پاکستان کی 75 ویں سالگرہ ، شعبہ صحت کی ذبوں حالی اور چوہدری پرویز الہی کا

میری بات ۔۔۔مدثر قدیر
پاکستان کی 75 ویں سالگرہ ، شعبہ صحت کی ذبوں حالی اور چوہدری پرویز الہی کا عزم۔
چوہدری پرویز الٰہی پنجاب اسمبلی میں اپنی اکثریت کے بل بوتے پرآخر کار وزیر اعلیٰ بن گئے جس کے بعد پنجاب میں اس بحران کا وقتی طور پر خاتمہ ہو گیا جو گزشتہ تین ماہ سے جاری تھا یہ بحران عدالت کے ذریعے حل ہوا،آئین کے مطابق پنجاب کے عوام کو ان کا حق مل گیا اور اب ووٹ کو عزت بھی ملنی چاہئے۔ چوہدری پرویز الٰہی ایک وضع دار اور ملن جو سیاستدان ہیں وہ اپنے دروازے کبھی بند نہیں کرتے اور انھوں نے اب بھی یہی پالیسی اپنا رکھی ہے ۔ پرویز الہی کے سابق دور حکومت میں ان کا سب سے ذیادہ فوکس صحت اور تعلیم کے سیکٹر پر تھا ان کے دور میں شروع کیے گئے منصوبے جو بدلتی حکومتوں نے پایہ تکمیل تک نہیں پہنچائے ان کا انھیں رنج ہے جس کا اظہار انھوںنے صدر پاکستان ڈاکٹر عارف علوی کے ساتھ ہونے والی ملاقات کے دوران کیا ۔


وزیراعلیٰ چودھری پرویز الٰہی نے کہا کہ فاطمہ جناح انسٹی ٹیوٹ آف ڈینٹل سائنسز منصوبے کی 2005 میں میرے سابقہ دور میں منظوری دی گئی مگربدقسمتی سے ن لیگ کی حکومت نے منصوبے پر کوئی نمایاں پیش رفت نہیں کی اور میرے دور کے شروع کئے گئے دیگر عوامی منصوبوں کی طرح اس پراجیکٹ کو بھی سیاسی عناد کی بھینٹ چڑھایا گیا اب 17 سال گزر چکے ہیں لیکن منصوبہ فنکشنل نہیں ہو سکااورلاگت میں اضافہ ہواایسا کرنا عوام کے ساتھ دشمنی کے مترادف ہے۔صحت عامہ کے منصوبوں کو بروقت مکمل نہ کرنا مجرمانہ غفلت ہے اس موقع پر انہوں نے کہاکہ اللہ تعالیٰ نے مجھے جب بھی عوام کی خدمت کا موقع دیا، صحت عامہ کے شعبہ کو اولین ترجیح دی۔وزیر اعلی پنجاب چوہدری پرویز الہی کے اس عزم کو میں دل وجان سے سراہتا ہوں اور اس حوالے سے کچھ معا ملات پر گزارشات کرنا بھی ضروری سمجھتا ہوں کہ ان کا ویژن صحت کے معاملات میں بڑا واضح ہے اس لیے میں صرف بات کروں گا لاہور شہر کے ہسپتالوں میں عوام کا پیش آنے والے مسائل کی جن پر وزیر اعلی چوہدری پرویز الہی کی نظر ہونا بڑا ضروری ہے لاہور شہر کا داخلی ہسپتال گورنمنٹ ٹیچنگ ہسپتال شاہدرہ جبکہ خارجی ہسپتال جنرل ہسپتال ہے ان دونوں ہسپتالوں کے درمیان میو ہسپتال،سر گنگا رام ہسپتال،سروسز ہسپتال ،جناح ہسپتال ،پنجاب انسٹیٹیوٹ آف کارڈیالوجی اور چلڈرن ہسپتال کے علاوہ درجنوں چھوٹے ہسپتال بھی واقع ہیں جو معمولی سہولیات ہی سے محروم ہیں اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہاگر کوئی جی ٹی روڈ پر روڈایکسیڈنٹ کا شکار ہوجائے تو شاہدرہ ہسپتال میں اس کا سی ٹی سکین ہی نہیں ہو سکے گا کیونکہ سابقہ میڈیکل سپریٹنڈنٹس کی نااہلی کے باعث یہاں پر موجود سی ٹی اسکین مشین گزشتہ ایک سال ہی سے خراب چلی آرہی ہے اب 15 روز قبل یہاں پر ڈاکٹر عامر غفور مفتی کو میڈیکل سپریٹنڈنٹ تعینات کیا گیا ہے جن سے جب میں نے اس حوالے سے سوال کیا تو انھوں نے جواب دیا کہ ابھی میں نے جوائن کیا ہے انشااللہ جلد ہی سی ٹی اسکین مشین کو فنکشنل کردیا جائے گا ۔شاہدرہ ہسپتال سے آپ لاہور شہر کی کی جانب بڑھیں تو میاں منشی ہسپتال آتا ہے جو گنجان آبادی میں موجود ہے یہاں پر مریضوں


 کی فلاح و بہبود کے حوالے سے ٹراما سنٹر کا پراجیکٹ بھی خاصے طویل عرصے سے زیر تعمیر ہے جو ابھی تک محکمہ صحت کی جانب سے فنڈز نہ ملنے کی وجہ سے التواء کا شکار ہے اگر یہ ٹراما سنٹراپنے مقررہ وقت پر تعمیر ہوجاتا تو آپ یقین کریں اس کی وجہ سے عوام کے طبی مسائل کتنی جلد حل ہوتے اس منصوبے میں سی ٹی اسکین مشین کی تنصیب بھی تھی جو اس منصوبے کی سست روی کا شکار ہوگئی ،ٹراما سنٹر تو بنا نہیں مگر پنجاب کی حکومتیں تبدیل ہوئیں جن میں دوبار پی ٹی آئی اور تقریبا دو بار ہی پاکستان مسلم لیگ ن کی حکومت بنی مگر اس ٹراما سنٹر پر کسی بھی حکومت نے سنجیدگی سے کا م نہیں کیا جس کے بعد اب یہ پراجیکٹ سفید ہاتھی بن چکا ہے۔میاں منشی ہسپتال سے آگے بڑھیں تو پاکستان کا تاریخی ہسپتال لیڈی ولنگٹن آتا ہے جہاں پر صوبائی وزیر صحت راشد یاسمین راشد بھی خدمات سرانجام دے چکی ہیں اس ہسپتال میں مسائل ہی مسائل ہیں مگر حل نہیں ہوپارہے ۔ 1930 ء سے قائم پنجاب کے سب سے بڑے گانئی کے ہسپتال کو گزشتہ گئی سالوں سے سینئر ڈاکٹروں سمیت انتظامی عملے کی شدید کمی کا سامنا ہے جس کی وجہ سے علاج معالجہ کا عمل متاثر ہو رہا ہے۔ ہسپتال انتظامیہ کی جانب مسئلہ کی نشاندہی کے باوجود محکمہ صحت کی جانب سے تاحال کوئی شنوائی نہیں کی گئی ا ور نہ ہی ہسپتال کو منظور شدہ سیٹوں پرڈاکٹرز،اینستھیزیا کے ماہرین اور دیگر کنسلٹنٹ و عملے کی بھرتی کی اجازت دی گئی ہے جس کی وجہ سے زچہ وبچہ کو اپنے طبی مسائل کے حوالے سے پریشانی کا سامنا کرنا پڑرہا ہے ۔لیڈی ولنگٹن کے ساتھ کچھ دوری پر گورنمنٹ سید مٹھا ہسپتال اور ڈی مونٹ میرنسی انسٹیٹیوٹ آف ڈینٹل ہیلتھ واقع ہیں جہاں پر اوپی جی ایکسرے اور سی ٹی اسکین مشین کی خرابی آئے روز اخبارات کی زینت بنتی رہتی ہے ۔یہاں سے بڑھیں تو تاریخی میوہسپتال آتا ہے جس پر ادویات کی کمی اور سی ٹی اسکین مشین کی فلموں کی کمیابی کا مسئلہ آئے روز رپورٹ ہوتا ہے جس پر ہسپتال کے چیف ایگزیکٹو آفیسر اور میڈیکل سپریٹنڈنٹ کو بیان جاری کرنا پڑتا ہے جو عوام کی امنگوں کے برخلاف ہوتا ہے اس کی سب سے بڑی وجہ یہاں پر موجود عوام کے رش قرار دیا جاتا ہے جو بلکل ٹھیک ہے کیونکہ اگر آپ مریض کو اس کے گھر کے اردگرد طبی سہولیات فراہم نہیں کریں گے تو وہ سیدھا میو ہسپتال کا رخ اختیا رکرئے گا جس کی وجہ سے اس پر اضافی بوجھ آئے گا ۔ابھی تک میں نے صرف چند بڑے ہسپتالوں کا تزکرہ کیا ہے جہاں پر طبی حوالے سے عوام کو کئی طرح کے مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور شہر کے دیگر بڑے ہسپتال بھی کم و بیش ایسے ہی مسائل کا شکار ہیں جن پر پرائمری ،سیکنڈری اور اسپیشلائزڈ ہیلتھ کئیر کو اہم اقدامات کرنے کی ضرورت ہے مگر جب سیکرٹری صحت ہی اپنے اے سی والے کمرے سے نکل کر ہسپتالوں میں چل رہے مسائل کا جائزہ نہ لیں ،جب وہ اپنے اے سی سے نکل کر کسی بڑے ہوٹل کے ٹھنڈے ہال میں بیٹھ کر عوام کے طبی مسائل پر انگریزی میں بات کریں اور ہوٹل کا بل حکومت دے مگر وہ بل جس کا سیدھا تعلق عوام کی فلاح وبہبود کے حوالےسے ہے یعنی ہسپتالوں میں جاری منصوبوں کو پایہ تکمیل تک پہنچانے اس کو جاری کرنے میں ہر ممکن رکاوٹ پیدا کی جائے اور ایک نمبر عوام کو دیا جائے جس پر جتنی بار بھی کال کرو جواب انتظار کرئیے گا آئے اور بخار کی گولی جس میڈیکل اسٹور سے طلب کرو نہ ملے تو آپ کیسے صحت کے معاملات کو چلا سکیں گے اس لیے وزیر اعلی پنجاب چوہدری پرویز الہی سے درخواست ہے کہ وہ خود ہی میدان عمل میں کود کر عوام کو ریلیف فراہم کریں ۔ پندرہ سال بعد انھیں دوبارہ وزارتِ اعلیٰ کا منصب ملا ہے،وہ ایک منجھے ہوئے سیاست دان اور اچھے ایڈمنسٹریٹر ہیں، اُن کے آنے سے پنجاب کے انتظامی امور میں بہتری آتی ہے اور صوبے کے عوام کو گڈ گورننس ملتی ہے،تو یہ اُن کی بہت بڑی کامیابی ہو گی اور ان کا نام پاکستان کی 75 سالہ تاریخ میں اور پنجاب کی خدمت کے حوالے سے روشن الفاظ میں لکھا جائے گا۔
=====================================================