جنگ ستمبر کے وہ سترہ دن

۔۔۔۔۔ قادر خان یوسف زئی کے قلم سے

قوم کے لیے سلامتی کی راہ ایک ہی ہے اور وہ یہ کہ اسے مستقل طور پر حالت ِ جنگ میں رکھا جائے۔ شاید یہ کہنا حیرت کا موجب بنے ، لیکن اس حوالے سے کچھ اہم امور جنگ ستمبر کے سترہ دنوں میں دیکھنے کو ملے ،جنہوں نے پاک بھارت 65کی جنگ دیکھی ، ان سے جب بھی اس معرکے کی بات ہوئی تو کئی حیرت انگیز کہانیوں میں سے ایسی باتیں بھی کہہ جاتے کہ موجودہ حالات کو مد نظر رکھتے ہوئے کہنا پڑتا ہے کہ سلامتی کی راہ حالت ِ جنگ میں پہناں ہے۔ سیاسی حالات کاجائزہ لیں تو 1965ہو یا2022، زیادہ فرق محسوس نہیں ہوگا ۔قیام پاکستان کے بعد جب انگریز چلا گیا اور حکومت ہماری ’ اپنی ‘ ہوگئی تو حیرت انگیز طور پر حکومت اور عوام میں جو بُعد اور مغائرت پہلے تھی وہ بدستور باقی رہی بلکہ دن بدن بڑھتی ہی چلی گئی ، یہ کیفیت تھی کہ عمال ِ حکومت اپنے آپ کو افسر ، حاکم سمجھتے اور عوام کو ’ رعایا ‘ ۔ اَن کے ساتھ اُن کا سلوک اور رویہ بالکل ویسا ہی ہوتا جیسا شکن بر جبین مستبد انگریز حاکم کاتھا ۔ اس فرق کے ساتھ کہ انگریز کے ماتھے کے شکن مستقل ہوتے تھے اور ہمارے حکام کے یہ فولادی شکن ’ چاندی سونے کی حرارت ‘‘ سے نرم پڑ جاتے۔ رشوت ہمارے معاشرے کا ایک جزو لانیفک بن چکی ہے ، کسی بھی دو ر کو اٹھا کر دیکھ لیجئے ، اس کے ادائیگی کے بغیر کہیں شنوائی نہیں ہوتی ۔


یہ بھی ہماری تاریخ کا حصہ بن چکا کہ حکومت کی مشینری کے ادنیٰ سے پرزے سے بھی ڈرے ڈرے سہمے سہمے رہتے ہیں اورچاہے کسی کی بھی حکومت ہو ، سفید پوش اور قانون پر چلنے والے کی یہی روش ہے جب کہ دوسری طرف ، جس شخص کے متعلق یہ کہہ دیا جائے کہ ’ یہ حکومت کا آدمی ‘ ہے تو اس کے متعلق وہی جذبات ابھرتے جو انگریز کے زمانے میں سرکار پر ست ’ ٹوڈی ‘ کے متعلق دل میں پیدا ہوتے تھے ، جو شخص حکومت کے کسی اچھے کام پر بھی اس کی تعریف کر بیٹھے ، اُسے شک و شبہ کی نگاہ اور حقارت و نفرت کی نظر سے دیکھا جاتا۔ حکومت کے خلاف ، جا و بے جا تنقید کرنا ، معاشرہ میں قابل تعر یف بننے کے لیے ضروری گردانا جاتا تھا اور آج بھی اس روش میں کچھ خاص تبدیلی نہیں ہوئی ۔ جو جتنے زیادہ تلخ انداز سے حکومت پر تنقید ( بلکہ اس کی مذمت ) کرتا ہے، وہ اتنا ہی حریت مآب اور محب قوم سمجھا جاتا ہے۔

قوم اور حکومت میں یہ بُعد مسلسل چلا آرہا تھا کہ جنگ کا زلزلہ آیا اور ایک جھٹکے میں یہ خلیج نہ صرف تنگ ہوگئی بلکہ بڑی حد تک پٹ گئی۔ حکومت نے لوگوں کو اپنے اعتماد میں لے لیا ، حکام اپنے آپ کو عوام میں سے سمجھنے لگے ، ان کے ماتھے کی تیوریاں ، لبوں کے تبسم میں بدل گئیں ، اس تبسم اور احساس یگانت کا نتیجہ تھا کہ رشوت ختم ہوگئی ۔ بڑے بوڑھے گواہی دیتے ہیں کہ واقعی حالت جنگ میں ایک ایسا موقع بھی آیا کہ رشوت ختم ہوگئی ۔ عمال حکومت نے اس حقیقت کو سمجھ لیا کہ وہ تنخواہ ہی اس بات کی پاتے ہیں کہ لوگوں کا کام کریں ، انہوں نے پنے اندر یہ تبدیلی پیدا کی اور عوام ( رشوت کے روپوں کی جگہ ) ان کی خدمت میں اپنے دیدہ و دل پیش کرنے لگے ، اُس ‘ خلیج ‘ کے زمانے میں لوگ یہ سمجھتے تھے کہ حکومت جو کچھ اُن سے وصول کرتی ہے وہ افسروں اور حاکموں کی جیب میں چلا جاتا ہے ، اس لیے ہر شخص کی کوشش یہی ہوتی تھی کہ وہ حکومت کے واجبات کی ادائیگی کو کسی نہ کسی طرح ٹال دے بلکہ اُن سے بچ ہی نکلے ، اگر کسی سرکاری چیز کا نقصان ہوتا تھا تو راہ رو اُسے دیکھ کر عجب بے اعتنائی سے یہ کہتے ہوئے گذر جاتے کہ یہ مال حکومت کا ہے ، ہمارا تھوڑا ہے ، جاتا ہے تو جانے دو ، ( کیا آپ نے غور کیا کہ یہی کچھ موجودہ دور میں بھی ہو رہا ہے ) ، لیکن جنگ کے دوران جب انہوں نے دیکھا کہ جو کچھ حکومت ان سے لیتی ہے ، وہ خود انہی کے کاموں پر صرف کررہی ہے تو حکومت نے اگر دس مانگے تو انہوں نے سو دیئے۔


جنگ ستمبر سے پہلے ریل ، تار ، ٹیلیفون ، بجلی ، ہسپتال ، ڈاک خانہ ، غرض یہ کہ عوام کے ہر رفاعی ادارے کے خلاف شکایات کی بھرمار رہتی تھی ، جنگ شروع ہوئی تو ہر ایک کو خدشہ تھا کہ جو ادارے امن کے زمانے میں اس قدر نقائص سے بھرپور ہیں ، جنگ کے زمانے میں نہ معلوم ان کی حالت کیا ہوجائے گی ؟ لیکن حیرت کی انتہا نہ رہی جب انہوں نے دیکھا کہ جنگ کے سترہ دنوں میں ان محکموں کے خلاف کوئی ایک شکایت بھی پیدا نہ ہوئی ، یہ اس قدر حسن و خوبی سے اپنے فرائض ادا کرتے رہے کہ کسی کو اس کا گمان تک نہ تھا ، اور تو اور ، جنگ کے دنوں میں ملک میں جرائم ختم ہوگئے ، کہیں کوئی واردات نہیں ہوئی ، لیکن جنگ کے بعد یہ تمام خرابیاں اس شدت کے ساتھ ابھریں جیسے برسات کی بارش کے بعد مینڈک اور مچھر ہجوم کرکے آجاتے ہیں۔
اِ سی ہجوم میں وہ لوگ بھی یلغار کرکے آگے بڑھ آتے ہیں جن کا مقصد ملک میں ابتری پیدا کرنا اور انتشار پھیلانا ہوتا ہے ۔ یہ حکومت پرتنقید بغرض اصلاح نہیں بلکہ محض اس لیے کہ ریاست کو کسی نہ کسی طرح بدنام کیا جائے ۔ راقم کے اظہاریئے کا مقصد کہ قوم کو مستقل طور پر حالت ِ جنگ میں رکھا جائے تو مقصود جنگ ستمبر کے وہ سترہ دن تھے ،جب سیاست ، ریاست اور عوام سب ایک صفحے پر تھے ۔ جس طرح جنگ کے زمانے میں ریاست اور عوام میں بُعد اور مغائرت نہیں رہی تھی وہی کیفیت پھر سے پیدا کی جائے ، اس کے لیے ضروری ہے کہ ریاست تما م سٹیک ہولڈرز کو اپنے اعتماد میں لے یعنی وہ جو فیصلے کرے ، ان کی غرض و غایت ، علت و حکمت ، اثرات و عواقب ملک پر اس طرح واضح کرے کہ اسے یقین اور اطمینان ہوجائے کہ یہ فیصلے ملک و قوم کی بہتری کے لیے کئے گئے ہیں ۔ اعتماد سازی نہ ہونے کی وجہ سے ہر شخص قیاس آرائی سے کام لیتا ہے اور انہیں قیاس آرائیوں کی بنا پر ، انتشار پسند طبقہ ریاستی اداروں کے خلاف بدظنی پھیلانے میں کامیاب ہوجاتے ہیں۔

==============================================