کیا سستے اور مہنگے ڈالر کی خریدوفروخت میں بینکوں نے اربوں روپے کمائے ؟ ڈالر اور روپے کی لڑائی کو سانپ سیڑھی کا کھیل کس نے بنایا؟ سچ کو اگلوائے ؟

کیا سستے اور مہنگے ڈالر کی خریدوفروخت میں بینکوں نے اربوں روپے کمائے ؟ ڈالر اور روپے کی لڑائی کو سانپ سیڑھی کا کھیل کس نے بنایا؟ سچ کو اگلوائے ؟

پورے ملک میں بحث چل رہی ہے کہ ڈالر کی قیمت کہاں رکے گی ؟ کیا ڈالر دوبارہ دو سو روپے سے نیچے آئے گا ؟ حکومت اس سے نیچے لانے کی کوشش تو کر رہی ہے آئی ایم ایف سے آنے والے قرضے کی رقم اور کچھ دوست ملکوں سے انتظام ہو گیا تو صورتحال بہتر ہو جائے گی ۔


پہلے اسحاق ڈار سے امید لگائی گئی تھی لیکن وہ ابھی تک وطن واپس نہیں آ سکے ۔کیوں اس تحریر کا جواب تو وہ خود ہی دے سکتے ہیں ؟
دوسری طرف مفتاح اسماعیل پر سارا بوجھ پڑا ہوا ہے کیا ان کے نازک کندھے اتنا بوجھ اٹھانے کے قابل ہیں ؟ ان کے بارے میں ماہرین مایوسی کا اظہار کر رہے


ہیں اور مشورہ دے چکے ہیں کہ بہتر ہوگا وہ جائیں اور اپنی کمپنی کی ٹافیاں بیچیں ۔ ڈالر کو قابو کرنا ان کے بس کی بات نظر نہیں آتی ۔
گورنر اسٹیٹ بینک کی تقریریں پر مسلم لیگ نون کے اندر گروپنگ ہوگئی ہے پیپلزپارٹی اپنا امیدوار آگے کر رہی ہے مارکیٹ میں دو تین نام گردش کر رہے ہیں پنجاب بینک کے صدر بھی مضبوط امیدوار کے طور پر میدان میں ہیں ۔مسلسل کے سیاسی عدم استحکام اور غیریقینی نے


اسٹاک مارکیٹ اور بزنس مین کو پریشان کر رکھا ہے سرمایہ کار حالات کا جائزہ لے رہے ہیں جب تک حکومت آئی ایم ایف اور دوسرے ملکوں سے اربوں ڈالر حاصل نہیں کر لیتی ڈالر کی اوپر نیچے دوڑ کو کنٹرول کرنا کسی کے لیے بھی آسان نظر نہیں آتا ۔


جب یہ حکومت آئی تو ملک پاکستان کا کہنا تھا کہ ڈالر دو سو سے اوپر نہیں جائے گا یہ حکومت کنٹرول کرلے گی لیکن پھر صورتحال کنٹرول سے باہر نکل گئی اور اب کوشش کی جا رہی ہے کہ ڈالر کو 210 یا 215 تک لایا جائے ۔ یہ کوششیں کب اور کتنی کامیاب ہوتی ہیں اس کا فیصلہ آنے والا وقت کرے گا ۔
=========================================

بینکوں پر ڈالرز کی سٹے بازی کا الزام درست نہیں: مفتاح اسماعیل

کراچی: وفاقی وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل کا کہنا تھا کہ بینکوں پر ڈالرز کی سٹے بازی کا الزام درست نہیں، مارکیٹ میں طلب و رسد کے تناسب سے ڈالر کی قدر میں اتار چڑھاؤ ہوا۔

تفصیلات کے مطابق وفاقی وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل کراچی میں پاکستان اسٹاک ایکسچینج پہنچے جہاں انہوں نے روایتی گھنٹہ بجا کر کاروبار کا آغاز کیا۔

اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے وزیر خزانہ کا کہنا تھا کہ بینکوں کو بتانا چاہتا ہوں کچھ غلطی ہوئی جسے ٹھیک کیا جارہا ہے، 7.7 ارب ڈالر امپورٹ بل جون میں تھا، ایکسپورٹ صرف 2.7 ارب ڈالر رہی۔

مفتاح اسماعیل کا کہنا تھا کہ مالی سال میں 80 ارب روپے کی امپورٹ اور صرف 31 ارب کی ایکسپورٹ تھی، ایسی صورتحال میں کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ کنٹرول کیسے ہوگا۔

انہوں نے کہا کہ پیک سیزن میں بجلی کی ڈیمانڈ 30ہزار میگا واٹ ہوگئی، بجلی کی ڈیمانڈ تو ڈبل ہوگئی مگر ہماری ایکسپورٹ ڈبل نہیں ہوئی، دنیا میں ہوتا یہ ہے کہ جب بجلی بنتی ہو تو کارخانے لگتے ہیں تاکہ وہ بجلی استعمال ہو، ہمارے ہاں اس بجلی سے شادی ہالز کو چمچمایا گیا۔

وزیر خزانہ کا کہنا تھا کہ ہم نے ان مسائل کو کنٹرول کرنے کی کوشش کی، امپورٹ بل کم کیا اور عالمی مالیاتی اداروں سے فنڈ ملنے کی توقع سے ڈالر گرا۔

انہوں نے کہا کہ اگلے 3 ماہ امپورٹ بل کو کم رکھنے کی کوشش کریں گے، فرنس آئل کا 6 ماہ کا اسٹاک موجود ہے۔ سگریٹ کمپنیز کو ٹریس اینڈ ٹریک سسٹم میں لے کر آئیں گے۔

وزیر خزانہ کا کہنا تھا کہ بینکوں پر ڈالرز کی سٹے بازی کا الزام درست نہیں، مارکیٹ میں طلب و رسد کے تناسب سے ڈالر کی قدر میں اتار چڑھاؤ ہوا۔ رواں سال بجٹ خسارے پر قابو پانے کی حکمت عملی واضح کی گئی ہے، حکومتی اقدامات کی بدولت نادہندگی کے خطرات کم ہو رہے ہیں۔
https://urdu.arynews.tv/miftah-ismail-at-psx/
======================
ڈالر مزید کتنا سستا ہوسکتا ہے؟
روپے کی قدر میں ریکوری شروع، اسٹیٹ بینک بھی متحرک ہوگیا

روپے کے مقابلے میں ڈالر کی قدر میں ایک روز کے دوران تاریخی کمی ہوئی ہے جب کہ ماہرین کا کہنا ہے کہ ڈالر مزید سستا بھی ہوسکتا ہے۔

مقامی کرنسی مارکیٹوں میں بدھ کو جس طرح غیر معمولی انداز میں ڈالر کی قدر میں گراوٹ کا سلسلہ شروع ہوا اس کے بعد اب یہ بحث چھڑ گئی ہے کہ ڈالر کی قدر مزید کتنا گر سکتی ہے؟کرنسی ڈیلرز کا خیال ہے کہ آئندہ دنوں بھی ڈالر کی قدر میں کمی آنے کا سلسلہ جاری رہے گا اور امید ہے کہ اگست کے آخر تک ڈالر 200روپے کی سطح پر آجائے گا۔

فوریکس ایسوسی ایشن آف پاکستان کے چیئرمین ملک بوستان نے سماء ٹی وی سے گفتگو میں کہا کہ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کے امریکی حکام سے رابطے کے بعد امید ہے کہ آئی ایم ایف کی قسط جلد جاری ہوجائے گی انہوں نے کہا ڈالر کی قدر مصنوعی انداز میں بڑھائی گئی تھی،ڈالر کی اصل ویلیو 180روپے سے زیادہ نہیں ہونی چاہیے اور اسی سے ڈالر بڑھ کراتنی بلند سطح پر پہنچ گیا تھا۔

ایکس چینج کمپنیز ایسوسی ایشن آف پاکستان کے جنرل سیکرٹری ظفر پراچہ کے مطابق اسٹیٹ بینک اور دیگر حکومتی اداروں کی عدم توجہی کے باعث انٹر بینک میں بڑے پیمانے پر سٹہ بازی کی وجہ سے ڈالرا س قدر بلندی پر پہنچ گیا تھا تاہم حکومتی ادارے اب متحرک ہوگئے ہیں جس کے بعد ڈالر کی قدر میں کمی شروع ہوگئی ہے ظفر پراچہ کا کہنا ہے کہ حکومتی ادارے اسی طرح فعال رہے تو ڈالر رواں ماہ کے آخر تک 200روپے کی سطح پرآجائے گا اور اسکے بعد بھی ڈالر کی قدر میں کمی کا سلسلہ جاری رہے گا تاہم انہوں نے خبردار بھی کیا کہ حکومت نے سستی کا مظاہرہ کیا تو صورتحال پھر خراب ہوسکتی ہے۔

واضح رہے کہ اسٹیٹ بینک نے بھی بدھ کو ایک اعلامیہ جاری کیا ہے جس کے مطابق مرکزی بینک کی جانب سے کرنسی مارکیٹ کی نگرانی سخت کی جارہی ہے۔اسٹیٹ بینک کے مطابق دو ایکس چینج کمپنیوں کے خلاف کارروائی بھی کی جارہی ہے۔
https://www.samaa.tv/news/40004948/
================================================