ٹرانس جینڈر ایکٹ، انسانی غلطی یا آبادی کنٹرول کا دانستہ منصوبہ۔

سچ تو یہ ہے،
============

بشیر سدوزئی ۔
===========

مولانا فضل الرحمن اور مریم بی بی ہی اس پر بہتر تبصرہ کر سکتے ہیں کہ انسانی حقوق کے نام پر ہونے والی اس واردات میں انسانی غلطی کا عمل دخل ہے یا پاکستان میں آبادی اور مہنگائی کنٹرول پروگرام کا دانستہ منصوبہ ، پاکستان مسلم لیک ن کے دور کا ایک ایسا ایکٹ سامنے آیا ہے جس کے تحت اسلامی جمہوریہ پاکستان میں مرد، مرد کے ساتھ اور عورت ،عورت کے ساتھ شادی کر سکتی ہے، اس ایکٹ کی منظوری کے بعد کوئی مولانا یا کوئی جج ہم جنسی نکاح سے انکار کرنے کا مجاز نہیں رہا، یہی تو ہے “میرا جسم میری مرضی” جو نعرہ چند سال پہلے بلند ہوا تھا آج قانون بن چکا۔ کچھ مردوں کی حمایت کے ساتھ اپنے جسم پر اپنی مرضی کا اختیار مانگنے والی خواتین کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر تھی جن پر اکثریت نے اس وقت یہ کہہ کر توجہ نہ دی کہ یہ چند گمراہ افراد کا واویلا ہے، لیکن ان کی طاقت اور اثر و رسوخ کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ مختصر عرصہ میں ان محدود خواتین کی آواز پاکستان میں ٹرانس جینڈر ایکٹ کے طور پر قانونی بن گیا۔ صرف عورتوں کو ہی نہیں آٹھارہ سال سے زیادہ عمر کے ہر شہری کو اپنا جسم اپنی مرضی کے ساتھ استعمال کرنے کا اختیار مل چکا ہے۔ مبینہ طور پر اس بل کی مجوز بھی خواتین ہی ہیں جن کا تعلق مسلم لیگ ن، پیپلز پارٹی اور دیگر سیاسی جماعتوں سے ہے۔ مسلم لیک ن کے سابق وزیراعظم شاید خاقان عباسی کے دور اقتدار کے آخری دنوں میں خواجہ سراؤں کے حقوق کے نام پر منظور ہونے والے اس ایکٹ میں ہر پاکستانی کو یہ حق حاصل ہو گیا ہے کہ 18 سال کی عمر کے بعد وہ نادرہ میں جا کر اپنے شناختی کارڈ پر جنس تبدیلی کا اندراج کرائے، نادرہ کا ملازم بلا چو چرا، رد و کد وہ درج کرنے کا پابند ہے جیسا عاقل و بالغ شہری کہتا ہے ۔اس کے لیے میڈیکل سرٹیفکیٹ یا ڈاکٹر کے چیک اپ کی ضرورت نہیں رہی، اگر وہ مرد ہے تو اس نے نادرہ میں جا کر صرف اتنا کہنا ہے کہ مجھے عورت جیسا اساس ہو رہا ہے، اگر عورت ہو تو اس کو کہنا ہے کہ میں خود کو مرد محسوس کر رہی ہوں بس ان کے شناختی کارڈ میں جنس تبدیلی کا نام لکھ دیا جائے گا۔ مثال کے طور پر مسٹر ایکس، اگر مرد ہے اور اس کی عمر آٹھارہ سال سے زیادہ ہے تو وہ نادرہ میں جا کر یہ کہہ کر اپنے شناختی کارڈ میں اپنا نام مرد کے بجائے عورت درج کرا سکتا ہے کہ میری محسوسات ایسی ہو رہی ہیں کہ میں عورت ہوں۔ جب اس کے شناختی کارڈ پر عورت کا نام درج ہو گیا وہ چاہیے جیسے ہی کپڑے پہنے وہ عورت ہی کہلائے گئی چائے اس کے چہرے پر داڑھی بھی کیوں نہ ہو، اس کو کوئی مرد نہیں کہہ سکتا ۔ اب شادی کا مرحلہ آیا تو اس کی شادی کسی مرد کے ساتھ ہی ہونا ہے اور جو مولانا نکاح پڑھائے گا اس کے پاس موجود شناختی کارڈز میں ایک عورت اور ایک مرد کا شناختی کارڈ ہو گا حالاں کہ حقیقتا وہ دونوں مرد ہوں گے لیکن نکاح سے انکار کرنے کا مولانہ کے پاس قانونی اور اخلاقی جواز نہیں رہا۔ اب دونوں مردوں کا قانونی طور پر نکاح ہوا تو وہ ایک ساتھ زندگی بھی گزار سکتے ہیں اور جنسی خواہشات کی تکمیل بھی۔ اگر کوئی مولانا شک پر نکاح پڑھانے سے انکار کرتا بھی ہے تو اس ہم جنس جوڑے کے پاس عدالتی شادی کا حق موجود ہے۔ قانون میں یہی حق عورت کو بھی دیا گیا ہے کہ اپنے شاختی کارڈ میں جنس تبدیل کر کے ہم جنس سے قانون کے تحت شادی کر سکتی ہے۔ ہوا نہ اپنے جسم پر اپنی مرضی کا اختیار اور اسی کو ہم جنس پرستی کہتے ہیں جسے پاکستان میں قانونی تحفظ دیا گیا ہے، سوشل میڈیا پر یہ مسئلہ آج کل خاصہ گرم ہے اور نوجوان اس پر نرم گرم تبصروں میں مصروف ہیں، ایک نوجوان نے لکھا کہ محکمہ بہبود آبادی کی خاندانی منصوبہ بندی کی اسکیم کی ناکامی کے بعد مسلم لیگ ن اور اس کی اتحادی پارٹیوں نے آبادی کو کنٹرول کرنے اور مہنگائی پر قابو پانے کا یہ آسان طریقہ نکالا کہ ہم جنسی نکاح میں نہ بچوں کی پیدائش ہو گی اور نہ اخراجات میں اضافہ ہو گا۔ جب یہ ایکٹ پاس ہوا، مولانا فضل الرحمان سمیت پی ڈی ایم کی ساری جماعتوں کی لیڈر شپ اسمبلی کی ممبر تھی۔ جب کہ جماعت اسلامی کے علاوہ کسی جماعت نے اور کسی ممبر نے انفرادی طور پر اس بل کی مخالفت نہیں کی۔ یہ معلوم نہیں ہو سکا کہ اس ایکٹ کے پاس ہونے کے بعد اسلامی جمہوریہ پاکستان میں شناختی کارڈ پر جنس تبدیل کرا کر اب تک کتنے لوگ ہم جنس کے ساتھ شادی کر چکے البتہ مختلف میڈیا رپورٹس سے دستیاب معلومات کے مطابق کم سے کم 18ہزار اور زیادہ سے زیادہ 40 ہزار پاکستانی شہری اپنی جنس تبدیلی کا شناختی کارڈ حاصل کر چکے ہیں۔ پاکستانی عوام کی اکثریت نے مسلم لیگ ن کی اس قانون سازی کو مسترد کر دیا ہے اور مطالبہ کیا ہے کہ ٹرانس جینڈر ایکٹ کو کالعدم قرار دیا جائے یہ ہم جنس پرستوں اور ” میرا جسم میری مرضی ” والوں کےلئے راہ ہموار کرنے کی سازش کو قانونی شکل دی گئی ہے ۔ غور طلب بات یہ ہے کہ ان ممبر پارلیمنٹ خواتین کو جن کے نام اس قانون کے مجوزہ میں آ رہے ہیں ایسی قانون سازی کی کیا ضرورت پیش آئی اس پر طرفہ تماشا کہ مولانا فضل الرحمن، جیسے علماء کی موجودگی میں جن کو بستی قوم حضرت لوط کے حشر کا مکمل ادراک ہے اسلامی معاشرے میں ایسا ایکٹ واضح کرنے پر خاموش رہنے کی ضرورت کیوں پیش آئی۔ جماعت اسلامی کے سینیٹر مشتاق احمد خان اس ایکٹ کو وفاقی شرعی عدالت میں چیلنج نہ کرتے تو قوم کو خبر نہ ہوتی کہ کون سی عورت بظاہر عورت اور حقیقت میں مرد ہے اور کون سا مرد جو بظاہر تو واضح قطع میں عورت ہے اور جسمانی طور پر مرد ہے۔ وفاقی شرعی عدالت میں خواجہ سراؤں کے حقوق سے متعلق ٹرانس جینڈر  ایکٹ کے خلاف درخواست کی باقاعدہ سماعت تو شروع ہوئی لیکن پیش رفت سے مایوسی ہوئی جب وفاقی شرعی عدالت نےکیس کی مختصر سماعت کے بعد مذید سماعت غیر معینہ مدت کے لیے ملتوی کردی۔ لگتا ہے عدالیہ کیا اور مقننہ کیا ذمہ دار ایوانوں اور اقتدار میں بیٹھے سب چاتے ہیں کہ اس ایکٹ کو برقرار رکھا جائے یا زیادہ سے زیادہ طول دی جائے کہ مہنگائی میں پریشان عوام اس کو بھول ہی جائیں ۔ عدالت نے پیپلزپارٹی کے سینیٹر فرحت اللہ بابر جماعت اسلامی کے سینیٹر مشتاق احمد خان اور خواجہ سراؤں کے نمائندے الماس بوبی سمیت دیگر افراد کی فریق بننے کی درخواستیں منظور کرلیں اور ہدایت کی کہ تمام فریقین مقدمہ سے متعلقہ اپنی گزارشات تحریری طور  پرجمع کروئیں۔ لگتا ہے کہ پیپلزپارٹی اس کا دفاع جاری رکھے کی جو اس کی خواتین ممبران کی تجویز پر ایکٹ بن کر پاکستانی معاشرے میں نافذ ہو چکا۔ فرحت اللہ بابر کا کہنا تھا کہ بل کو پوری اسمبلی نے اتفاق رائے سے منظور کیا تھا، بل بنتے وقت میں اس سارے عمل میں شامل تھا، بل پرکیا اعتراضات تھے اور کیا بحث ہوئی عدالت کو بتانا چاہتا ہوں، دو بلوں کو ملا کر ایک بل بنایا گیا تھا فرحت بابر کی اس وضاحت میں تو یہی اندازہ ہوتا ہے کہ پیپلزپارٹی اس ایکٹ میں کچھ غلط نہیں سمجھتی لیکن تحریر جواب جمع کرانے کے بعد ہی صورت حال سامنے آئے گی کہ اس پر پیپلزپارٹی کا کیا موقف ہے۔۔
سینیٹر مشتاق تو روز اول سے اس ایکٹ کے خلاف ہے۔ لیکن جماعت اسلامی نے بھی ابھی تک اس ایکٹ کے خلاف عوامی مہم شروع نہیں کی تاہم سینیٹر مشتاق احمد خان کے وکیل کا کہنا تھا کہ سینیٹ میں نیا بل جمع کروایا گیا ہے،کسی کو اپنی مرضی سے جنس بدلنے کی اجازت نہیں ہونی چاہیے۔
خواجہ سرا نایاب نے دوران سماعت ٹرانس جینڈر بل کے بارے میں سوشل میڈیا بحث پرپابندی کی استدعا کی۔ وفاقی شرعی عدالت کے قائم مقام چیف جسٹس نے کہا کہ اصل مسئلہ خواجہ سراؤں کے حقوق کا ہے، جس کے بھی جو حقوق ہیں وہ ملنے چاہئیں، کمیونٹی کو تحفظ اور حق دینا ہی اصل مقصد ہے،کوئی آنکھیں بند کرلے تو وہ نابینا نہیں بن جائےگا۔ انہوں نے استفسار کیا کہ خواجہ سراؤں کے کوٹےکے لیے حکومت کا کیا طریقہ کار ہے؟ یہ نہ ہوکہ نوکری کے لیے کوئی خواجہ سرا کا شناختی کارڈ بنوالے۔
نمائندہ وزارت انسانی حقوق کا کہنا تھا کہ  خواجہ سراؤں کے ایکٹ پرعمل درآمد سے ہم جنس پرستی کو فروغ نہیں ملتا، خواجہ سراؤں کو نوکریاں دینے کا باقاعدہ طریقہ کار ہےقانونی ماہرین اور تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ ٹرانس جینڈر ایکٹ 2018 یعنی خواجہ سرائوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے نافذ کئے گئے اس ایکٹ سے خواجہ سرائوں کو تو کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ البتہ گمراہ مردوں کا عورت بننا اور عورتوں کا مرد بننے کو قانونی تحفظ دے دیا گیا ہے۔ بل میں خواجہ سرا کی تعریف صرف یوں کی گئی ہے کہ ” وہ مرد یا عورتیں جن کی جنسی شناخت ان کی قدرتی جنس کے مخالف ہو۔ وہ شخص جس کی عمر اٹھارہ سال سے زائد ہو اس کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ اپنی جنس خود معین کرے خواہ وہ مرد ہو یا عورت “۔ یہ بل 2017 میں بڑی سیاسی پارٹیوں کی خواتین سینیٹروں نے پارلیمنٹ میں پیش کیا تھا۔ جو 2018 میں محترم شاہد خاقان عباسی کے وزارت عظمی کے دور جماعت اسلامی کے سینیٹر مشتاق احمد خان کی بھرپور مخالفت کے باوجود اکثریت کی بنیاد پر پاس ہو گیا۔
اس قانون کے تحت ایک فرد جو صبح نو بجے مرد ہو گا نادرا آفس جا کر یہ کہے گا کہ میرے شناختی کارڈ میں مجھے مرد لکھا گیا ہے لیکن میرے ذہن میں عورتوں جیسے خیالات آتے ہیں۔اس لئے مجھے عورت ہونے کا نیا شناختی کارڈ جاری کیا جائے۔اس کو نیا شناختی کارڈ جاری ہو گا جو وہ عورت کا نام بتائے گا۔ دس بجے اس کو عورت ہونے کا سرٹیفیکیٹ مل جائے گا۔ وہ نادرا آفس کے اندر ہی عورتوں کےلئے مخصوص واش روم استعمال کر سکے گا۔ کسی بھی گرلز کالج اور گرلز ہاسٹل میں داخلہ لینے کا اس کو حق مل جائے گا۔وہ سب سہولیات حاصل کر سکے گا جو خواتین کے لیے مخصوص ہیں ۔ اب یہ قانون مرد کو مرد سے اور عورت کو عورت کے ساتھ شادی کا اختیار دیتا ہے لیکن یاد رکھیں ایک قانون اللہ کا بھی ہے حضرت نوح، حضرت ہود علیہ السلام کی قوموں پر نازل ہونے والے عذاب کی جھلک ہمیں شدید سیلاب اور آندھی طوفان میں نظر آتی ہے جس میں بعض اوقات ہم مبتلا بھی رہتے ہیں۔بالاکوٹ،مظفر آباد و دیگر علاقے آج بھی حضرت ثمود علیہ السلام کی قوم کے عذاب کی ماند موجود ہیں ۔۔ شام اور حجاز کے درمیان تباہ شدہ عمارتیں قیامت تک ایمان والوں کو قوم ثمود کے عبرت ناک عذاب کی یاد تازہ کرتی رہیں گی۔ غزوہ تبوک کے موقع پر گزرتے، اسلامی فوج نے ثمود کے کنوئیں کے پانی سے آٹا گوندھا تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے آٹا اور پانی پھینک دینے اور بستی سے کوچ کرنے کا حکم دیا اور فرمایا کہ یہ وہی بستی ہے جس پر اللہ تعالی کا عزاب نازل ہوا تھا ۔ایسا نہ ہو کہ تم بھی کسی عذاب میں مبتلا ہو جاو۔۔ بس اب مسلمانوں کے لیے قوم لوط کے عذاب کی نشانی پتھروں کی بارش برسنا رہ گئی ہے۔ ہم نے اب وہ کام بھی شروع کر دئے ہیں جو قوم لوط نے اپنائے ہوئے تھے۔ اسلامی ریاست میں اس طرح کے گناہوں کو قانونی تحفظ ملے گا تو پتھروں کی بارش کا بھی سامنا کرنا ہو گا خواہ وہ بڑے اور موٹے اولوں کی صورت میں ہو یا حقیقی پھتروں کی صورت میں انتظار فرمائے اپنے جسم کا اپنی مرضی سے استعمال کا حق مانگنے اور دینے والو۔۔۔۔ جو لوگ میری طرح ایمان کی کمزور پوزیشن پر بھی ہیں کم از کم دل میں اس لعنت کو بھرا کہاو تاکہ بچت کا کوئی سبب نکل آئے ورنہ، نوازشریف، مولانا فضل الرحمن، بلاول بھٹو زرداری یا عمران خان کی محبت اور عقیدت اس عذاب سے محفوظ نہیں رکھ سکے گی ۔ ۔
=============================