نیشنل پارٹی کے صدر سابق وزیر اعلی بلوچستان ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ نے مرکزی کمیٹی کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے صوبائی بجٹ کو مسترد کرتے ہوئے کھاکہ بلوچستان کا بجٹ الفاظ کے ہیر پیر کے سوا کچھ نہیں ممبران اسمبلی کے آنکھوں میں دھول جھونکا گیا ہے

کوئٹہ۔ نیشنل پارٹی کے صدر سابق وزیر اعلی بلوچستان ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ نے مرکزی کمیٹی کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے صوبائی بجٹ کو مسترد کرتے ہوئے کھاکہ بلوچستان کا بجٹ الفاظ کے ہیر پیر کے سوا کچھ نہیں ممبران اسمبلی کے آنکھوں میں دھول جھونکا گیا ہے اس وقت مرکزی حکومت خود شدید معاشی مسائل کا شکار ہے۔ انھوں نے کھاکہ موجودہ حکومت کو عوام سے کوئی دلچسپی نہیں اور نہ عوام کا منتخب کردہ ہے انھوں نے کھاکہ بلوچستان میں جعلی حکومتوں سے ہر وقت عوامی مفادات کے خلاف کام لیا جاتا ہے سیندک منصوبے کی توسیع کا مسلہ ہو یا پی پی ایل سے معاہدے کا مسلہ ایسے معاہدے ہر وقت منصوبہ بند طور پر لائے گے حکومتوں سے کام لیا جاتا ہے اور ریکودیک کا حالیہ منصوبہ ایسی سلسلے کی کھڑی ہے موجودہ حکومت و جعلی اسمبلی کو ریکوڈک سے متعلق کوئی بھی فیصلہ کرنے کا اخلاقی و قانونی اختیار نہیں لہزا اس پر عملدرآمد سے گریز کیا جائے۔ ان خیالات کا اظہار مرکزی کمیٹی کے دوسرے روز کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کی۔ ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ نے واضع کیا کہ عوام کی مجموعی رائے ہے کہ سیاست میں اسٹیبلشمنٹ کا کوئی کردار نہیں ہو، پارلیمنٹ کی بالادستی، عدلیہ کی آزادی کو مقدم رکھا جائے اور انتخابات کے انعقاد میں ریاستی عملداری نہ ہو صاف و شفاف انتخابات ملک کے استحکام کی سب سے بڑی ضمانت ہے شفاف ہوں۔ انہوں نے کہا کہ لاپتہ افراد کا مسئلہ ملک کا سنگین ترین سیاسی مسلہ بن چکا ہے روز بروز اس میں شدت آرہی ہے جو کسی بھی المیہ سے کم نہیں۔ بلوچستان کے نوجوان اب ملک بھر کے تعلیمی اداروں میں محفوظ نہیں ہیں روز اٹھائے جاتے ہیں اور ٹاچر سیلوں میں شدید تشدد ان پر کیا جاتا ہے۔ ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ نے کہاکہ بلوچستان سے متعلق وفاق اور اس کے اداروں کا روئیہ انتہائی منفی ہے بارڈر ٹریڈ شدید مسائل و مشکلات کا شکار ہے سمگلنگ کے نام پر وفاقی ادارے لوگوں پر بلاجواز تشدد کرتے ہیں ان کی گاڑیاں اور اشیاء کو ضبط کرکے کھلے میدانوں میں چھوڑ دیا جاتا ہے۔ انھوں نے کھاکہ اٹھارویں پر مکمل عملدرآمد کرنے کی ضرورت ہے۔ ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ نے کہا کہ حکمرانوں کی غلط معاشی پالیسیوں کے سبب ملک شدید معاشی بحران کا شکار ہے مہنگائی اور بیروزگاری نے عوام کا جینا محال بنادیا ہے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے اور بجلی کی قیمتوں میں اضافے نے مشکلات و مسائل میں بے پناہ اضافہ کردیا ہے


لوگ دو وقت کی روٹی کے لیے ترس رہے ہیں حکمران کو چاہیے کہ وہ غیر ترقیاتی اور غیر پیداواری اخراجات میں کمی لائیں مزید مہنگائی کا بوجھ عوام پر نہیں ڈالا جائے ملک کو سیکورٹی ریاست کے بجائے فلائی ریاست بنانے کے لیے اقدامات اٹھائے جائیں کاروبار اور ٹریڈ پر توجہ دیا جائے ہمسایہ ملکوں کے ساتھ قریبی اور دوستانہ تعلقات استوار کرکے کاروبار کو فروغ دیا جائے۔ ڈاکٹر مالک بلوچ نے کہا کہ بلوچستان یونیورسٹی کو


جیل خانہ بنانے کے بجائے درس گاہ بنانے کی ضرورت ہے غیر ضروری فورسز کو فوری طور پر واپس کیا جائے۔ طلبا کے ہاسٹلوں سے بھی وفاقی فورسز کو ہٹایا جائے۔ یونیورسٹیوں میں طلبا سیاست پر سے پابندی ہٹائی جائے اور طلبا یونین کو بحال کیا جائے یونیورسٹیوں میں


سیاست پر پابندی کے بیانک اور منفی نتائج ہونگے سیاست پر پابندی اور پڑے لکھے افراد کو سیاست سے دور رکھ کر مخصوص افراد و خاندانوں کے لیے راستہ ہموار کیا جاتا ہے جو ایک منفی عمل ہے۔مرکزی کمیٹی کے اجلاس سے مرکزی نائب صدر کبیر محمد شہی، چاچا اللہ بخش بزدار، ڈاکٹر سرفراز،


جسٹس ریٹائرڈ شکیل احمد بلوچ، عبدالحمید ایڈووکیٹ، میران بلوچ، اشرف حسین، نظام رند، نیاز بلوچ، رحمت صالح بلوچ، محمد جان دشتی، جی ایم گولہ، پھلیں بلوچ، رمضان میمن، راحب بلیدی، فداحسین دشتی، حاجی عطا محمد بنگلزئی، رفیق کھوسہ، ڈاکٹر یوسف بزنجو، آغا گل، چیرمین محراب، ڈاکٹر نور بلوچ، کریم کھتران، عبدالرسول بلوچ، نثار بزنجو، خورشید رند اور دیگر نے بھی خطاب کیا۔ جبکہ اجلاس میں حفیظ بنگلزئی اور حضور بخش بنگلزئی نے خصوصی طور پر شرکت کی۔
==========================