مریضوں کی سیفٹی کا عالمی دن اور ہما را عزم۔


میری بات۔۔۔مدثر قدیر
=================
ریڈیو پاکستان کے کنٹریکٹ ملازمین اور صداکاروں کے لیے ڈائریکٹر جنرل سہیل علی خان نے اہم قدم اٹھاتے ہوئے ان کے معاوضوں کے لیے تمام مراکزکو ہر ماہ کی 5تاریخ تک کنٹریکٹ ہیڈ آفس بجھوانے کا مراسلہ جاری کردیا جس کی وجہ سے اب تمام لوگو ں کے واجبات اور تنخواہیں مہینے کے ابتدائی دنوں میں ادا رکردیے جائیں گے جو ڈائریکٹر جنرل کا بہت اچھا فیصلہ ہے اور اگر ڈائریکٹر جنرل اب آرٹسٹوں کی فیس میں اضافے کے حوالے سے بھی فیصلہ کرلیں اور اس حوالے سے ترتیب دی گئی فائل کو گرین سگنل دے دیں تو یہ صداکار برادری پر ان کا احسان ہوگا کیونکہ اب دھائیاں گزر چکی ہیں صداکاروں کے معاوضے نہیں بڑھے اگر کوئی چیز بڑھی ہے تو وہ مہنگائی ہے جس کا مقابلہ صداکار صرف اپنی فیس میں اضافے کے بعد ہی کرسکتے ہیں اور حقیقت میں ڈائریکٹر جنرل سہیل علی خان اس بارے میں سوچ کو عملی شکل دینے کی طرف بڑھ رہے ہوں گے اور اب میں بات کروں گا اپنے آج کے موضوع کی گزشتہ روز عالمی یوم برائے مریضوں کی سیفٹی منایا گیا اس دن کامنانے کا مقصد مریضوں کو ان کے حقوق کے حوالے سے آگاہ کرنا تھا کہ ان کا علاج کس طرح کیا جارہا ہے اور کیا ان کو دیجانے والی ادویات کے فوائد اور نقصانات ان کو بتائے گئے ہیں اس حوالے سے مرکزی تقریب فاطمہ جناح میڈیکل یونیورسٹی میں ہوئی جس کی صدارت صوبائی وزیر صحت ڈاکٹر یاسمین راشد نے کی اور اس موقع پر ان کا اپنے خطاب میں کہنا تھا ڈاکٹرکیلئے سب سے اہم اس کے مریض کا علاج معالجہ اور صحت یاب ہوناہوتاہے۔مریض سے پوچھ کر اس کا علاج کرناہرڈاکٹرکی بنیادی ذمہ داری ہے۔پوری دنیامیں ہرسال ہسپتالوں میں غفلت کے باعث ہزاروں مریض جان کھوبیٹھتے ہیں اور ہم پنجاب کے سرکاری ہسپتالوں میں مریضوں کو جراثیم سے پاک ماحول فراہم کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ڈاکٹریانرس کو مریض کو دوائی دینے یاانجکشن لگانے سے پہلے اجازت لینی چاہئے۔ڈاکٹرکو علاج معالجہ سے پہلے سارے سائیڈافیکٹ کے بارے مریض کو آگاہ کرناچاہئے۔ڈاکٹرزکی خوش اخلاقی سے ہی مریض آدھاٹھیک ہوجاتاہے۔ڈاکٹرکی زبان کی مٹھاس ہی کسی مریض کے علاج معالجہ کی بنیاد ہوتی ہے اس موقع پروائس چانسلرفاطمہ جناح میڈیکل یونیورسٹی پروفیسرڈاکٹرخالدمسعودگوندل،پروفیسرڈاکٹرشمسہ ہمایوں اور ڈاکٹرحسین جعفری نے اپنی تقاریرکے ذریعے ورلڈپیشنٹ سیفٹی ڈے کی اہمیت اجاگرکیاس دن کی اہمیت کے پیش نظر ایک تقریب اور آگاہی واک کا اہتمام جنرل ہسپتال میں بھی ہوا اس موقع پر پرنسپل پوسٹ گریجویٹ میڈیکل انسٹی ٹیوٹ و امیر الدین میڈیکل کالج پروفیسر ڈاکٹر سردار محمد الفرید ظفر نے کہا ہے کہ ذاتی مفادات اور ہر قسم کے تعصبات سے بالا تر ہو کر تمام مریضوں کو علاج معالجے کی یکساں طبی سہولیات فراہم کرنے والے ڈاکٹرزہی مسیحا کہلوانے کے اصل حقدار ہوتے ہیں کیونکہ وہ اپنی جانیں ہتھیلی پر رکھ کر اوراپنے اہل خانہ کے وقت کی پرواہ کیے بغیر ہمہ وقت دکھی انسانیت کی خدمت کے لئے میسر ہوتے ہیں۔ڈاکٹر خالد بن اسلم اورڈاکٹر سحرش اقبال نے کہا کہ مریض کے تحفظ کے زمرے میں ڈاکٹرز کی جانب سے نسخہ جات تحریر کرتے وقت انتہائی احتیاط سے کام لینا بھی شامل ہے تاکہ اینٹی بائیوٹک سمیت دیگر ادویات کے غیر ضروری اور مقدار سے زیادہ استعمال کو بھی روکا جا سکے جس کے مریض کی صحت پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔مریضوں کی سیفٹی کے حوالے سے عالمی دن تو منایا گیا مگر آج بھی صوبائی دارلحکومت کے ہسپتالوں میں داخل مریض صحت کی بنیادی سہولیات ہی سے محروم میو ہسپتال،سر گنگا رام ہسپتال،جناح ہسپتال، جنرل ہسپتال، لیڈی ولنگٹن،کوٹ خواجہ سعید ہسپتال،گورنمنٹ ٹیچنگ ہسپتال شاہدرہ،پنجاب انسٹیٹیوٹ آف کارڈیالوجی،مزنگ ٹیچنگ ہسپتال،شوشل سیکیورٹی ہسپتال ملتان روڈ اور گورنمنٹ سمن آباد ہسپتال میں ادویات کی کمی اور علاج کے ضمن میں سہولت فراہم کرنے والی مشینیں عرصے سے بند،مریضوں کی بڑھتی تعداد سے سرکاری ہسپتالوں کے ایک بیڈ پرتین مریض داخل جو اس دن کے بنیادی تھیم ہی کی خلاف ورزی ہے۔ ہر سال 17 ستمبر کو ورلڈ پیشنٹ سیفٹی ڈے منایا جاتا ہے جس کا بنیادی مقصد مریضوں کو صحت کی سہولیات کی فراہمی اور ان کے علاج میں معاون چیزوں کی دستیابی شامل ہے مگر میو ہسپتال میں 17ستمبر کو اوپی ڈٰ ی کا بند ہونا ایڈمنسٹریشن کے لیے ایک سوالیہ نشان چھوڑ گیا ہے۔میں اپنی بات میں کہنا چاہتا ہوں ایک ڈاکٹر جس کا شمار معاشرے کے ذہین ترین افراد میں سے ہوتا ہے جب وہ میڈیکل پروفیشن میں داخل ہوتا ہے تو اس کو حلف لینا پڑتا ہے کہ میں مریضوں کی صحت اور ان کے علاج معالجے کے معاملے میں کوتاہی کا مرتکب نہیں ہوں گا مگر جیسے جیسے وہ اپنے پروفیشن میں ماہر ہوتا جاتا ہے تو وہ اپنے حلف کی پروا نہیں کرتا جس کی وجہ سے مریض کا علاج کوتاہی کا شکار ہوجاتا ہے۔لو گ اپنے حقوق کے بارے میں زیادہ فکر مند نظر آتے ہیں لہذا میڈیکل پروفیشن سے وابستہ افراد کی ذمہ داریوں میں بھی اضافہ ہوا ہے اور ان کے مریض کا مطمئن ہونا بہت اہمیت اختیار کر چکا ہے،مگر جب متعلقہ ڈاکٹر ز سے مریض اپنے علاج کے حوالے سے پوچھتا ہے تو وہ مریضوں کا علاج کرنے سے انکار کردیتے ہیں اور اس بات کا برا مناتے ہیں۔عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) نے بھی اب پاکستانی عوام سے اپنی مرضی سے ادویات استعمال نہ کرنے کی اپیل کردی ہے۔جس کے مطابق پاکستان میں اینٹی بائیوٹکس کا بے دریغ استعمال کیا جارہا ہے، اینٹی بائیو ٹکس کے بے دریغ استعمال سے جراثیموں میں ان ادویات کیخلاف مزاحمت بڑھ رہی ہے۔عالمی ادارہ صحت کا کہنا ہے کہ پاکستان کو ایکس ڈی آر ٹائیفائیڈ جیسی مہلک بیماری کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے، یہی حال رہا تو زیادہ تر اینٹی بائیوٹکس بیماریوں کیخلاف بے اثر ہو جائینگی۔17 ستمبر کو شہر کے بڑے ہسپتالوں میں پیشنٹ سیفٹی کے حوالے سے آگاہی پر مبنی پروگرام منعقد کیے گئے جن کا اختتا م چائے اور دیگر لوازمات سے ہوا مگر جن لوگوں کے حقوق کے لیے آگاہی کا دن منایا گیا وہ اب تک ورطہ حیرت میں ہیں کہ ان کے ساتھ کیا ہوگا کیونکہ وہ اب تک مسیحا کے منتظر ہیں جو انھیں بہترین علاج معالجہ فراہم کرسکے۔پہنچ سکے۔
======================================================