رابن رافیل کی آمد عمران امریکا تعلقات بحالی یا معاملا اور ہے۔

سچ تو یہ ہے۔
====
بشیر سدوزئی،
============

امریکن سفارت خانہ کی جانب سے رابن رافیل، عمران ملاقات پر لاعملی کے باوجود یہ بات راز نہیں رہی کہ 1988 میں ضیاء الحق کے ہمراہ طیارہ حادثے میں ہلاک ہونے والے معروف امریکی سفیرآرنلڈ رافیل کی بیوہ اور صدر بل کلنٹن کے دور کی اسسٹنٹ سیکرٹری آف سٹیٹ برائے وسطی اور جنوبی ایشیا رابن رافیل نے گزشتہ ہفتہ نہ صرف اسلام آباد کا غیر علانیہ، غیر سرکاری دورہ کیا بلکہ بنی گالا میں عمران خان سے اہم ملاقات بھی کی۔ ملاقات کی تفصیلات اور ایجنڈہ تو ابھی تک سامنے نہیں آیا کہ کیا معملات طہ ہوئے اور کیا طہ ہونا باقی ہیں لیکن عمران خان نے اسلام آباد میں میڈیا کے سوال کے جواب میں کہا کہ رابن رافیل کو میں پرانا جانتا ہوں اس کا امریکن حکومت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ مانا کہ امریکا کا بہت اہم ترین سفارت کار اور معروف لابسٹ سے عمران خان کے ذاتی تعلقات ہو سکتے ہیں لیکن ایسے وقت میں جب پاکستان میں سیاسی افراتفری اور بدترین معاشی صورت حال کے باوجود عمران خان نے عوامی سطح پر امریکا کے خلاف پاکستانی نظام حکومت اور کاروبار سیاست میں مداخلت کی مہم شروع کر رکھی ہے جس کے باعث پاکستانی معاشرے میں امریکا کے خلاف نفرت میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے یہ خفیہ ملاقات اتنی غیر اہم اور نجی نہیں ہو سکتی جیسا کہ بیان کرنے کی کوشش کی گئی، جب کہ اپوزیشن کی طرف سے اس کو باضبط بیانیہ بنانے کے بجائے ہَلْکے پُھلْکے بیانات پر ہی بات ختم کر دی گئی اس میں بھی شکوک و شبہات جنم لیتے ہیں۔ خطہ کے بدلتے سیاسی حالات کے پش نظر یہ بھی نہیں کہا جا سکتا کہ رابن رافیل صرف عمران خان کے لیے ہی پیغام لائی تھی یا اس کا دورہ پاکستانی امور تک ہی محدود تھا۔ متعدد تجزیہ نگار اس دورے کو خطے کے بدلتی سیاسی صورت حال، خاص طور یوکرین، روس جنگ کے دوران بھارت کی غیر جانبداری اور اس پر چین روس کی جانب سے بھارت کی سفارت کاری اور غیر جانب داری کی تعریف سے بھی جوڑتے ہیں ۔اس کے لیے یہ حوالہ دیا جاتا ہے کہ عین اس وقت جب رابن رافیل اسلام آباد میں بظاہر خفیہ اور نجی مصروفیات میں سرگرم تھی اس کا امریکی ہم منصب عمران خان کی حکومت کو مبینہ دھمکی دینے والا امریکی سفارت کار ڈونلڈ لو نئی دلی میں سرکاری طور پر اسی نوعیت کی سرگرمیوں میں مصروف تھا جیسے رابن رافیل، تجزیہ نگار کا کہنا ہے کہ رابن رافیل تو نظروں سے اوجل رہی البتہ مسٹر ڈونلڈ لو کی باڈی لینگویج بتا رہی تھی کہ اس اہم موڑ پر بھارت کا امریکی بلاک سے دور ہٹنا اور غیر جانبدار خارجہ پالیسی امریکا کو ہر گز پسند نہیں آئی جیسا کہ عمران کی پالیسی سے اختلاف کر کے حکومت ہی گرا دی تھی۔ تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ امریکا کی ان سفارتی سرگرمیوں کا اگلا ہدف مودی سرکار ہو سکتی ہے، لیکن بھارت کی مضبوط جمہوریت کے باعث امریکا مودی کی پالیسیوں پر بہت زیادہ اثر انداز نہ بھی ہو سکا تو کم از کم مسئلہ کشمیر ایک مرتبہ پھر دنیا کی توجہ کا مرکز بنے گا جو بھارت امریکن قربت کے باعث آستہ آستہ پس منظر میں چلا گیا تھا۔ امریکا اس صورت حال میں بھارت کا بازوں مروڑنے کی کوشش کرے گا اور اس کے لیے مسئلہ کشمیر ہی بہترین ہتھیار اور جموں و کشمیر کے نوجوان بہترین ایندھن ہیں۔ مقبوضہ کشمیر میں لوہا ابھی بھی گرم ہے بس اس کو ہوا دینے کی ضرورت ہے بند کھڑکی جیسے ہی کھلے گی سری نگر میں شعلے بلند ہونا شروع ہو جائیں گے ۔۔۔ عمران خان کا بیان تو درست ہے کہ رابن رافیل کا امریکا کی موجودہ حکومت سے کوئی تعلق نہیں لیکن امریکا کے نظام کے بارے میں کون نہیں جانتا کہ امریکی مفاد میں وہاں کوئی ریٹائرڈ ہوتا ہے نہ کوئی حکومت اور اپوزیشن۔ ملک کو جس وقت بھی جس کی ضرورت پڑھتی ہے وہ کام اس سے لیا جاتا ہے اور وہ شخص امریکن مفاد میں کام کرتا ہے خواہ حکومت کسی کی بھی ہو۔ رابن رافیل امریکا کی بہت اہم اور قابل ترین سفارت کار ہونے کے علاوہ پاکستان کے بارے میں نیک جذبات رکھتی ہے اور مسئلہ کشمیر کے حوالے سے واضح اور دوٹوک موقف بھی کہ یہ دو ملکوں کا سرحدی تنازعہ نہیں کشمیری اس کے ایک فریق ہیں۔اس نے اپنی سفارت کاری کے دوران اسی انداز سے کام بھی کیا اور جب مذاکرات کی بات ہوئی تو اس نے ہمیشہ بھارت پر زور دیا کہ حریت کانفرنس کے ساتھ، ساتھ حریت پسندوں کے ساتھ بھی مذاکرات کئے جائیں ۔ یاسین ملک سمیت حریت پسندوں کی جانب سے ہھتیار پھنک کر مذاکرات کے ٹیبل پر مسئلے کو حل کرنا اور مسلحہ جدوجہد کے بجائے سیاسی جدوجہد کا اعلان اسی امریکن پالیسی کا حصہ تھا جسے عدم تشدد کی بین الاقوامی پالیسی کہا گیا اس کے پیچھے رابن رافیل ہی کا دماغ اور مثبت سوچ کا عمل دخل تھا بھارت میں رابن کے خلاف باتیں بھی ہوتی رہی کہ یہ بھارت مخالف ہے۔ رابن رافیل طالبان کے ساتھ بھی مذاکرات کی حامی رہی ہے اسی لیے بھارت میں بھاجپا نے اس کو ” لیڈی طالبان” کا نام دیا۔ بل کلنٹن کے دور حکومت میں رابن رافیل اسسٹنٹ سیکرٹری آف سٹیٹ برائے وسطی اور جنوبی ایشیا کے اہم ترین عہدے پر فائز رہی جس کا مقصد پاکستان، انڈیا اور افغانستان سے متعلق جمہوری، جوہری اور طالبان سے متعلق معاملات کو دیکھنا تھا۔ پاکستان میں یہ نواز شریف اور بے نظیر بھٹو کی حکومتوں کا دور تھا۔۔۔ بے نظیر بھٹو کے دور میں ایک وقت ایسا بھی آیا کہ دونوں ممالک کے درمیان برسیلز ترامیم کے بعد دوریاں اتنی بڑھیں کہ فوجی اور سیاسی تعلقات تقریبا ختم ہو گئے تھے۔ اس وقت رابن رافیل دو طرفہ تعلقات کی بحالی اور بہتری کے لیے سرگرم ہوئیں، اس کی کامیاب سفارت کاری سے نہ صرف تعلقات میں بہتری پیدا ہوئی بلکہ پریسلر ترامیم میں مذید ترمیم ہوئی اور پاکستان کو پہلے سے طے شدہ فوجی ساز و سامان کی ترسیل کی اجازت دی گئی۔ یہ حسن اتفاق نہیں بلکہ حقیقت ہے کہ آج پھر جب رابن رافیل اسلام آباد کے غیر علانیہ دورے اور خفیہ ملاقاتوں میں مصروف ہے تو ایک جانب امریکا نے پاکستان کے دفاعی سازوسامان کی بحالی کا اعلان کیا اور دوسری جانب عمران خان کے غم و غصے کی جھاگ بیٹھ رہی ہے۔ ہم یہ نہیں کہتے کہ یہ سب رابن رافیل کی سرگرمیوں اور ملاقاتوں کا اثر ہے تاہم عمران خان کے لب و لہجہ میں خاصی تبدیلی اور نرمی اور غداری کے مقدمات کا اچانک بے اثر ہونا اور پاکستانی سیاست کی گرمی میں اعتدال آنا بلاوجہ نہیں اس کے پیچھے کچھ عوامل ہیں جو کام کر رہے ہیں کیا ممکن ہے کہ وہ رابن رافیل یا اس سوچ کے کچھ اور لوگ بھی ہوں۔ رابن رافیل کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ وہ آج کل امریکا میں ایک معروف لابسٹ فرم کے سربراہ کے طور پر کام کر رہی ہیں، عمران خان کے ساتھ رابن کی ملاقات کی اس لیے بھی زیادہ اہمت ہے کہ عمران امریکا تعلقات کی بحالی میں سفارت کار کی نہیں لابسٹ ہی کی ضرورت تھی جو غلط فہمیاں دور کرئے۔ عمران خان کی بڑھتی ہوئی عوامی مقبولیت کو دیکھتے ہوئے اپنے کیا اور پرائے کیا سب کو اندازہ ہوا ہے کہ زیادہ دیر تعلقات میں تعطل برقرار رکھنے سے عوام میں منفی سوچ پیدا ہونے کا خطرہ لائق رہتا ہے عوامی نفرت سے تو امریکا خاص طور پر احتیاط کرتا ہے وہ ایک جمہوری معاشرہ ہے اور سمجھتا ہے کہ حکومت کا جتنا بھی ساتھ ہو عوامی نفرت کا سیلاب اس کی ساری حکمت عملی کو بہہ کر لے جائے گا۔ جب کہ بھارت سے تعلقات میں سرد مہری کے بعد امریکا کو ایسے ملک کی ضرورت ہے جہاں سے خطہ کی سیاست کرے۔ ممکن ہے اس نے ان بگڑے تعلقات کی بحالی اور پاکستان کو ایک مرتبہ پھر پرانے پارٹنرز کے طرز پر قریب لانے کی کوشش شروع کی ہو۔ عمران خان چوں کہ اپنی حکومت گرانے کے حوالے سے براہ راست مسٹر لو کی دھمکی آمیز خط کا حوالا دیتا ہے جو امریکا کی ساکھ کے لیے اچھا نہیں۔ لہذا قوی امکان ہے کہ امریکا نے پاکستان کی پرانی دوست سمجھی جانے والی معروف لابسٹ کی خدمات حاصل کی ہوں۔ سابق صدر پرویزمشرف بھی رابن رافیل کی لابسٹ کمپنی کی خدمات حاصل کر چکا۔ بتایا جاتا ہے کہ پاکستان کے لیے لابنگ کا 1.2 ارب ڈالرز کا معاہدہ کیا گیا تھا لیکن پرویز مشرف کی جانب سے ججز معطلی کیس کے دوران ایمرجنسی کے نفاذ کے بعد یہ معاہدہ ختم ہوا۔ رابن رافیل 2009 میں افغانستان پاکستان ٹاسک فورس میں بھی کام کر چکی۔ اس ٹاسک فورس کی ذمہ داریوں میں کیری لوگر بل کے تحت 1.5 ارب ڈالرز کی پاکستان کو سالانہ امداد اور اس کے منصوبوں میں خرچ سے متعلق امور کو دیکھنا تھا۔ رابن رافیل نے پاکستان کے ساتھ دوستی کی قیمت بھی چکائی واشنگٹن پوسٹ کے مطابق 2013 میں امریکی فیڈرل بیورو آف انویسٹی گیشن (ایف بی آئی) نے رابن رافیل کی ٹیلی فون کال کو ریکارڈ کیا جب وہ ایک پاکستانی سرکاری اہلکار سے گفتگو کر رہی تھی۔۔اس کال کی ریکارڈنگ کے بعد اس کے خلاف پاکستان کے لیے جاسوسی کرنے کے الزام کی تحقیقات کا آغاز ہوا۔ اس کے گھر کی تلاشی لی گئی اور پاکستان کےساتھ خفیہ دستاویز شیئر کرنے کے الزامات لگے، مقدمہ عدالت تک پہنچا تو امریکی عدالت انصاف نے ان پر لگے تمام الزامات مسترد کر دیے۔ برحال اتنی اہم شخصیت جس کا پاکستان سمیت خطہ میں کام کرنے کا وسیع تجربہ اور حلقہ احباب ہے اس وقت خفیہ دورہ اسلام آباد محض تفریح دورہ نہیں اور نہ ہی روایتی سفارت کاری ہے لگتا ہے کہ یہ بہت اہم دورہ ہے جس کے اثرات نہ صرف پاکستانی سیاست اور معشیت پر مثبت نظر آتے ہیں بلکہ خطہ کی سیاست میں بھی تبدیلی کا اشارہ کرتا ہے۔
================================