اسسٹنٹ پروفیسر آ ف سرجری کنگ ایڈورڈ میڈیکل یونیورسٹی ڈاکٹر رانا محمد سہیل نے کہا ہے سرجری کی دو اقسام ہیں جن میں پہلی ایمرجنسی سرجری جبکہ دوسری الیکٹیو سرجری ہے ۔ایمرجنسی سرجری جیسے نام ہی ظاہر ہے کہ اس کو ہر طرح کے ماحول میں کرنا پڑتا ہے

لاہور( مدثر قدیر)اسسٹنٹ پروفیسر آ ف سرجری کنگ ایڈورڈ میڈیکل یونیورسٹی ڈاکٹر رانا محمد سہیل نے کہا ہے سرجری کی دو اقسام ہیں جن میں پہلی ایمرجنسی سرجری جبکہ دوسری الیکٹیو سرجری ہے ۔ایمرجنسی سرجری جیسے نام ہی ظاہر ہے کہ اس کو ہر طرح کے ماحول میں کرنا پڑتا ہے اور ایک اچھے سرجن کے لیے ایمرجنسی سروسز میں سرجری کر نا نہایت ضروری ہے جبکہ الیکٹیو سرجری کو عام زبان میں پلان یعنی وقت دے


کر کی جاتی ہے اور اس دوران مریض کے تمام تر ٹیسٹ مکمل کرائے جاتے ہیں تاکہ اس کی جسمانی کیفیت پتہ چل سکے ،ان کا کہنا تھا جنرل سرجری مشکل کام ہے اس کی روٹین بڑی محنت طلب ہے سرجن کو ایمرجنسی اور آئوٹ ڈور دونوں جانب کور کرنا پڑتا ہے


اور جب ایمرجنسی میں بلنٹ ٹراما یعنی ایسا مریض آجائے جسے اندورنی چوٹیں لگی ہوں ،جسم پر نشان ہوں مگر اس کا جگر ،تلی یا کوئی اور اعضائ متاثر ہوا ہو اور اس میں خون اکٹھا ہو رہا ہواس طرح کی سرجری کے لیے سرجن کی مہارت اور اپنے کام سے لگن بہت ضروری ہے ان باتوں کا اظہار انھوں نے اومیگا نیوز سے خصو صی ملاقات میں کیا اس موقع پر ان کا مزید کہنا تھا ایسے مریض کی چوٹ کو جاننے کے لیے


کلینکل معائنہ اور الٹرا سائونڈ کی مدد حاصل کی جاتی ہے اگر مریض کی کنڈیشن مستحکم ہو تو اس کا سی ٹی اسکین بھی کیا جاسکتا ہے ۔ویسکولر سرجری جو کہ اوپن سرجری ہوتی ہے اس میں خون کی نالیوںکو جوڑ کر خون کے ضیاع کو روکا جاتا ہے ایسا کیس فائر آرمز انجریز ، کلہاڑی اور خنجر کے وار سے سامنے آتا ہے جس کی وجہ سےٹانگ یا بازو می میں خون کا بہائو رک جاتا ہے اور بازو یاں پھر ٹانگ ٹھنڈا ہونا شروع ہوجاتی ہے ایسے کیس کو 6گھنٹے کے اندر آپڑیٹ کر نا ہوتا ہے


اس کی پیوند کاری کرنا ضروری ہے ۔کیونکہ اس کے بعد اعضائ کے ضائع ہونے کا خدشہ بڑھ جاتا ہے۔  اس لیے ورید لے کر شریان کی پیوند کاری کا عمل کیا جاتا ہے تاکہ مریض کو معذوری سے بچایا جاسکے ۔اومیگا نیوز کے ایک سوال کے جواب میں ڈاکٹر رانا محمد سہیل نے بتایا کہ ایمرجنسی سروسز میں پی جی آرزکو لیپرواسکوپی کے ذریعے ٹریننگ دی جاتی ہے اور لیپرو اسکوپی کے ذریعے اپینڈکس اور


مختلف تشخیصی آپریشنز ہورہے ہیں ۔ ،ایمرجنسی میں سرجری کی سروسز مہیا کرنا بڑے حوصلے کا کام ہے جس کے لیے سرجن کا مستند ہونا ضروری ہے ۔اپنی تعیناتی کے حوالے سے بتاتے ہوئے ڈاکٹر رانا سہیل نے بتایا کہ آج میں جس مقام پر ہوں اس میں میرے والدین کی دعاوں کا بڑا ہاتھ ہے میں تحصیل شجاع آباد کے ایک گائوں لالو والا سے تعلق رکھتا ہوں اور میڈیکل یونیورسٹی میں داخلے کے وقت پنجاب بھر میں میرا چوتھا نمبر تھا جس کے بعد 2004ئ میں میں کنگ ایڈورڈ سے گریجویٹ ہوااور ہائوس جاب بھی مجھے میو ہسپتال ہی میں ملی جہاں 2007میں میں میڈیکل آفیسر تعینات ہوا


۔مجھے ایف سی پی ایس کےلیے جن اساتذہ کی رہنمائی ملی ان میں پروفیسر ڈاکٹر صداقت علی خان،پروفیسر ڈاکٹر خالد جاوید عابد،پروفیسر ڈاکٹر عبدلمجید چوہدری ،پروفیسر ڈاکٹر محمد ارشد چیمہ اور پروفیسر ڈاکٹر اصغر نقی شامل ہیں ۔ 2012ئ میں مجھے ترقی دے کر سئینیر رجسٹرار ویسٹ سرجیکل وارڈ میں تعینات کیا گیا اور بعد میں 2017ئ میں ترقی دے کر اسسٹنٹ پروفیسر بنا کر ایسٹ سرجیکل میں وارڈ یہاں تعینات کیا گیا جہاں آجکل خدمات سرانجام دے رہا ہوں اس حوالے سے اپنے آپ کو خوش نصیب سمجھتا ہوں کہ میں نے میو ہسپتال کی چاروں سرجیکل وارڈز میں کام کیا ہے اور اپنے آپ کو انسانیت کی خدمت کے لیے وقف کرکھا ہے جبکہ میں پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن پنجاب کا جنرل سیکرٹری بھی ہوں ۔
====================================================================================