علیم ہمیں نہ صرف روزگار اور ذریعہ معاش مہیا کرتی ہے بلکہ ہماری شخصیت کو بھی سنوارتی اور نکھارتی ہے

تعلیم ہمیں نہ صرف روزگار اور ذریعہ معاش مہیا کرتی ہے بلکہ ہماری شخصیت کو بھی سنوارتی اور نکھارتی ہے‘ ہمارے کردار کے خدوخال طے کرتی ہے۔تعلیم جمہوریت کا سنگ بنیاد ہے اور کسی بھی قوم کی ترقی کے لیے بنیادی اہمیت کی حامل ہے‘ یہی وجہ ہے کہ تعلیم کی اہمیت اس دور میں پہلے سے زیادہ بڑھ گئی ہے ۔ اس لئے گزشتہ کئی دہائیوں سے تمام طبقوں تک تعلیم کو پہنچانے کے لیے رسمی تعلیم کے ساتھ فاصلاتی نظام تعلیم کا سہارا لیا جا رہا ہے کیوں کہ یہ واحد نظام تعلیم ہے جو نہ صرف آج کے چیلنجزکو قبول کرتا ہے بلکہ کفایتی بھی ہے ان باتوں کا اظہار ریجنل ڈائریکٹر علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی لاہور امان اللہ ملک نے اومیگا نیوز سے فاصلاتی تعلیم کی اہمیت کے حوالے سے کیا ان کا اس موقع پر مزید کہنا تھا فاصلاتی نظام تعلیم کم خرچ میں نہ صرف شرح خواندگی کی توسیع کرتی ہے بلکہ اس میں ایسے مواقع بھی موجود ہیں جو ٹیکنالوجی کی ترقی کے موجودہ دور میں اہمیت رکھتے ہیں۔ روایتی اسکولوں کے نظام، آج کی تعلیم کی بڑھتی ہوئی مانگ کو پورا کرنے سے قاصر ہیں‘ اس کے علاوہ مقابلے کے رجحان کی وجہ سے تعلیمی اداروں کی اجارہ داری لامحدود ہو گئی ہے‘ ایسے ماحول میں تعلیم ایک باقاعدہ جاری رہنے والا عمل نہیں ہو سکتااس کا متبادل صرف فاصلاتی تعلیم ہی فراہم کرتی ہے۔امان اللہ ملک کا نمائندہ اومیگا نیوز کے سوال کے جواب میں کہنا تھا فاصلاتی تعلیم، طلبا کے لیے آسان انٹری لیول فراہم کرتی ہے‘ طلبا اس میں آسانی سے داخلہ لے سکتے ہیں اور اپنی رفتار سے تعلیم حاصل کر سکتے ہیں۔ فاصلاتی تعلیم میں فاصلہ رکاوٹ نہیں بنتا‘ کمپیوٹر، انٹرنیٹ اور دوسرے ذرائع ابلاغ کی آمد نے پوری دنیا کو ایک گلوبل گاؤں بنا دیا ہے۔ اس میں تعلیم کے حصول کے لیے عمر کی کوئی قید نہیں ہوتی‘ فاصلاتی تعلیم میں روایتی کمر ے جماعت نہیں ہوتے جن میں روزانہ طلبا کا حاضرہونا ضروری ہو‘ اس نظام کے ذریعے تعلیم حاصل کرنے والے طلبا کو یہ سہولت حاصل ہوتی ہے کہ وہ دن کے وقت اپنا کام جاری رکھیں اور شام کو کسی کورس میں داخلہ لے کر تعلیم حاصل کریں۔اس نظام کا بڑا مقصد بڑے پیمانے پر لوگوں کو تعلیم دینا ہے۔ خاص طور پر ان لوگوں کو جو دیہاتی علاقوں میں رہتے ہیں اور ان کو تعلیم کے مواقع نہیں ملے ہیں یا وہ اپنی تعلیمی قابلیت میں اضافہ کرنا چاہتے ہیں۔ امان اللہ ملک نے فاصلاتی تعلیم کے اخراجات بارے بتایا کہ اس نظام تعلیم کی خاص بات تعلیمی اخراجات میں کمی ہے‘ یہ نہ صرف تعلیمی مسائل کا سستا حل ہے، بلکہ بعض صورتوں میں حیرت انگیز طور پر موثر بھی ہے۔ اس کا انتظامی ڈھانچہ روایتی نظام تعلیم سے بہت مختلف ہوتا ہے‘ اس نظام تعلیم کے تحت طالب علم ادارے کے پروگرام پر سختی سے عمل کرنے کا پابند نہیں ہوتا۔ اوپن لرننگ سسٹم میں تدریسی مواد بہت معیاری اور سائنٹفک ڈھنگ سے تیار کیا جاتا ہے تاکہ اساتذہ کی کمی کا احساس کم سے کم ہو، ان کا کہنا تھا کہ اکتوبر 1998 تک دنیا کے ایک تہائی ممالک میں 1117 تعلیمی ادارے فاصلاتی نظام تعلیم کے تحت مختلف کورسیز پڑھا رہے تھے اورلاکھوں افراد اس نظام تعلیم سے فیضیاب ہو رہے ہیں۔دنیا کے مختلف علاقوں میں افریقہ کے31ممالک میں 159 ادارے‘ایشیا کے 19ممالک میں 109’آسٹریلیا پیسیفک کے5 ممالک میں 96‘یورپ کے25 ممالک میں 412‘مشرق وسطی کے 3 ممالک میں 3‘شمالی امریکا کے 3 ممالک میں 278‘کیریبین کے 5 ممالک میں 7 اور لاطینی امریکا کے 12 ممالک میں 53ادارے فاصلاتی نظامِ تعلیم فراہم کر رہے ہیں۔بیسویں صدی میں ذرائع ابلاغ میں ایک انقلاب برپا ہوا اور ریڈیو، ٹیلی ویژن، آڈیو ویڈیو کیسٹ اور کمپیوٹر تعلیمی مقاصد کے لیے استعمال کیے جانے لگے۔ اس طرح فاصلاتی تعلیم کی افادیت میں اضافہ ہوتا چلا گیا ہے۔یہ یونیورسٹی پاکستان کا ایک منفرد ادارہ ہے جو میٹرک سے لے کر پی ایچ ڈی تک لوگوں کو زیور تعلیم سے آراستہ کر رہا ہے۔