انسانی زاویہ


ڈاکٹر توصیف احمد خان
================

ٹرانس جینڈر پاکستان کی مظلوم ترین کمیونٹی ہے جس کے حقیقی نام کا ابھی تعین ہی نہیں ہوا۔ مختلف زبانوں میں ٹرانس جینڈر کو مختلف ناموں سے پکارا جاتا ہے۔ پاکستان میں انتہاپسندی اور جنونیت بڑھنے کے ساتھ ٹرانس جینڈر کے قتل کی وارداتوں میں خاصا اضافہ ہوا ہے۔

خصوصاً خیبر پختون خوا اور سابقہ فاٹا میں ٹرانس جینڈر روز قتل ہورہے ہیں۔ انٹرنیٹ پر دستیاب اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں ٹرانس جینڈر کی آبادی 10418 ہے۔ خیبر پختون خوا میں 8.3 فیصد ٹرانس جینڈر آباد ہیں۔

اس رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ پنجاب میں ٹرانس جینڈر کی آبادی 64.34 اور سندھ میں 24 فیصد افراد آباد ہیں۔ پاکستان میں ٹرانس جینڈر کے بارے میں کوئی قانون موجود نہیں۔ سپریم کورٹ کے فیصلے کے مطابق ٹرانس جینڈر اور عام شہری کے درمیان سماجی امتیاز غیر قانونی ہے۔
ٹرانس جینڈر معاشرے میں ہمیشہ سے امتیازی سلوک کا شکار رہے ہیں۔ ان میں بیشتر ناخواندگی کا شکار ہیں اور غربت میں گھرے ہوئے ہیں۔ ٹرانس جینڈر اپنی ہی کمیونٹی میں رہ کر زندگی گزارتے ہیں۔ عموماً یہ لوگ بچہ کی پیدائش ، ختنہ اور شادی بیاہ کے موقع پر رقص و گیت گاکر روزگار حاصل کرتے ہیں۔ اب بڑے شہروں میں یہ سڑکوں پر بھیک مانگتے نظر آتے ہیں۔

یوں یہ ایک طرف پولیس کی چیرہ دستیوں کا شکار ہوتے ہیں تودوسری طرف کچھ لوگوں کی جنسی ہوس کا نشانہ بنتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ طویل عرصہ سے سول سوسائٹی اور انسانی حقوق کی تنظیمیں ٹرانس جینڈر کے بنیادی حقوق کے تحفظ کے لیے کوشاں تھیں۔

انسانی حقوق و مظلوم طبقات سے یکجہتی کا اظہار کرنے والی سینیٹر روبینہ خالد ، روبینہ عرفان ، کلثوم پروین اور خواجہ کریم نے 2018میں سینیٹ میں یہ مسودہ پیش کیا تھا جو منظور بھی ہوگیا مگر اب سینیٹ دوبارہ اس پر غور کررہا ہے۔ اس قانون کے تحت ٹرانس جینڈر کو نادرا سے قومی شناختی کارڈ حاصل کرنے کا حق حاصل ہوگا۔ ٹرانس جینڈر نادرا کا شناختی کارڈ حاصل نہ کرنے کی بنیاد پر تعلیم، صحت اور روزگار کے حق سے محروم تھے۔

اسی طرح نادرا آرڈیننس کے تحت ڈرائیونگ لائسنس بنانے کا حق بھی حاصل ہوگا۔ اب ان افراد کو قانونی طور پر روزگار کے نئے مواقع حاصل ہوںگے۔ شناختی کارڈ کی بناء پر پاسپورٹ کے حصول میں قانونی رکاوٹیں دور ہوں گی۔ اب حکومت کی یہ ذمے داری ہے کہ معاشرے میں ٹرانس جینڈر کو معاشرے میں شامل ہوکر ترقی کرنے کے اقدامات اٹھائے، ان کی جان و مال کا تحفظ یقینی بنائے، ان کے لیے بحالی مراکز بنائے، میڈیکل کی سہولت فراہم کرے۔

نفسیاتی علاج میں مدد سمیت تعلیمِ بالغان کا بندوبست کرے۔ ٹرانس جینڈر جو جرائم میں ملوث ہوں، ان کے لیے الگ جیل اور حوالات قائم کی جائیں۔ ٹرانس جینڈر کے لیے ووکیشنل ٹریننگ کے انتظامات کیے جائیں۔ اس قانون کی ایک اہم شق یہ ہے کہ ٹرانس جینڈر کو وراثتی جائیداد یا وراثت سے بے دخل نہیں کیا جاسکتا یا امتیازی سلوک نہیں کیا جاسکتا۔ وہ اپنے لیے شناختی کارڈ میں جو شناخت درج کرائیں گے۔

اس کے مطابق انھیں وراثت میں حصہ ملے گا۔ یہ ٹرانس جینڈر کسی تعلیمی یا پرائیویٹ تعلیمی ادارے کی باقی شرائط پور پورا اترتا ہے تو اس کو تعلیم کے حق سے محروم نہیں کیا جاسکتا یا اس ضمن میں امتیازی سلوک نہیں کیا جاسکتا۔ نہ ہی اسے تفریحی سہولیات یا کھیلوں میں شمولیت سے منع کیا جاسکتا ہے۔

ریاست پاکستان 1973کے آئین کے آرٹیکل 25-A کے مطابق ٹرانس جینڈر کو لازمی اور فری تعلیم کی ضمانت دینے اور سہولیات مہیا کرنے کے لیے اقدام کرے گی۔ آئین کے آرٹیکل 18 کے تحت یہ قانون جائز ذریعہ آمدنی، کاروبار یا نوکری کی ضمانت دیتا ہے۔

کوئی بھی ادارہ ٹرانس جینڈر ہونے کی بناء پر نوکری، ترقی، تقرری، تبادلہ یا متعلقہ معاملات پر امتیازی سلوک روا نہیں رکھ سکتا۔ اس قانون کی ایک اہم ترین شق ٹرانس جینڈر کے جمہوری حقوق کا تحفظ فراہم کرنا ہے۔ اب ٹرانس جینڈر شناختی کارڈ کے تحت کسی بھی انتخاب میں ووٹ ڈال سکتا ہے۔

اسی طرح کسی بھی عہدہ کے لیے انتخاب میں حصہ بھی لے سکتا ہے، یوں ٹرانس جینڈر کو بغیر کسی رکاوٹ کے بلدیاتی اداروں، صوبائی اسمبلیوں، قومی اسمبلی اور سینیٹ کا انتخاب لڑنے کا حق حاصل ہوگا۔

اب ٹرانس جینڈر وزیر اعظم اور صدر سمیت تمام عہدوں پر انتخابات میں حصہ لے سکتا ہے ، یوں ٹرانس جینڈر کی جب منتخب اداروں میں نمایندگی ہوگی تو ان کے حقوق کے لیے مواقع زیادہ بہتر ہونگے۔ اس قانون کے تحت حکومت کو مشورہ دیا گیا ہے کہ میڈیکل نصاب کا جائزہ لے اور ٹرانس جینڈر کے امراض کے لیے ریسرچ کی حوصلہ افزائی کرے۔

اسی طرح آئین کے آرٹیکل 16 کے تحت ٹرانس جینڈر کے ساتھ پبلک مقامات میں داخلہ اور سہولیات کے استعمال میں کسی بھی قسم کا جنسی یا صنفی امتیاز نہ کیا جائے اور اس شق کے ذریعہ ٹرانس جینڈر کو جائیداد کی خرید و فروخت ، ریپئرنگ یا کرایہ کے حصول کے لیے بوجوہ جنس صنف کی بنیاد پر روکا نہیں جاسکتا۔ سپریم کورٹ آف پاکستان نے 2009 میں ایک رولنگ پاس کی تھی کہ خواجہ سراؤں کو ان کے بنیادی حقوق سے کوئی قانون محروم نہیں رکھ سکتا۔

پاکستان کے آئین کے آرٹیکل 26 اور 27 کی شق نمبر ایک کے تحت تمام شہری قانون کی نظر میں مساوی ہیں۔ آرٹیکل 19آزادئ رائے کی آزادی ہر شہری کو دیتا ہے لیکن پھر بھی ٹرانس جینڈر کو امتیازی سلوک کا نشانہ بنایا جاتا ہے اور مظالم ڈھائے جاتے ہیں۔ بل کا آخری پیراگراف یوں ہے کہ یہ بل اسے شناخت کا حق / حقوق دیتا ہے، جو وہ خود کو کہتا یا مانتا ہے اسے وہی شناخت دینے کی ضمانت دیتا ہے۔

کوئی ادارہ اسے نوکری، ترقی، تعلیم یا دیگر معاملات میں امتیازی سلوک کا نشانہ نہ بنائے۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ ان کی فلاح کے لیے اقدامات کرے۔ یہ بل مندرجہ بالا گزارشات کے حصول کے لیے ہے۔

مہذب دنیا میں ٹرانس جینڈر کا مسئلہ نہیں رہا۔ اب تعلیم یافتہ ٹرانس جینڈر استاد، ڈاکٹر، پروفیسر اور حتیٰ کہ وائس چانسلر کے عہدوں پر بھی فائز نظر آتے ہیں۔ بھارت میں ٹرانس جینڈر میں معرکتہ الآراء فلمیں بنی ہیں۔ پاکستان میں بھی تبدیلی رونما ہورہی ہے اور ان میں تعلیم حاصل کرنے کا شوق پیدا ہورہا ہے۔

کراچی کے ٹرانس جینڈر نشاء راؤ نے وکالت کا پیشہ اختیار کیا۔ وہ انسانی حقوق اور ٹرانس جینڈر کے مسائل پر کام کررہی ہے۔ ایک اور ٹرانس جینڈر بندیا رانا این جی او سیکٹر میں متحرک ہیں۔ ایک ٹرانس جینڈر سارا گل نے گزشتہ سال ایک سرکاری میڈیکل کالج سے ایم بی بی ایس کی سند حاصل کی۔ ایک ٹرانس جینڈر عائشہ گل اسلام آباد میں لیکچرار کا امتحان پاس کرچکی ہیں۔

ملک میں کچھ لوگ انسانی حقوق کے تحفظ کے لیے بننے والے ہر قانون کو مشکوک بنانے کی کوشش کرتے ہیں، یوں قومی اسمبلی کئی اچھے قوانین منظور نہیں کراسکی۔ ٹرانس جینڈر انسانی مسئلہ ہے ، اس مسئلہ کو انسانی زاویہ سے سوچنا چاہیے۔

https://www.express.pk/story/2379180/268/