سیاست دانوں کے عصابی جنگ کا آخری معرکہ شروع؟

سچ تو یہ ہے۔

=========
بشیر سدوزئی،
=========

پاکستان کے اکثر سیاسی تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ شہباز شریف اس وقت رضیہ کی طرح ہے جو پاکستان کے سارے سیاسی ۔۔۔۔ کے حصار میں ہے، لیکن میری رائے میں دنیا کرکٹ کا لیجنڈ عمران خان اپنے سیاسی کھیل کی آخر انگ کھیل رہا ہے حالات اس کے لیے ابھی بھی ساز گار ہیں کہ میچ پھنسا ہوا ہے۔ پاکستان میں گزشتہ ڈیڑھ عشرے سے جاری سیاسی کش مکش کا آخری محرکہ شروع ہو چکا دراصل یہ عصابی جنگ ہے جو برداشت کر گیا رستم پاکستان وہی ہو گا۔۔ وائلڈ کپ کا فاتح عمران خان جو اس کھیل میں 2013 میں داخل ہوا یا داخل کیا گیا، کے لیے یہ مرحلہ بہت اہم ہے کہ وہ ذوالفقار علی بھٹو کی طرح پاکستانی سیاست کا بھی فاتح ہوتا ہے یا نواز شریف کی طرح ضد اور ہٹ دھرمی کے باعث ناکام پویلین لوٹتا ہے۔ کرکٹ اور سیاست ہیں

تو کھیل ہی مگر دونوں کے میدانوں کی طرح اصول اور قوانین بھی الگ الگ ہیں۔ یہ بھارت نہیں کہ سیاست کا میدان کھلاڑیوں، فن کاروں اور ادیبوں کو بھی موافق آئے۔ یہاں ہر شعبہ کی طرح سیاست میں بھی مافیا گروپ ہیں جن کو توڑنا جان جوکھوں کا کام ہے۔ 14 اگست کو آزادی کے پچھتر سال مکمل ہو رہے ہیں۔ پچھتر سال میں سیاست اور جمہوریت کا اونٹ کسی کروٹ نہیں بیٹھ سکا ۔ ہم لاکھ اس کا الزام ڈکٹیٹرز کو دیں لیکن حقیقت تو یہی ہے کہ ان پچھتر برسوں میں سیاست اور جمہوریت نہیں سیاست دان ناکام رہے جو نہ جمہوری ہیں نہ سیاسی۔یہ لوگ سیاسی تدبر، برداشت اور مکالمہ کی صلاحیتوں سے عاری رہے۔ اسی بنا آج تک پاکستان میں کوئی سیاسی پارٹی جمہوری نہیں ہو سکی۔ جماعت اسلامی کے سوائے ساری جماعتیں خاندانی لمیٹڈ کمپنی ہیں جو سیاست نہیں تجارت کرتی ہیں۔ جن میں خاندان کے افراد مالکان اور باقی ملازمین کی طرح ہیں۔ عمران خان کا یہی قصور ہے کہ اس نے نظام کے خلاف آواز بلند کی جو دراصل پاکستان کے طاقت ور خاندانوں کو چیلنج کرنے کے مترادف ہے۔ اگر ان پچھتر برسوں کے دوران ملک معاشی طور پر کمزور ہوا ہے تو یہ خاندان اپنے مقصد میں کامیاب رہے جن کے پاس دولت کے انبار لگے ہوئے ہیں، اسی دولت کا کمال ہے کہ دنیا بھر کی جمہوری معاشرے میں لوٹے کی استطلاع صرف پاکستان میں ایجاد ہوئی اور اتنی مقبول بھی کہ اب اس پر شاعری لکھی جانے لگی اور گلوکار ہزاروں لاکھوں کے مجمھے میں گا کر داد و نوٹ وصول کرنے لگے ہیں ۔ حال ہی میں مقبول عام گانا منظر عام آیا جو سوشل میڈیا پر وائرل ہوا ” کتنے دا وکیاں ایں لوٹیا” ۔ان کے مفادات کا ہی تقاضہ ہے کہ یہ سیاسی تاجر کسی نئے کو اس کاروبار میں داخلے کا راستہ نہیں دیتے اور نہ کسی نئے کھلاڑی کو اس میدان میں داخل ہونے دیتے ہیں ۔ اگر کوئی داخل بھی ہو گیا اس کو کھڑا رہنے کے لیے زور لگانا پڑتا ہے ۔یہ ہی زور آوری سیاسی دھنگل ہے جو گزشتہ ڈیڑھ عشرے سے پاکستان میں جاری ہے۔ جب پہلے سے موجود زر کاروں کو اندازہ ہوا کہ عمران خان نئی سوچ اور نئے کھلاڑی کے طور پر سیاست میں داخل ہو رہا ہے تو


ان سب نے اس کا راستہ روکنے کے لیے مولانا فضل الرحمن کی میت میں حصار بنا لیا اور شہباز شریف چاند کی مانند ڈیڑھ درجن سے زائد ستاروں کے حصار میں کھڑا ہے۔ اس طرح کا ایک دائرہ مولانا فضل الرحمن کے والد محترم مفتی محمود نے بھی نو ستاروں کے ساتھ بھٹو کے خلاف قائم کیا تھا اور آج کے حصار میں بھی انہی کی باقیات شامل ہیں ۔ مفتی محمود صاحب اس وقت کے بڑے مولانا تھے سو اس کا حصار بھٹو کی پھانسی پر ختم ہوا۔ ممکن ہے مولانا فضل الرحمن عمران خان کو پھانسی گھاٹ تک پہنچانے میں کامیاب نہ ہو کیوں کہ مولانا طفیل محمد کی طرح سراج الحق ان کے ساتھ نہیں البتہ قیاس قرون ہے کہ مولانا اس پوزیشن میں پہنچ چکے کہ عمران خان کو جیل میں ٹھوس دیں۔ گو کہ اس وقت پاکستان کے سیاسی میدان میں عمران خان سے شریف خاندان ہی پنجہ آزمائی کر رہا ہے جس نے میثاق جمہوریت کے تحت سندھ زرداری اور پہنجاب خود سھنبال کر کے پی کے اور بلوچستان اتحادیوں میں تقسیم کر کے یہ سوچ رکھا تھا کہ اب ان کے مسائل حل ہو گئے لیکن یہی بات پہنجاب اور کے پی کے کے عوام کو بری لگی اور عمران خان کو سر پر اٹھا لیا۔ اس خوف میں سب اگٹھے تو ہوئے لیکن عمران خان کی ناتجربہ کاری نے اس غیر فطری اتحاد کو زیادہ مضبوط اور مستحکم بھی بنا لیا۔ یہ عمران خان کا خوف ہی تو ہے کہ بلاول بھٹو زرداری کو ایسے افراد کے زیر سایہ بیٹھنا پڑا جنہوں نے اس کی ماں کی ذاتی کردار کشی میں کوئی موقع اور ہتھیار نہیں چھوڑا ۔۔۔ عمران خان اس وقت پاکستان کی تاریخ کا سب سے زیادہ مقبول ہے۔ یہاں میں دانستہ لیڈر کا لاحقہ نہیں لگا رہا کیوں کہ ابھی تک وہ قیادت کی اس سوچ پر نہیں پہنچ سکا جو تیسری دنیا کے ملکوں کے لیڈروں کے لیے ضروری ہے ۔۔ تاہم ضروری نہیں کہ وہ اس مقبولیت کو برقرار بھی رکھ سکے جو ہجوم آج کل اس کے ساتھ چل رہا ہے۔ ہم نے اس سے زیادہ ہجوم لیاقت آباد اور برنس روڑ پر دیکھا جو کبھی فاطمہ جناح، کبھی ائرمارشل اصغر خان کبھی بھٹو اور کبھی قائد تحریک کے


گرد جمع تھا لیکن نتائج سے تو قوم واقف ہے کہ ان لیڈروں کو عوام کے ہجوم سے ایسے باہر نکالا گیا جیسے مکھن سے بال ۔ البتہ سیاسی تدبر ہی سیاسی لیڈر کی مقبولیت کو زندہ رکھ سکتا ہے اور وہ ہے صبر اور برداشت ۔ عمران خان حکومت کے دوران ملک کو ایک مثالی جمہوری معاشرہ بنانے میں ناکام ہی رہے جس کی بنیاد مضبوط بلدیاتی اداروں، اسٹوڈنٹس اور ٹریڈ یونین سے ہی ممکن ہو سکتا ہے۔ لیکن اب تدبر اور برداشت کا امتحان بھی شروع ہو چکا۔ اس امتحان کا سب سے مشکل پرچہ یہی ہے کہ وہ مقبولیت کے گراف کو بحال رکھیں ۔ عمران خان کے مخالفین تو میدان عمل میں شکست کھانے کے بعد اب روایتی ہتھکنڈوں کو آزمائیں گے تاکہ عمران خان جس عوامی ریلے پر سوار ہے وہ آستہ آستہ گسکنا شروع ہو او عمران ڈھڑم سے زمین پر گرے۔ اس کے لیے انہوں نے مختلف طریقے اور حربے اپنانے شروع کر دئیے ہیں شہباز گل کا پورا واقع اسی کے گرد گھومتا ہے۔وہ ایسے اقدامات کریں گے کہ عمران اور اس کے ساتھی مشتعل ہوں۔ پی ٹی آئی کے کارکنوں اور ملکی اداروں کو آمنے سامنے کھڑا کیا جائے۔ سیاسی تدبر اور سنجیدگی کا تقاضہ ہے کہ سیاسی کارکنوں کو سیاست تک محدود رہنا جائے اداروں کے ساتھ لڑائی میں پڑھنے سے نقصان آنہی کا ہے۔ بے قابو سوشل میڈیا کے دور میں کارکنوں کو کنٹرول کرنے کا یہی طریقہ ہے کہ قیادت پالیسی جاری کرے کہ کارکن صرف ایسے مواد کو ٹرینڈ بنائیں جو مرکزی میڈیا سیل سے جاری ہو اس کے علاوہ کسی بھی ٹرینڈ یا مواد اور اس کو چلانے والوں سے عمران اور پارٹی لاتعلقی کا اعلان کرے۔ اگر مسلم لیک ن اور اس کے اتحادی پی ٹی آئی کو ملکی اداروں کے سامنے لانے میں کامیاب ہو جاتےہیں تو عمران خان کی مقبولیت اور پی ٹی آئی کی سیاست کا جنازہ آج ہی پڑ لینا چاہیے۔ پاکستان کے عوام اپنے اداروں کے سامنے کبھی کھڑے نہیں ہوے نا ہوں گے حتی کہ مارشل لا کے بدترین دور میں بھی صرف ایک فرد پر تنقید کی جاتی رہی ادارے پر نہیں۔ لہذا عمران خان ہو یا کوئی اور انہیں اچھی طرح یاد رہنا چاہئے کہ پاکستانی عوام اداروں کے نہ کبھی خلاف ہوں گے اور نہ ان کی تضحیکی مہم میں شامل ہوں گے ۔ پی ٹی آئی کو اسی حد تک رہنا چاہیے جس کا تعین کیا گیا ہے۔مسلم لیگ ن جو نواز شریف کی صورت میں قیادت سے محروم ہو چکی،جس کا خلاء کوئی پر نہیں کر سکا۔ اس کی حتی الامکان کوشش ہو گی کہ اپنی طرح پی ٹی آئی کو بھی قیادت سے محروم کر دیا جائے۔ یہ عمران خان کے سیاسی تدبر کا امتحان ہے کہ مضبوط دیواروں کے ساتھ سر ٹکرا کر پاش پاش ہوتا ہے کہ کچھوے کی چال کی طرح وقت گزارتا اور میدان میں موجود رہتا ہے۔ یہ اس لیے بھی ضروری ہے کہ جس ایمپائر کی سہولت کاری میں وہ 2013 سے میچ کھیل رہا تھا وہ اب اس کے سر پر نہیں، لیکن بقول چوہدری پرویز الہی عمران خان کو محسنوں کو نہیں بھولنا چاہیے۔ بھول کر اس حد تک نہیں جانا چاہئے کہ بات بد تہذیبی تک پہنچے البتہ پویلین میں موجود خلق خدا تماشائی نہیں عمران خان کے حمایتی بن چکے۔

ان کو دلاسہ دینے کا عمران خان کے پاس ایک ہی راستہ ہے کہ 2013 کے راستے پر واپس آ جائے اس میں جو رکاوٹیں آ گئی ہیں ان کو ہٹانے کے لیے اس کے پاس افراد ابھی موجود ہیں اس سے پہلے کہ وہ پلٹ جائیں عمران خان کو پلٹ چانا چاہیے ورنہ میدان اور پویلین دونوں ہاتھ سے جائیں گے اور بعد میں ہاتھ ملنے سے آگ نہیں نکلے گی۔۔۔۔
=================================