بڑا دشمن کون ہے؟

تحریر آصفہ زہرہ
============

کیا آج کی دنیا کو صرف دہشتگردی اور دہشتگروں سے خطرہ ہے؟ کیا دنیا کی تباہی ایٹمی جنگ یا ایٹمی ہتھیاروں میں پوشیدہ ہے؟ یہ وہ سوالات ہیں جسکے گرد دنیا کی سیاست اور پالیسز گھوم رہی ہیں ملکوں کے بجٹ ہوں یا دیگر اقدامات اب پالیسی کا محور دہشت کے حصار میں ہی ہے۔ لیکن آج کی جدید دنیا میں اگر حقیقتا کسی نے دہشت کا بازار گرم کر رکھا ہے تو وہ ماحولیاتی تبدیلی ہے جس نے دنیا کو تہس نہس کر دیا ہے ۔ دنیا کے نقشے پر قائم ایک سو ستانوے میں سے کئی ممالک ایسے ہیں جن کےوجود کوخطرہ لاحق ہو چکا ہے سن 1998 سے 2017 کے درمیان صرف دس


سالوں میں پانچ لاکھ چھبیس ہزار افراد کو اپنی جان سے ہاتھ دھونا پڑا اور محدود اندازے کے مطابق تقریبا 3.47 ٹریلین ڈالر کا نقصان ہوا۔ جس کئ وجہ موسمیاتی تبدیلیاں ہیں کہیں طوفان، کہیں بارشیں، کہیں ہیٹ وویو تو کہیں سیلاب، کبھی سخت گرمی تو کبھی سخت سردی اس موسمی دہشتگردی کی مختلف شکلیں ہیں۔ ان دس سالوں میں پرٹو ریکو، ہونڈرس اور میانمار سب سے زیادہ متاثر ہونے والے ملکوں میں شامل ہیں ۔ آج دنیا میں تباہی پھیلانے والے طوفانون کی تعداد پہلے سے کہیں زیادہ بڑھ گئی ہے جس کی ایک اہم وجہ زمین کے درجہ حرارت میں ہونے والا اضافہ ہے ۔ جرمن واچ کی عالمی موسمیاتی خطرہ انڈیکس 2019 کے مطابق اب ایک اور فہرست کا اضافہ ہو گیا ہے اس سے پہلے عالمی سطح پر براہ راست متاثر ممالک کی فہرست کا اجراٗ ہوتا تھا اب ان ممالک کی فہرست بھی مرتب کی گئی ہے جوموسمیاتی تبدیلیوں کے سبب سب سے زیادہ تباہی کا شکار ہوئے ہیں یا ہو رہے ہیں اس میں ہیٹی، فلپائن اور اس کے بعد پاکستان کا نمبر تیسرا ہے جو تباہی سے دوچار ہیں ان ممالک میں شروع کے دس میں سے اٹھ ترقی پزیر ممالک ہیں۔


تباہی سے دوچار ملکوں کا ذکر کریں تو 2010 کے سیلاب میں پاکستان میں 2 کروڑ افراد متاثر ہوئے، 2015 میں ہیٹ ویوو سے سیکڑوں افراد مارے گئے۔ اگست 2017 میں کراچی میں50 ملی میٹر بارش نے تباہی مچادی 17 افراد مارے گئے آٹھ دن بعد پھر شہر کراچی میں 100 ملی میٹر بارش ہوئی اور اسی گرج چمک کے ساتھ ہوئی جو کراچی والے کم کم ہی دیکھتے ہیں جس نے کئی زندگیاں چھین لیں دوسری طرف تھر کی زمین خشک ہے مسلسل خشک سالی نے قحط کی صورتحال پیدا کر رکھی ہے رواں برس مارچ میں ہونے والی بارشوں نے گندم، آم اور مکئی کی فصل کو نقصان پہنچایا ہے جس سے زرعی زمین برباد ہو گئی رواں سال گندم کی کمی کا خدشہ بھی پیدا ہو چکا ہے۔ جس سےا یک لاکھ پیسٹھ ہزار ایکڑ زمین پر لگئی فصل پوری طرح برباد ہوگئی ۔ یہ تمام تباہ کاریاں موسمیاتی تغیر سے جڑی ہیں۔ ہر گزرتے سال کے ساتھ گرمیوں میں ہیٹ ویو تو سردیوں میں اسموگ نے لوگوں کی پریشانی بڑھا دی ہے ۔لاہور ہو، دبئی یا بیجنگ سب ہی جگہ اسموگ کے ڈیرے ہیں۔ بیجنگ میں بسنے والوں کی اوسط عمر میں 5 سال کی کمی ہو چکی ہے یہ یقینا وہ تبدیلی ہے جس کا مشاہدہ ممکن ہے کچھ ایسا بھی ہے جو نظر نہین آتا ۔ کہتے ہیں عالمی گرماہٹ کی وجہ سے طوفانوں میں اضافہ ہو گیا ہے صرف سال 2018 میں درجنوں ایسے طوفان آئے جنھوں نے لاکھوں افراد کو بے گھر کیا اور تباہی مچا دی اس میں مڈگاسکار میں آئے طوفان سے لیکن، طوفان مائیکل، لوبان تتلی اور درجنوں اور شامل ہیں سال 2019 میں 20سال کا سب سے زیادہ طاقتور طوفان فانی نے بھارت و بنگلادیشن میں 8.1 بلین ڈالر کا نقصان پہنچایا89 جانیں لیں، موسمیاتی تبدیلیاں نا سرحد دیکھ رہی ہیں مذہب،اسے نا رنگ سے سروکار ہے نا نسل سے۔ جنوبی ایشیا میں ایک دوسرےسے گزرے 75 سالوں سے صف آرا بھارت اور پاکستان نے ایک دوسرے سے چار جنگیں لڑ لیں لیکن اس وقت دونوں ملک شدید بارشوں کی تباہی سے دوچار ہیں دونوں ملکوں کی فوجیں اپنے اپنے عوام کو سیلابی بیڑوں سے بچانے میں مصروف عمل ہین،، لاکھوں بے گھر ہورہے ہیں سیکڑوں جانیں جا رہی ہیں۔

اس عالمی گرماہٹ کا درجہ حرارت کےبڑھنے کی آخر وجہ کیا ہے؟ انسوی صدی صنعتی دور کا آغاز تھی جس نے لوگوں کے معاملات زندگی کو یکسر بدل دیا۔ آج ہر گھر میں مختلف الات ہیں سفری سہولیات کے لیے جدید سواریاں ہیں ہر گھر میں آج کاریں اور موٹر سائیکل ہیں جس میں ایندھن کا استعمال ہو رہا ہے۔ آج ہر فرد کے پاس کم و بیش 2 موبائیل ضرور ہیں ان آلات کو استعال کرنے کے لیے ہمیں بجلی کی ضرورت پڑتی ہے جس کے لیے ہم گیس، تیل یا پھر کوئلے کو جلاتے ہیں جس کی وجہ سے کاربن ڈائی آکسائڈ کا اخراج ہورہا ہے اس تمام عمل میں کسی حد تک صنعتی انقلاب، زرعی طریقہ کار اور انسانی سرگرمیوں نے گرین ہاوسز گیسز کے اخراج کو بڑھا دیا ہے اس بدلتی فضا اور اثرات یا گرین ہاوس گیسز کے معاملات کو سمجھنا یا کسی ایک وجہ کو قرار دینا یقینا نا ممکن ہو گا مگر کچھ وجوہات تک سائنس دان ضرور پہنچ چکے ہیں۔ اس وقت دنیا کے کچھ خطوں میں درجہ حرارت بڑھ گیا ہے اور کچھ میں سردی میں اضافہ ہوا ہے۔ گرین ہاوس گیسز کے اثرات کی وجہ سے سمندر میں پانی کی سطح بڑھنا شروع ہو گئی ہے جس کی وجہ گلئشیر کا گرمی سے پگھلنا ہے یہی وجہ ہے سطح آب بڑھ رہی ہے۔ اقوام متحدہ کے تقریبا 1300 آذاد ماحولیاتی سائنسداںوں کی رپورٹ کے مطابق زمین پر ہونے والی سرگرمیوں کے پیچھے 95 فیصد انسان کا اپنا کردار کارفرما ہے۔ گذشتہ ڈیڑھ سو سالوں میں جدید تہذہب کے نام پر صنعتی انقلاب نے دنیا کو خطرے میں ڈال دیا ہے اور پچھلے 50سال بدترین سالوں میں شمار ہوتے ہیں ۔ اور جیسا کے شروع میں کہا کے پاکستان دنیا کے ان تین ملکوں میں شامل ہو چکا ہے جو متاثرین میں صف اول میں آتے ہیں ہمارا شمار موسمیاتی تبدییلیوں کے شکارپانچویں غیرمحفوظ ملک سے بھی ہے۔


2015 میں پارلیمنٹ میں رپورٹ پیش کی گئی تھی جسکے مطابق سال 2060 میں سطح سمندر کے بڑھ جانے سے کراچی، بدین اور ٹھٹہ خطہ ارض سے مٹ جائیں گے لیکن اس پر کسی نے دھیان نہیں دیا اور اض ٹھٹہ اور بدین کوپانی نے نگلنا شروع کر دیاہے اسی طرح ممبئی اور چٹاگانگ کو پانی برد ہونے کا خطرہ ہے کہا تو یہ بھی گیا ہے کے رواں صدی کے آخر تک جزیرہ نما ملک مالدیپ دنیا کے نقشے سے مٹ جائے گا۔ آخرہم کیوں اپنے ہی دشمن بنے بیٹھے ہیں ہمیں فوری طورپر اپنے طرز زندگی میں تبدیلی لانے کے ساتھ ساتھ علاقائی سطح پر مل کر اس آفت سے نمٹنا ہوگا جسکا نام موسمیاتی تبدیلی ہے۔

پاکستان ہو، بھارت بنگلہ دیش یاپھر سری لنکا ان ملکوں میں غربت کی لیکر سے نیچے بسنے والے کروڑوں میں ہیں وہی صاحب ثروت شہریوں کی بھی کمی نہیں لیکن ان تمام ملکوں کو ملکر اپنے اپنے ملکوں میں نا صرف سختی سےپلاسٹک بیگ کی تیاری پر فوری پابندی لگانی چاہیے بلکہ پبلک ٹرانسپورٹ کے نظام کو بہتر کرتے ہوئےذاتی گاڑی کے استعمال پر پابندی لگانی چاہیے جس سے ناصرف پٹرولیم مصنوعات سمیت زرمبادلہ کی بچت ہوگی بلکہ آلودگی کے پھیلاو میں بھی کمی آئے گی۔

پاکستان قطبین کے باہر وہ واحد ملک ہے جو سب سے زیادہ گلیشیر کامسکن ہے جس کی تعداد کم و بیش 7253ہے اور یہ گلیشئیر چین،بھارت اور پاکستان کے درمیان واقع ہیں جسے ہم سیاچن کے نام سے جانتے ہیں اور یہاں پاکستان اور بھارت کی فوجیں اپنے جنگی سازوسامان کے ساتھ کھڑی ہیں

گلشئیر پگلھنے اور گلوف کے واقعات میں اضافہ گلگت بلتستان میں تباہی لارہا ہے، ضروری ہے کے دونوں ملک اپنی اپنی فوجوں کو واپس بلائیں سیاچن کو ـ نو آرمی زون ـ قرار دیا جائے۔ جنوبی ایشیائی ممالک کو ہنگامی اجلاس بلا کر موسمیاتی دہشتگردی کو لگام ڈالنی ہوگی ورنا قحط، سیلاب،

ہیٹ ویو اس خطے میں اسی تباہی مچائیں گے جس سے نمٹنا ناممکن ہوجائے گا
=================================