مقام و مرتبہ اہلِ بیت اطہار علیہ السلام

مقام و مرتبہ اہلِ بیت اطہار علیہ السلام

(حصّہ دوم)
===================

عابد حسین قریشی
ڈسڑکٹ اینڈ سیشن جج لاہور (ر)
============================

نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آل و سلم اور اہلِ بیت اطہار ؑ کی محبت و عقیدت میں علامہ اقبال کے اتنے اشعار ہیں کہ یہ ایک دو کالم نہیں بلکہ پوری کتاب پر محیط ہیں۔ مگر یہ سارے اشعار اُن خیالات و افکار کی نمائندگی کر رہے ہیں جو ہر مسلمان کے ایمان کا لازمی جزو ہے۔ بقول اقبال

آں کہ جاں در پیکرِ گیتی دمید
روزگارِ تازہ آئینِ فرید
بانوے آں تاجدارِ ھل اتٰی
مرتضٰی مشکل کشا شیرِ خدا

(حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آل وسلم کی بے مثل ذاتِ گرامی نے دنیا میں تشریف آوری کے بعد ایک بے جان دنیا کو ایک نئی زندگی عطا کی اور ایک دستورِ حیات بخشا اور سیدہ کائنات حضرت فاطمہ الزہرا علیہ السلام کو ھل اتٰی کے مصداق سیدنا علی کی زوجہ محترمہ ہونے کا شرف حاصل ہے جو کہ مرتضٰی ہیں، مشکل کشا ہیں اور شیرِ خدا ہیں۔)

اور پھر علامہ اقبال نے شہید کربلا سیدنا امام حسین ؓ کو یوں خراجِ عقیدت پیش کیا

آں امامِ عاشقاں پورِ بتول ؓ
سرو آزادے زبستانِ رسول
اللہ اللہ بائے بسم اللہ پدر
معنیِ ذبحِ عظیم آمد پسر

( اقبال کہتے ہیں کہ سیدنا امام حسین ؓ بزمِ عشّاق کے صدر نشین اور گلستانِ نبوت کے سروِنونہال ہیں اور آپ ؓ کے والد سیدنا علی ؓ کا مقام و مرتبہ اس طرح ہے جس طرح بسم اللہ کی با ہے اور آپ ؓ کے پسر امامِ عالی مقام کی ذات ذبحِ عظیم جیسی ترکیب سے پہچانی جاتی ہے)

اہل بیت اطہار ؑ سے عقیدت و محبت رکھے بغیر کسی مسلمان کا ایمان مکمل ہی نہیں ہو سکتا۔ کیونکہ آقا کریم صلی اللہ علیہ و آل وسلم کے اتنے فرمودات عالی شان اس بابت موجود ہیں کہ کوئی ذی ہوش مسلمان ان سے صرفِ نظر نہیں کر سکتا۔آقا کریم صلی اللہ علیہ و آل وسلم کا یہ فرمان کہ “جسکا میں مولا اس کا علی مولا” زبان زدِ عام ہے۔ اور کوئی بھی اس سے منکر نہیں کہ یہ اعلان سینکڑوں صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین کی موجودگی میں فرمایا گیا اور پھر آقا کریم صلی اللہ علیہ و آل وسلم کا یہ فرمان کہ “حسین ؓ مجھ سے اور میں حسین ؓ سے ہوں” اور “جس نے حسین ؓ کو دکھ دیا اُس نے مجھے دکھ دیا” ببانگِ دہل یہ اعلان ہے کہ حسین علیہ السلام کو آقا کریم صلی اللہ علیہ و آل وسلم سے کیا نسبت ہے۔ اور سیدنا حسین علیہ السلام کا مقام و مرتبہ ہمارے پیارے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آل وسلم کی نظر میں کیا ہے۔ اسی طرح اپنی نہایت عزیز اور پیاری دختر فاطمہ الزہرا کی شان اقدس میں بے شمار فرامینِ رسول صلی اللہ علیہ و آل وسلم اور بے شمار خوبصورت و دلکش واقعات سیرت رسول صلی اللہ علیہ و آل وسلم میں جگہ جگہ مہک رہے ہیں۔

اہل بیت اطہار ؑ کی جو نسبت نبی آخر الزامان حضرت محمّد مصطفٰے صلی اللہ علیہ و آل و سلم کی ذات اقدس سے ہے اور پھر اُن کے نہایت اعلٰی و ارفٰع اور پاکیزہ اطوار اور اُنکی منفرد نجابت و سعادت میں پنہاں ہیں جو نہ صرف عدیم النظیر ہیں بلکہ مخلوقاتِ عالم میں یگانہ ہیں۔ اور یہ بات باعثِ مسرت ہے کہ اہل بیت اطہار ؑ صدفِ امکان کے وہ تابندہ و درخشندہ موتی ہیں جن کی مہک سے گلستانِ کائنات میں ہر سُو بہار ہے۔


آج کا مسلمان اگر علمی، دینی ، روحانی، اور دنیاوی لحاظ سے کوئی مقام، کوئی سرخروئی چاہتا ہے تو اُسکی نسبت اہلِ بیت اطہار ؑ سے جڑی ہونا ضروری ہے۔ اہلِ بیت سے بغض یا عناد رکھ کر صرف رسوائی ہی مقدّر ہو سکتی ہے۔ اور یہ فعل اُن آقا کریم صلی اللہ علیہ و آل وسلم کی ناراضگی کا سبب بھی بن سکتا ہے کہ جن کے سجدہ ہائے نیاز سے اور نالہ ہائے جگر گداز سے شبِ تاریک سے صُبح نور فروزاں ہوئی۔ کہ جن کے وجودِ پاک سے محذول و مردود معاشرہ کو حیات جاودانی نصیب ہوئی بلکہ سچ تو یہ ہے کہ اس مرقّع دلبری و زیبائی کی نُوک مژگان پر لرزتا ہوا ایک آنسو اس سارے عالم سے قیمتی اور بیش بہا ہے۔ اور تمام دنیا کے بادشاہوں کے خزانوں کے قیمتی موتی، علوم، معارف اور اسرار و لطائف اُس مقام و مرتبہ کا کیسے مقابلہ کر سکتے ہیں جو اللہ تعالٰی نے اپنے اس پیارے نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آل وسلم کو عطا فرمائے۔ ربِ کریم نے ذاتِ مصطفٰے صلی اللہ علیہ و آل وسلم کو اور اُنکے وسیلہ جلیلہ کے توّسط سے اُنکی آل پاک صلی اللہ علیہ و آل وسلم کو قیامت تک آنے والوں کے لیے منبع فیض و رحمت اور مصدرِ رشد و ہدایت بنایا ہے۔ اور اُس نے اپنے محبوب صلی اللہ علیہ و آل وسلم اور اُسکی آل پاک کی ردائے رحمت کو اتنا وسیع کیا ہے کہ ساری کائنات اُنکے زیرِ سایہ ہے۔


اللہ تعالٰی نے اپنے محبوب کریم صلی اللہ علیہ و آل وسلم کے اہل بیت اطہار کو جن کمالات، خصالِ حمیدہ اور اعمالِ رشیدہ سے مشرّف فرمایا ہے اور پھر اُنہیں جن مراتبِ عالیہ اور مقاماتِ رفیعہ پر سرفراز کیا ہے یہ بس اسی خاندان کا مقام و مرتبہ ہے۔

مقامِ اہل بیت اطہار ؑ صرف الفاظ کا گورکھ دھندہ نہیں۔ یہ قلب و نظر پر انمٹ نقوش چھوڑنے والی اُس کیفیت اور وارفتگی کا نام ہے کہ جو عقل و فہم کے سارے دریچے اس خوبصورتی سے وا کرتی ہے کہ دل و دماغ مہک اور چہک جاتے ہیں۔ اس سے بڑی انسانی متاع کیا ہو سکتی ہے کہ اگر ایک مسلمان کے دل و دماغ پر اہل بیت کے ساتھ محبت و الفت اور عقیدت و وارفتگی کی مُہر ثبت ہو۔ یہی مُہر تو اُسکی دینی و دنیوی اور اُخروی منازل کا تعین کرتی ہے۔ یہی تو اُسکے لیے حاصلِ زندگی ہے۔ یہی تو اُسکے لیے فخر و مباہات کا ذریعہ ہے۔ یہی تو ثمرِ حیات اور یہی تو کامرانی و کامیابی حیات ہے۔ یہی تو اُسکا تعارف ہے۔ اور یہی تو اُسکی شناخت و پہچان ہے۔ اہل بیت اطہار ؑ کی محبت و عقیدت کے چشمہ شیریں سے جس نے اپنی پیاس بجھائی وہی تو حوضِ کوثر پر جامِ کوثر کا حقدار ہو گا۔ اُسکی تشنہ لبی کو سرکارِ کائنات صلی اللہ علیہ و آل وسلم اپنے ہاتھوں سے سیراب فرمائیں گے۔ جب ہر طرف ہزن و ملال کے مہیب سائے چھائے ہوئے ہونگے تو یہی محبتِ اہلِ بیت اطہار ؑ ہی تو راحت و طمانیت اور فرحت و انبساط سے شادکام رکھے گی۔ انشاء اللہ۔

=====================================