسز کی طرح کسی منصوبہ بندی سے ہو رہا ہے۔ بس اتنا ہے کہ روز قیمتیں آسمان سے باتیں کر رہی ہیں۔ ممکن ہے کہ کل کلاں پنساری بھی روپے کی بجائے ڈالر مانگے۔
اس طرزِ معیشت کے باعث، پاکستان میں متوسط طبقہ ختم ہو کر بس دو طبقے رہ گئے ہیں۔ اپر کلاس اور نچلا طبقہ کہ جس گھر میں روز کا آٹا ہی پانچ سو روپے کا خرچ ہو جائے، وہاں خالی ہاتھ گھروں کو لوٹتے لوگ گھر میں کون سی سبزی لاسکیں گے۔ قومی سطح پر جتنے ادارے بھٹو صاحب کے زمانے میں قائم کیےگئے تھے۔ ان میں سے آدھے سےزیادہ تو پہلے ہی عملے کی نالائقی اور بے توجہی کے باعث بند کر دئیے گئےہیں، اور جو ادارے رہ گئے ہیں، ان کی بلڈنگیں کھٹک رہی ہیں ۔ وہ بھی گروی رکھ دی جائیں گی۔ سبب بتائیں گے کہ کارکردگی نہیں ہے جب کہ بجٹ نہ ہونے سے کوئی کام ہی نہیں ہو رہا۔ پنجاب اور کے پی کی حکومتیں عجب تماشا بنی ہوئی ہیں۔ ابھی کہا گیا ہے کہ دسمبر تک پانی اترے گا تو پھر ڈونرز کانفرنس کی جائے گی، ان تین ماہ میں تین کروڑ لوگ بے گھری اور بے روز گاری سے کیسے نمٹیں گے؟ حکومت کو تین ماہ کا سیلابی سپلیمنٹری بجٹ بنا نا پڑ گیا، فکر کی بات نہیں ڈار صاحب جادو گر کی طرح واپس آچکے ہیں۔ شاید ان کروڑوں لوگوں کی تعلیم اور روزی کا وسیلہ بن سکیں۔ اب تک جو نظام چلایا گیا، وہ آخری دم پہ آچکا ہے۔ اب پاکستان کے معاشی غبارے میں ہوا بھرنےکو نظام کہن بدلنا پڑے گا۔
https://e.jang.com.pk/detail/251420