موٹروے کے دونوں طرف جو باؤنڈری کے اندر زمین ہے اس پہ سفیدہ لگا ہوا ہے سمجھ نہیں آتی کہ اس سفیدے کا کیا فائدہ ہے.

موٹروے کے دونوں طرف جو باؤنڈری کے اندر زمین ہے اس پہ سفیدہ لگا ہوا ہے سمجھ نہیں آتی کہ اس سفیدے کا کیا فائدہ ہے. انتہائی زرخیز زمین ہے پھر سفیدہ لگانے کی بات کچھ سمجھ نہیں آتی. اگر موٹر وے “ون “جو پشاور سے اسلام باد تک ہے اس کے گرد آڑو, زیتون, انار, کالی مرچ, اور سیب وغیرہ کے پودے لگا دیے جائیں جن کے لئے وہاں کی آب و ہوا ساز گار ہے تو کتنی خوبصورتی ہوگی اور کتنا زیادہ فروٹ بھی حاصل ہوجائے گا. اسی طرح موٹروے” ٹو” پہ اسلام آباد سے کلر کہار تک صنوبر اور لوکاٹ بڑا زبردست ہو سکتا.لِلہ سے لے کر بھیرہ تک بیری کا درخت بہت کامیاب ہے. اسی پہ بھیرہ سے لے کر پنڈی بھٹیاں تک مسمی, کنو, سنگترہ اور گریٹ فروٹ بہت کامیاب ریے گا. پنڈی بھٹیاں سے لاہور تک امرود, فالسہ, لیچی, انگور اور جامن بہترین پرورش پا سکتے. موٹروے” تھری” پہ پنڈی بھٹیاں سے فیصل آباد اور موٹروے “فور” پہ لاہور سے عبدالحکیم اور فیصل آباد سے عبدالحکیم پہ بھی امرود, آم, جامن, فالسہ ,بیری اور شہتوت وغیرہ کامیاب پودے رہیں گے. موٹروے” فائیو “ملتان سے سکھر پہ بھی بہت اعلٰی اقسام کےکھجور اور آم کے درخت لگائے جا سکتے, جیسے کہ آپ کو پتہ ہوگا آم پھلوں کا بادشاہ ہے اور اس کی 100 سے زیادہ اقسام ہیں لہذا اس پہ یہ ساری اقسام لگائی جا سکتی ہیں. اب دوسرا سوال یہ پیدا ہوتا ہے کی ان پھل دار پودوں کی نگہداشت کون کرے گا تو اس کے لئے مالی بھی رکھے جا سکتے ہیں, یا پھر باغات ٹھیکے پر دئیے جا سکتے ہیں اس طرح ملک پہ بوجھ بھی نہیں بنے گا الٹا یہ پھل دار درخت گورنمنٹ کو منافع دیں گے. اور ہزاروں لوگوں کو روز گار ملے گا. اور مزید برآں پھل پورے ملک میں سستا ھو جائے گا اور پھر حکومت اسے ایکسپورٹ بھی کر سکتی ھے۔
سفیدے کے درخت کے کئی نقصان ہیں، علاقے کا زیر زمین پانی چوس لیتے ہیں،
نہروں اور سڑکوں کے کنارے ہمیشہ جو مقامی درخت لگتے آئے ہیں، شیشم (ٹاہلی)، نیم ، دیسی کیکر، شرینہ، پیپل، املتاس، بڑ (بوڑھ) وغیرہ، ان پر بھی غور کرلیا جائے.ایک اور درخت جس کا آج کل دنیا بھر میں چرچا ہے، جسے سپر فوڈ قرار دیا جارہا ہے یعنی سوہانجنا، بہت آسانی سے لگایا اور پھیلایا جاسکتا ہے.
اور دونوں سڑک کے درمیانی جگہ میں تمام سبزیاں اور فروٹ کی کاشت کی جائے۔