امن مارچ


ڈاکٹر توصیف احمد خان
====================

بھارت کے تین سماجی کارکن جنون کی اس فضاء میں امن مارچ کے لیے کراچی پہنچ گئے۔ ان لوگوں نے کراچی کے علاقہ قصرِ ناز سے کراچی پریس کلب تک امن مارچ کیا۔

ملک کی سول سوسائٹی کے نمائندوں ، بھارت اور پاکستان کے درمیان امن اور عوام کے درمیان رابطوں کے لیے جدوجہد کرنے والے امن کے شیدائی ان تینوں افراد سے یکجہتی کے لیے اس مارچ میں شریک ہوئے۔ ایس نینن، وشوا مترا اور جلائنڈ ہرناتھ گاندھی جی کے عدم تشدد اور فلسفہ کے امین ہیں اور پوری دنیا میں اس کا پرچار کر رہے ہیں۔

سابق وزیر اعظم عمران خان کے دور اقتدار میں پاکستان اور بھارت کے تعلقات سرد مہری کی آخری سطح کو عبور کرگئے تھے۔ بھارتی حکومت نے جب جارحیت کا مظاہرہ کرتے ہوئے کشمیر کے بارے میں بھارتی یونین کے آئین کی شق 378 کو ختم کرکے اس کی خصوصی حیثیت ختم کی تھی تو پاکستان کی حکومت نے احتجاجاً اور کشمیریوں سے اظہار یک جہتی کے لیے بھارت سے تعلقات کو منفی صفر درجہ تک پہنچایا تھا۔ بھارت میں مذہبی جنونیت کے خوفناک مناظر روزمرہ کا معمول بن گئے تھے۔ بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کے بیانات نے فضا کو مسلسل کشیدہ رکھا۔
شہباز شریف حکومت کے قیام کے بعد تعلقات میں سرد مہری میں کچھ نرمی آئی۔ پاکستان کی حکومت نے ان تینوں بھارتی باشندوں کو پاکستان آنے کے لیے ویزا دیا اور کراچی میں امن مارچ کرنے کی اجازت دی۔ یہ تینوں افراد مہاتما گاندھی کے عدم تشدد اور انسانوں کے درمیان دوستی کے مشن کو آگے بڑھانے کے لیے دنیا کے مختلف ممالک میں پیدل امن مارچ کرچکے ہیں۔

ایس نینن بنیادی طور پر انجینئر ہیں اور سوشل ورکر ہیں۔ انھوں نے گزشتہ 5برسوں کے دوران 46ممالک میں پیدل امن مارچ کیا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ سچا مذہب وہ ہے جو دنیا کے انسانوں کو متحد کرے۔ ان کا کہنا ہے کہ بچے انسانیت کا مستقبل ہیں، وہ بچوں کو مہاتما گاندھی کے عدم تشدد کے فلسفہ سے آگاہ کرنا چاہتے ہیں۔ وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ معاشرہ میں برداشت اور درد کا رشتہ ہونا چاہیے اور اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ معاشرہ سے ناانصافی ، کسی بھی قسم کا امتیاز اور عدم مساوات اور ماحولیاتی آلودگی کا خاتمہ ہونا چاہیے۔ جلائنڈ ہرناتھ بنیادی طور پر امن کے داعی ہیں۔ وہ بنیادی طور پر مہاتما گاندھی کے آشرم میں رہتے ہیں۔

ان کا شمار ایک اچھے گلوگار، موسیقار اور مجسمہ ساز میں ہوتا ہے۔ وہ بھارت کے مختلف علاقوں میں جا کر امن کے گیت گاتے ہیں۔ انھوں نے 2018ء میں گاندھی جی کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے طویل فاصلہ پیدل طے کیا اور تین ممالک میں امن کے پیغام کے لیے پیدل مارچ کیا تھا۔ ان تینوں افراد نے 2018 میں گاندھی جی اور منڈیلا کے نقش قدم پر عمل پیرا ہوا کر جنوبی افریقہ میں 1450 کلومیٹر کا فاصلہ امن کے بینر اٹھائے پیدل طے کیا تھا۔ یہ لوگ 22جولائی 2022 کو واہگہ کے راستہ پیدل پاکستان میں داخل ہوئے، ریل کے ذریعہ کراچی آئے۔


ان کا ارادہ ہے کہ شکارپور سے ہوتے ہوئے لاہور جائیں گے اور 14اور 15اگست کی رات کو دونوں ممالک کی آزادی کا دن منائیں گے۔ ان تینوں افراد نے بھارت اور پاکستان کی حکومتوں سے اپیل کی ہے کہ ویزا کا عمل آسان اور تیز کیا جائے تاکہ عام آدمی کے ایک دوسرے کے ملک جانے کا عمل آسان، تیز اور سستا ہوجائے۔

رینا چھاپرا 1930 میں متحدہ ہندوستان میں راولپنڈی میں پیدا ہوئیں۔ تقسیم کے بعد و ہ اپنے خاندان کے ساتھ بھارت چلی گئیں۔ ان کی آخری خواہش تھی کہ زندگی میں ایک دفعہ اپنا آبائی گھر دیکھ لیں جہاں ان کا بچپن گزرا تھا۔ حکومت پاکستان نے اس بوڑھی عورت کی خواہش کا احترام کیا اور میڈم رینا کو پاکستان آنے کا ویزا دیا۔ رینا راولپنڈی آئیں، وہ اپنے آبائی گھر گئیں۔ اس گھر کے مکینوں نے رینا کا پرجوش استقبال کیا۔ رینا کی خواہش تھی کہ وہ ایک رات اپنے آبائی گھر میں اسی کمرہ میں گزاریں جہاں ان کا بچپن گزرا تھا۔ اس مکان کے مکینوں نے ان کی اس خواہش کا احترام کیا۔


رینا کو اپنے بچپن کی یادیں تازہ کرنے کا موقع ملا۔ رینا کہتی ہیں کہ انھیں اپنے والدین ، بہن اور بھائی یاد آئے۔ وہ مری بھی گئیں جہاں کبھی ان کے ایک قریبی عزیز کا ہوٹل تھا۔ یہ ہوٹل اب بھی موجود ہے۔ رینا نے امرتسر پہنچ کر کہا کہ’’ ان کے پاس الفاظ نہیں ہیں کہ وہ پاکستانی شہریوں کا شکریہ ادا کریں۔ ‘‘رینا کہتی ہیں کہ’’ وہ ہمیشہ یہ کہتی رہیں کہ میرا ہوم ٹاؤن راولپنڈی میں ہے‘‘ وہ یہ بھی کہتی ہیں کہ’’ وہ لوگ جو تقسیم سے پہلے پیدا ہوئے ان کے لیے ضرور ویزے کی پابندیاں ختم ہونی چاہئیں۔‘‘ رینا نے بتایا کہ وہ بچپن کی یادوں میں کھو گئی تھیں۔

وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری ،وزراء خارجہ کانفرنس میں شرکت کے لیے ازبکستان گئے، دارالحکومت تاشقند گئے۔ اس کانفرنس میں بھارت کے وزیر خارجہ جے کرشن بھی موجود تھے۔ اخبارات میں شائع ہونے والی خبروں سے ظاہر ہوتا ہے کہ بلاول بھٹو زرداری اور جے کرشن کے درمیان کانفرنس کے دوران ملاقات نہیں ہوئی مگر بلاول بھٹو نے تاشقند میں بھارت کے ٹی وی سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ بدقسمتی سے بھارت ہمارا پڑوسی ہے اور ہم پڑوسی کو تبدیل نہیں کرسکتے۔ آپ زندگی میں بہت سی چیزوں کا انتخاب کرسکتے ہیں مگر اپنے پڑوسی کو تبدیل نہیں کرسکتے۔ پاکستان اور بھارت ایسی ہی فیملی کے ارکان ہیں اور وزیر خارجہ کونسل کی وسیع تر اسکیموں میں شامل ہیں۔ بلاول نے اس انٹرویو میں اس بات کی تردید نہیں کی کہ ان کی بھارتی وزیر خارجہ سے ملاقات ہوئی ہے۔

یوکرین اور روس کی جنگ کے ختم ہونے کے امکانات نہ ہونے کے برابر ہیں مگر اس جنگ کے اثرات پوری دنیا پر پڑے ہیں۔ اس جنگ کے اثرات پاکستان اور بھارت پر بھی پڑے ہیں۔


پاکستان میں بجلی، گیس اور پیٹرول نے عام آدمی کی کمر توڑدی۔ حکومت کو عالمی مالیاتی ادارے آئی ایم ایف سے ایک ارب ڈالر کی امداد کے لیے بنیادی اشیاء پر سبسڈی واپس لینی پڑی مگر ابھی یہ بات واضح نہیں کہ آئی ایم ایف اگست میں پاکستان کو امداد فراہم کرے گا۔ پاکستان کے ڈیفالٹ ہونے کے خطرات بڑھ رہے ہیں۔ پاکستان اور بھارت کے درمیان تجارت بند ہونے کا زیادہ نقصان پاکستان کو ہوا ۔ پاکستان بھارت سے ادویات، پھل، سبزیاں اور آئی ٹی کے آلات اور ادویات درآمد کرتا تھا۔ کتے کے کاٹنے کی ویکسین بھارت سے آتی تھی۔ تعلقات میں کشیدگی پیدا ہونے سے علاج کے لیے بھارت جانے والے مریضوں کی زندگی داؤ پر لگ گئی۔

پاکستان کی نئی حکومت نے امن مارچ کرنے والے تین افراد اور 90 سالہ خاتون کو ویزا جاری کرکے حالات کو معمول پر لانے کی کوشش کی ہے جس سے بھارت سمیت دنیا بھر میں پاکستان کا انسان دوست چہرہ ابھر کر سامنے آیا ہے ، اگر کشمیر میں وزیر اعظم شہباز شریف اور وزیر اعظم مودی شنگھائی کانفرنس میں شرکت کے لیے چین کے صنعتی شہر شنگھائی جائیں تو دونوں وزراء اعظم کی ملاقات ضروری ہے۔ پاکستان کے بھارت سے تعلقات معمول پر آئے تو اقتصادی بحران کم ہوگا۔

===========================================
https://www.express.pk/story/2358336/268/
=================================