جشن آزادی۔۔۔۔۔ کشمیری آزادی کا جشن نہیں خواب دیکھ رہے ہیں ۔۔

سچ تو یہ ہے ۔
===============


بشیر سدوزئی

ایک دن کے وقفے سے 14 اور 15 اگست کو ہند و پاک کے عوام آزادی کی پچھترویں سالگرہ بطور جشن منا رہے ہیں جب کہ کشمیری 15اگست کو غلامی میں پچھتر سال مکمل ہونے پر یوم سیاہ منائیں گے ۔جو قوم سمجھتی ہے کہ وہ آزاد ہے اسے قومی دن کو سلیبریٹ کرنا چاہیے یہ ان کا حق ہے لیکن کسی کو یہ حق نہیں کہ وہ دوسرے کی آزادی کو بطور طاقت سلب کرے اور خود آزادی کا جشن بنائے۔ 15 اگست بھی ہر سال کی طرح بھارتی عوام کے لیے یہی سوال چھوڑ کر گزر جائے گا کہ کیا آپ واقعی آزاد اور دنیا کہ سب سے بڑی جمہوریہ ہیں؟ کیا 15 اگست کو آپ


واقعی خوش اور دل سے پچھترویں آزادی کا جشن منا رہے ہیں ۔ مجھے یقین ہے کی ایک ارب چالیس کروڑ انسانوں میں لاکھوں کروڑوں ایسے بھی ہوں گے جو بھارتی سرکار کے کشمیر بیانیہ اور خاص طور پر بھاجپا کے عمل سے نفرت کر رہے ہوں گے اور اس خوشی کے موقع پر بھی ان کے دل گرفتہ ہوں گے۔”دل گرفتہ ہی سہی بزم سجا لی جائے​” کے مصداق افسردہ ہیں لیکن ریاستی طاقت اور ناتھورام گوڈسے کے پیروکاروں کی دہشت کے خوف سے کھل کر اظہار نہیں کر سکتے اس ماحول میں بھی جب ناتھورام گوڈسے کے ماننے والوں نے مقبوضہ کشمیر میں ظلم و ستم اور بھارت میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی انتہاء کر رکھی ہے، ارون وھتی رائے ہو یا برکھا دت اور اس نوعیت کے انسانی حقوق کے کئی اور کارکن کشمیریوں کے جائز حقوق کی بات کرتے ہیں


جس سے کشمیریوں کو کالی رات کے گھپ اندھیرے میں جگنو کے مانند روشنی کی کرن نظر آتی ہے کہ کوئی تو ہے اس سیاہ چادر میں لپٹے معاشرے میں صبح کی نوید سناتا ہے۔ نظریاتی اختلافات کے باوجود یہ کہا جا سکتا ہے کہ گاندھی بڑا لیڈر تھا لیکن اس کی بڑی سوچ کو ہندو انتہا پسند معاشرے نے اسے قتل کر کے کانگریس کے اس بیانیہ کو مسترد کر دیا تھا کہ برصغیر کی تقسیم کے بعد پاکستان بنیاد پرست مسلمان ملک اور بھارت سیکولر ملک ہو گا۔ ابوالکلام آزاد اور اکثریتی مسلم مبلغ کانگریس کے اس فریبی نعرہ میں آ گئے اور ان سب میں شیخ عبداللہ سے بڑی غلطی ہوئی جس کا خمیازہ جموں و کشمیر کے عوام پونی صدی سے بھگت رہے ہیں اور نہ معلوم کب تک انہیں مذید قید خانے اور تقسیم در تقسیم کے عمل میں رہنا ہو گا۔ وقت نے ثابت کیا کہ پاکستان مادر پدر آزاد اور فحاش سیکولر ملک نہیں لیکن پاکستانی عوام کو جب موقع ملا ملاں کی سوچ کو مسترد، جمہوری اور ترقی پسند


سوچ کو تقویت دی۔ ضیاء الحق کے مارشل لا کے علاوہ کبھی عوامی تائید سے بنیاد پرست مولویوں کو اقتدار حاصل نہیں ہوا،لیکن بھارت میں انتہاء پسند اور کٹر ہندوؤں بنیاد پرست نظریات اور خطرے ناک مذہبی دہشت گرد بی جے پی بھاری اکثریت سے جیت رہی ہے۔ لہذا دونوں ملکوں کے درمیان سماجی اور معاشرتی تجزیہ کیا جائے تو نمایاں نظر آتا ہے کہ پاکستان بطور ریاست آج بھی قائداعظم کی سوچ پر کھڑا ہے اور بھارت گاندھی کے نظریات سے بہت دور ہے جس کی ابوالکلام آزاد اور شیخ محمد عبداللہ نے حمایت کی تھی۔ آج جب ناتھورام گوڈسے کے کارکن مقبوضہ جموں و کشمیر سمیت بھارت بھر میں پچھترویں جشن آزادی مناتے ہوئے ولبھ بھائی پٹیل اور ناتھورام گوڈسے کو خراج عقیدت و خراج تحسین پیش کر رہے ہیں تو سری نگر کے خرم پرویز کی ماں اور مسرت زہرہ کا باپ، برہان مظفر وانی کی بہن اور شبیر شاہ کی بیٹی کیا کرے جشن منائے یا سوگ یہ فیصلہ عالمی منصفوں اور بھارتی سول سوسائٹی پر چھوڑتے ہیں کہ کشمیریوں کو وہ کس جگہ کھڑا کرتے ہیں ۔ 15 اگست ان کے لیے کیا دن ہے یوم آزادی یا یوم غلامی، اگر بھارتی قیادت نے اپنے ہی پہلے وزیراعظم نہرو جی کے وعدے کے مطابق کشمیریوں کی مرضی کے مطابق ان سے فیصلہ لے کر جموں و کشمیر کو یونین میں شامل کیا یوتا تو آج سری نگر لال چوک میں


سرخ پتھروں کے بلند مینار پر چڑھ کر کوئی نوجوان ترنگا لہرا رہا ہوتا، اور نیچے ہزاروں نہیں تو سیکڑوں افراد تالیاں بجا کر جشن منا رہے ہوتے لیکن اس پر کیا کہا جائے کہ ناتھورام گوڈسے اور ولبھ بھائی پٹیل کے پیروکاروں نے اپنے ہی وفادار دوست شیخ عبداللہ کا بھی لحاظ نہیں رکھا اور نہ اس کی دوستی اور وفاداری کا پاس رکھا۔ ڈوگرہ ہری سنگھ کے ساتھ عارضی معائدے کو بھی بلڈوز کر دیا اور دعدہ خلافی اور بدعتمادی کر دی۔ وہ جو تھوڑی بہت آزادی اس معائدے کے مطابق بھارتی آئین میں رکھی تھی وہ بھی برداشت نہیں ہوئی ختم کر لی یہ سب جبر سے ہوا اور جبری فیصلے کبھی تسلیم نہیں ہوتے۔ کشمیری تو اپنے لیے اس کو نیک فعال ہی سمجھتے ہیں کہ آرٹیکل 370 بھارتی آئین سے ختم کیا ہوا بھارت سے ان کا ہر رشتہ ٹوٹ گیا، اس آرٹیکل سے کون سی ان کو خود مختاری ملی ہوئی تھی لیکن اس عمل سے مودی جی اور اس مائنڈ سیٹ کے افراد کی نیت ظاہر ہو گئی جو بھارت کے اصل وارث اور مالک ہونے کے دعویدار ہیں۔ جن کا نظریہ ہے کہ ہندو دھرم کو اس دن خطرہ ہو گیا تھا جس دن ہندوستان میں پہلے مسلمان کا پہلا قدم پڑھا تھا اور یہ خطرہ اس دن تک باقی رہے گا جس دن ہندوستان سے


آخری مسلمان کا آخری قدم اکھڑے گا۔ واضح رہے کہ یہاں ہندوستان سے مراد بھارت نہیں بلکہ برصغیر ہے۔ اسی بنیاد پر بھارتی وزیر داخلہ نے حال ہی میں سری نگر میں کہا کہ یہ کیسی تقسیم ہے کہ امرت ناتھ ایک طرف اور شادرہ تہذیب دوسری طرف ہے،یہ سب ایک ہے اسے ایک ہونا چاہیے ۔۔ بلا کوئی بتائے کہ جموں و کشمیر کے عوام آج یوم سیاہ نہیں تو اس دن کو کیسے سلیبریٹ کریں جب وہ گزشتہ تین سال سے لاک ڈاون اور دنیا کے سب سے بڑے قید خانہ میں بند ہیں قید خانے میں بھی کوئی جشن مناتا ہے۔ افسوس ناک امر یہ ہے کہ دنیا بھر میں انسانی حقوق کے کارکنوں کو یہ کیوں نظر نہیں آتا کہ مودی سرکار نے 5 اگست 2019ء کے بعد انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں، پرتشدد کارروائیوں اور غیر کشمیری ہندوں کو کشمیر کی شہریت دینے میں تیزی لائی ہے۔ ممکن ہے یہ سوچ ہو کہ کشمیر میں ہندوں کی آبادی کاری رائے شماری میں مددگار رہے گی جسے بلآخر ہونا ہی ہے۔ اسی لئے اب تک 35 لاکھ بھارتی ہندوؤں کو کشمیر کا ڈومیسائل جاری کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے ۔ 2 لاکھ 86 ہزار وادی کشمیر اور 9 لاکھ 45 ہزار جموں میں آباد ہو چکے۔۔ آج جموں و کشمیر میں یہی افراد بھارت کی آزادی کا پچھترواں جشن آزادی منا رہے ہیں جسے بھارتی میڈیا نمایاں طور پر دیکھا رہا ہے۔ جب کہ کشمیر کے پشتی باشندے اور حقیقی وارث یوم سیاہ منا رہے ہیں جن کی آواز سخت پابندیوں کے باعث مقبوضہ کشمیر سے باہر نہیں آ رہی۔ یوم سیاہ منانے کی معقول وجوہات ہیں۔ نوجوانوں کا قتل اور جبر ریپ، سیاسی کارکنوں کی گرفتاریاں تو عام ہیں ہی، لاپتہ افراد کے دو لاکھ سے زائد رشتہ دار در بہ در کی ٹھوکریں کھا رہے ہیں جگر گوشوں کی گم شدگی کے سبب معاشی مفلوک الحالی کا بھی شکار ہیں جب کے بھارتی فورسز نے کاروبار، اور گھروں کو تباہ کرنے کی پالیسی سے کشمیریوں کی معاشی صورت حال ابتر سے ابتر ہوتی جا رہی ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ لوگوں کو لاپتہ کرنا اور معاشی و معاشرتی عدم استحکام پیدا کرنا نہ صرف مخالفین کو خاموش کرانے کے لئے کیا جا رہا ہے، بلکہ وسیع پیمانے پر غیر یقینی صورت حال اور خوف وہراس پیداکرنے کا ایک حربہ ہے۔ جبری گم شدگیوں سے کشمیر میں اس وقت ہزاروں خواتین ایسی ہیں جو ” نصف بیوائیں “کہلاتی ہیں۔ کشمیر میں 40 ارب ڈالرز کے نقصان سے لوگ معاشی بدحالی کا شکار ہیں ۔ علاقے میں ہزاروں گم نام قبریں دریافت ہوئی، انسانی حقوق کے کارکنوں کو خدشہ ہے کہ یہ قبریں دوران حراست لاپتہ کے گئے افراد کی ہوسکتی ہیں۔مقبوضہ علاقے میں رائج آرمڈ فورسز اسپیشل پاورز ایکٹ ، ڈسٹربڈ ایریاز ایکٹ اور پبلک سیفٹی ایکٹ جیسے کالے قوانین کے تحت بھارتی فوجیوں کو نہتے کشمیریوں کے قتل عام ، اغواء کے بعد گم کرنے اور معاشی و معاشرتی طور پر تباہ کرنے کی کھلی چھٹی ہے اور ان قوانین کی وجہ سے ان کے خلاف کوئی قانونی کارروئی عمل میں نہیں لائی جاسکتی ۔ستم گر نوجونوں


کو بلا وجہ گھروں سے اٹھا کر ٹارچر سیلوں میں تشدد کا نشانہ بناتے ہیں، شہید ہونے کی صورت میں اجتماعی قبروں میں گم کر دیتے ہیں یا لوگوں کو خوفزدہ کرنے کے لئے لائش جنگلوں یا دریاوں میں پھینک دی جاتی ہیں ۔ نثار احمد اور سمیر احمد ڈار کی لائشیں دریائے کشن کنگا سے ملی جو بالترتیب 2018 اور 2019 میں گرفتار کئے گئے تھے۔ان کے اہل خانہ نے اس وقت پولیس میں گم شدگی کی رپورٹ درج کراتے ہوئے بھی خدشہ ظاہر کیا تھا کہ فورسز نے نوجوانوں کو لاپتہ کیا ہے اور انہیں ماورائے عدالت قتل کردیا جائے گا بعد میں ایسا ہی ہوا۔ اسی صورت حال کے پیش نظر کل جماعتی حریت کانفرنس نے 15 اگست بھارت کے یوم آزادی کے موقع پر یوم سیاہ منانے کا اعلان کیا ہے پاکستان آزاد کشمیر چپٹر کے زیر اہتمام بھارتی ہائی کمیشن اسلام آباد کے سامنے دن ساڑھے گیارہ بجے احتجاجی مظاہرہ ہوگا تاکہ مقبوضہ جموں وکشمیر میں بھارتی ظلم وتشدد اور ریاستی دہشت گردی کی طرف عالمی برادری کی توجہ مبذول کرائی جاسکے۔ حریت کے صدر محمود احمد ساغر اور جنرل سیکریٹری شیخ عبدالمتین نے ایک بیان میں عوام سے اپیل کی ہے کہ وہ مصروفیات میں سے وقت نکال کر اس مظاہرے میں شرکت کریں ۔ دریں اثناء چیئرمین ڈیموکریٹک فریڈم پارٹی اور آل پارٹیز حریت کانفرنس کے مرکزی وائس چئیرمین شبیر احمد شاہ نے کشمیری عوام سے اپیل کی ہے کہ 15 اگست کو یوم سیاہ کے طور پر منائیں تاکہ دنیا کو یہ مضبوط پیغام دیا جا سکے کہ کشمیری بھارت کے تسلط اور علاقے پر اس کے غیر قانونی تسلط کو قبول نہیں کرتے۔ تہاڑ جیل سے جاری پیغام میں انہوں نے کہا کہ جس ملک نے لاکھوں کشمیریوں کو ان کے بنیادی حقوق سے محروم رکھا اور ان کی مادر وطن پر قبضہ کرکے ان کی بنیادی آزادیوں کو چھین لیا، اس ملک کے پاس اس بات کا کوئی جواز نہیں کہ کشمیری اس کی خواہش پر یوم آزادی منائیں بھارت نے کشمیر کو کھلی جیل میں تبدیل کر دیا ہے جہاں کشمیری بغیر حقوق کے رہتے ہیں۔ ریاست جموں و کشمیر اور اس کی آبادی کو قابض افواج نے یرغمال بنا رکھا ہے۔ ایسے ماحول میں کشمیری آزادی کا جشن نہیں خواب دیکھ رہے ہیں۔ شبیر شاہ نے پاکستانی عوام اور حکومت کو یوم آزادی پر مبارکباد دی اور کہا کہ کشمیری کشمیر کاز کی مسلسل سیاسی، اخلاقی اور سفارتی حمایت پر پاکستان کے شکر گزار ہیں۔
======================================================