حکومت پاکستان کی دونوں گیس ٹرانسمیشن، ڈسٹری بیویشن اور مارکیٹنگ کمپنیاں ، سوئی سدرن اور سوئی ناردرن گیس کمپنی لمیٹڈ ، قواعد و ضوابط کی بجائے، حکم شاہی کے تحت چل رہی ہیں۔ کمپنیوں میں گیس کی تقسیم میرٹ کی بجائے، بندر بانٹ فارمولے کے تحت ہورہی ہے

اسلام آباد(رپورٹ: ناصر جمال) حکومت پاکستان کی دونوں گیس ٹرانسمیشن، ڈسٹری بیویشن اور مارکیٹنگ کمپنیاں ، سوئی سدرن اور سوئی ناردرن گیس کمپنی لمیٹڈ ، قواعد و ضوابط کی بجائے، حکم شاہی کے تحت چل رہی ہیں۔ کمپنیوں میں گیس کی تقسیم میرٹ کی بجائے، بندر بانٹ فارمولے کے تحت ہورہی ہے۔ سوئی سدرن عملاً بینک کرپٹ ہوچکی ہے۔ وہ اسٹیل مل’’پارٹ ٹو‘‘ بن چکی ہے۔ جہاں جلد ہی پنشن اور تنخواہ دینے تک کے پیسے نہیں ہونگے۔ اس سال وہ پچاس ارب روپے تک کا نقصان کرسکتی ہے۔ جبکہ سوئی ناردرن بھی اُسی راستے پر تیزی سے گامزن ہے۔ سوئی سدرن کے یو۔ ایف۔ جی کے حقائق چھپانے پر، وفاقی وزیر شدید برہم ہیں۔
ان کے پاس تصدیق شدہ، اصل ڈیٹا پہنچ چکا ہے۔بورڈ اور مینجمنٹ نے ان سے حقائق چھپانے ہیں۔


اسی طرح سے سوئی ناردرن کے یو۔ ایف۔ جی کا تھرڈ پارٹی آڈٹ ناگزیر ہوچکا ہے۔جہاں چھ ماہ تقریباً نصف ایل۔ این۔ جی دستیاب نہیں تھی۔ جبکہ گھریلو صارفین کو بدترین لوڈ مینجمنٹ کا سامنا کرنا پڑا۔ اسی میں یو۔ ایف۔ جی کو چھپایا گیا ہے۔ جس پر ’’اوگرا‘‘ کو نوٹس کرنا چاہئے۔ جن کو گیس ملی، یو۔ ایف۔ جی بھی اُن پر ٹرانسفر کیا جائے۔ دونوں کمپنیوں کی مینجمنٹ مخالفین کے لئے، ڈریکولااور لاڈلوں کے لئے، سگی ماں سے بھی زیادہ لاڈ لڑا رہی ہے۔ سوئی سدرن نے ساٹھ فیصد لوگوں کو کمپنی سے فارغ کرنے کے منصوبے پر عملدرآمد شروع کر دیا۔ ایک اور جی۔ ایم کو شوکاز نوٹس جاری ہوا ہے۔ تین جی۔ ایم کی انکوائری ہوچکیں ہیں۔ اس کے علاوہ چیف میڈیکل آفیسر الگ سے ہیں۔ کمپنی ملازمین میں شدید خوف و ہراس ہے۔


کپمنی اور ملازمین عدالت میں ایک دوسرے کے سامنے ہیں۔ کمپنی وکیلوں کو کروڑوں روپے فیس ادا کررہی ہے۔ مگر ملازمین تین سال سے پرانی تنخواہ پر ہیں۔ سوئی ناردرن میں ایک خاتون آفیسر کو دوبار ایکسیلریٹڈ پرموشن دی گئی ہے۔ جو کہ قواعد و ضوابط کے مطابق پورے کیریئر میں ایک بار مل سکتی ہے۔ اسی آفیسر کی تین بار تنخواہ بڑھی ہے۔ اس پر آڈٹ پیرا بن گیا ہے۔ کمپنی 2021ء میں جس ریکارڈکارکردگی کا ڈھونڈہورا پیٹنے اور ڈیو ٹنڈ کا اعلان کرنے جارہی ہے۔ جس کا کریڈٹ سابق ایم۔ ڈی عامر طفیل کا ہے۔ جنہیں موجودہ مینجمنٹ سے ایک سال سے


ان کے عہدے ڈی۔ ایم ۔ڈی سے ہٹا کر عملاً او۔ ایس۔ ڈی بنایا ہوا ہے۔ کمپنی قواعد و ضوابط کی بجائے پسند نا پسند پر چلائی جارہی ہے۔ جس کی عملی مثال سوا سال سے سی۔ ایف۔او، دو ایس۔ جی۔ ایم اور کمپنی سیکرٹری کی انکریمنٹ کا روکے جانا ہے۔ جبکہ یہ انکریمنٹ باقی تمام آفیسرز کو مل چکی ہے۔ مہنگائی کے تناسب سے تنخواہوں میں اضافے پر کنسلٹنٹ کی رپورٹ ردی کی ٹوکری کی نظر کر دی گئی ہے۔
تفصیلات، دستاویزات اور معتبر ذرایع کے مطابق ایم۔ ڈی سوئی سدرن عمران منیار امریکی شہری ہیں ۔ انھوں نے بھارت میں آئل اسٹوریج ٹرمینل پروجیکٹس لگانے میں تین سال کام کیا اور بطور پیدائشی پاکستانی شہری پر بھارت یاعتراض ختم کرنے کے لئے، پاکستانی شہریت ترک کرنے کا سرٹیفکیٹ بھی حاصل کیا اور بھارتی حکومت کو دیا۔ اس سرٹیفکیٹ کے حوالے سے بہت سے شکوک و شبہات پائے جاتے ہیں۔ اگر ایسا تھا تو پھر وہ دوبارہ کیسے اور کب پاکستانی شہری بنے۔ اس ضمن میں پاکستان کے حساس اداروں سے کیا انھوں نے اصل معلومات چھپائیں۔ اس ضمن میں سندھ ہائیکورٹ میں ایک شہری کی پٹیشن زیر التوا ہے۔ یہاں یہ امر بھی انتہائی اہم ہے کہ علی جاوید ہمدانی کو سوئی سدرن گیس کمپنی اور عامر طفیل کو سوئی ناردرن کا ایم۔ ڈی لگایا جارہاہے۔


مگر اچانک ہی پراسرار طور پر آخری رات گیم بدلی، عامر طفیل کی چھٹی، عمران خان گورنمنٹ نے کروا دی۔ علی ہمدانی کو سوئی سدرن کی بجائے ناردرن کا ایم۔ ڈی لگا دیا گیا۔ حالانکہ علی جاوید ہمدانی کی سوئی سدرن میں بریفنگ مکمل ہوچکیں تھیں۔ اور عمران منیار اچانک اوپر سے آٹپکے۔ ان کا نام شارٹ لسٹ میں تھا۔ مگر وہ فائنل امیدوار نہیں تھے۔
عمران منیار کے پاسپورٹ پر بھارت کا ورک ویزا ہے۔ اس حوالے سے وہ تردید یا تصدیق نہیں کررہے۔ ان کے جی۔ ایم لیگل فیصل حسین نے اس ضمن میں نمائندہ سے رابطہ کیا۔ جس پر انھیں کہا گیا کہ وہ اپنا موقف پیرا وائز، اپنے پی۔ آر، ڈیپارٹمنٹ کے ذریعے بھجوا دیں۔ اس پر ان کی جانب سے مکمل خاموشی ہے۔ اس ضمن میں انھیں دوبارہ ریمائنڈر بھی بھیجا گیا۔ مگر کوئی جواب نہیں آیا۔
معتبر ذرائع کا کہنا ہے کہ عمران منیار اس حوالے سے کمپنی کے افسران کے سامنے متعدد بار اعتراف کرچکے ہیں کہ انھوں نے پانچ سو ڈالر کے عوض پاکستانی شہریت ترک کرنے کا سرٹیفکیٹ حاصل کیا۔ جو کہ بھارت میں ورک ویزہ کے حوالے سے ایک لازمی ضرورت بتائی جاتی ہے۔ کمپنی کے افسران کو یہ تک پتا ہے کہ بھارت کس، کس شہری میں رہے۔ یہ عمران منیار کی اپنی زبانی ہے۔


جبکہ ساٹھ فیصد ملازمین کو لازمی اوسط درجےکی کارکردگی رپورٹ( ڈی۔ ایم۔ ایس ) دینے کے حوالے سے دستاویزات سامنے آئی ہیں۔ بورڈ سے اس ضمن میں اختیارات بھی مانگے گئے ہیں۔ اس کا اطلاق جی۔ ایم لیول سے لیکر نیچے تک ہوگا۔ جبکہ 9لوگوں کو زبانی کلامی کمپنی سے فارغ کیا گیا ہے۔ جبکہ جی ۔ ایم عفیف کو چند روز قبل شوکاز جاری کیا گیا ہے۔ جی۔ ایم ٹرانسمیشن کی انکوائری مکمل ہوگئی ہے۔ جی۔ ایم، سی۔ آر ڈی، فیصل اطہر کی انکوائری جاری ہے۔ سی۔ ایم۔ او ڈاکٹر منور حیات نشانے پر ہیں۔ عدنان رحمٰن جی۔ ایم بھی کسی وقت فارغ کئے جاسکتے ہیں۔ کمپنی میں شدید خوف و ہراس ہے۔
دوسری جانب وزیر پٹرولیم ڈاکٹر مصدق کو بورڈ اور مینمنٹ نے یو۔ ایف۔ جی پر غلط اعداد و شمار سے ’’ماموں‘‘ بنایا۔ اس کا اصل ڈیٹا وزیر پٹرولیم تک پہنچ چکا ہے، جس پر وہ شدید برہم ہیں۔


سوئی ناردرن میں بھی سوئی سدرن کی طرح بادشاہت ہے، یہاں بھی قواعد و ضوابط کو بالائے طاق رکھتے ہوئے، کمپنی کو پسند و ناپسند کی بنیاد پر چلایا جارہا ہے
عامر طفیل ڈیڑھ سال 31دسمبر 2020تک ایم۔ ڈی رہے، علی جاوید یکم جنوری2021کو ایم۔ ڈی بنے۔ عامر طفیل کے چھ ماہ میں یو۔ ایف۔ جی. سات اعشاریہ پانچ فیصد تھا۔ جو 2020-21 میں 8.5 فیصد پر بند ہوا۔ اب20-21 کے اکائونٹس کلوز ہوئے ہیں۔ کمپنی ریکارڈ ڈیوڈینڈ کا اعلان کرنے جارہی ہے۔۔ علی جاوید ہمدانی ڈیڑھ سال گزرنے کے بعد بھی، کمپنی آپریشن اور مینجمنٹ کے رمُوز سے کوسوں دور ہیں۔ انھوں نے رزلٹس کی بہترین بنیاد رکھنے والے عامر طفیل اور ان کی قریبی ٹیم کو نشانے پر رکھا ہوا ہے۔ سب سے پہلے انھوں نے عامر طفیل کو رولز کے برعکس ڈی۔ ایم۔ ڈی کے عہدے سے سال پہلے ہٹا کر او۔ ایس۔ ڈی بنا دیا۔ بورڈ کو بعد میں بتایا گیا۔ آٹھ ماہ سے ڈی ۔ ایم۔ ڈی ٹرانسمیشن نہیں ہیں۔ یہ عہدہ بھی موصوف کسی کو دینے کو تیار نہیں ہیں۔ اب عامر طفیل کی پکائی کھیر، موصوف خود چٹ کرنے کے چکر میں ہیں۔ دوسری جانب ان کی منتقم مزاجی انتہا کو پہنچی ہوئی ہے۔ کمپنی سی۔ ایف۔ او فیصل شیخ، ایس۔ جی۔ ایم۔ اعظم خان، ایس۔ جی۔ ایم جواد نسیم اور کمپنی سیکرٹری کی انھوں نے سوا سال سے بلا جواز رولز کے برعکس انکریمنٹ روکی ہوئی ہے۔ دوسری جانب کمپنی میں ایک خاتون آفیسر کے درجات اتنے بلند ہیں کہ وہ بیک وقت کئی عہدوں پر کام کررہی ہیں۔ انھیں دوبار ایکسلریٹڈ ترقی دی گئی۔ جو کہ کیئریئر میں صرف ایک بار مل سکتی ہے۔ تین بار ان کی تنخواہ بڑھی ہے۔ اس پر آڈٹ پیرا بھی ہے۔ دوسری جانب منافع کے باوجود تین سال سے لوگوں کی تنخواہ نہیں بڑھیں۔ ایچ۔ آر کنسلٹنٹ کی سی۔ پی۔ آئی کے حوالے سے رپورٹ ردی کی ٹوکری کی نظر ہوگئی۔ حالانکہ مہنگائی کے تناسب سے تنخواہوں میں اضافہ کمپنی پالیسی ہے۔ ابھی حال ہی میں ایم۔ ڈی نے ایک سینئر آفیسر کو سیاسی دبائو پر او۔ ایس۔ ڈی کر دیا۔ بظاہر انھیں سپیشل اسسٹنٹ ٹو ایم۔ ڈی کہا گیا۔ ایسا کمپنی کی تاریخ میں کبھی نہیں ہوا۔1ایس جی ایم کو سیاسی دباؤ پر او ایس ڈی بنا دیا گیا اسی آفیسر کو جمعہ کے روز نئی پوسٹنگ دی گئی ہے۔
دوسری جانب کمپنی میں کیپٹلائزیشن کے حوالے سے تشویشناک اطلاعات ہیں۔ GOPفنڈنگ، گورنمنٹ کنکشنز، اسکیمز بند ہیں۔ کوئی بڑا پروجیکٹ کمپنی کے پاس نہیں ہے۔ وزیرستان کی 243کلومیٹر اور لکی مروت کی 21ارب کی پائپ لائن حاصل کرنے کا دعوٰی کیا جارہا ہے۔ یہ منصوبہ علی جاوید ہمدانی کے کنٹریکٹ ختم ہونے کے بعد ہی کہیں جاکر شروع ہوگا۔ جس میں ڈیڑھ سال رہ گیا ہے۔ ابھی اس کی ای۔سی۔سی۔ سے منظوری ہونا ہے۔ جبکہ وہاں پر ابھی نئے ویل ڈرل ہونگے۔ چار ماہ میں ایک ’’ویل‘‘ ہوتا ہے۔ پھر کئی ارب کی وہاں فسیبلٹی لگنے میں ڈیڑھ سال سے زائد کا عرصہ لگے گا۔
کمپنی کے پاس گیس کی کمی کی وجہ سے گھریلو صارفین کو بدترین لوڈ مینجمنٹ اور ’’لو پریشر‘‘ کا سامنا کرنا پڑا۔ من پسند صنعتوں الور پاور ہائوس کو گیس کی سپلائی دی گئی۔ اس طرح یو۔ ایف۔ جی کا جن مصنوعی طور پر بوتل میں بند کیا گیا۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ گیس کے والیم کو مد نظر رکھ کر یو۔ ایف۔ جی پھر گھریلو صارفین کی بجائے، انڈسٹری اور پاور ہائوسز پر کیوں نہیں ڈالا جاتا۔ کمپنی کی انٹرنل جابز بھی مکمل نہیں ہوئے، کاسٹ کٹنگ زیادہ ہورہی ہے۔ بورڈ نے نیٹ ورک بطور خاص تقسیم کار نیٹ ورک کی بحالی کے لئے فنڈز جاری نہیں ہونے دیئے۔ وہ میٹروں کی تبدیلی اور من پسند پروجیکٹس کے پیچھے پڑا ہوا ہے۔ نئے میگا پروجیکٹ ہوتے تو 16.5فیصد ریٹ آف ریٹرن زیادہ ملتا۔ نیٹ ورک ایجنگ پر کام نہیں ہورہا۔ جب گیس نہیں تو پھر سیل بھی نہیں۔ کئی ماہ نصف ایل۔ این۔ جی نہ آنے پر یو۔ ایف۔ جی پر کیسے اثر نہیں آئے گا۔ گھریلو صارفین کو ایل۔ این۔ جی کس قانون، کس کی اجازت سے دی جارہی ہے۔ اور پھرریکوری کا بتایا جائے۔
کمپنی سے انجینئرز اور دوسرے لوگ دھڑا دھڑ بھاگ رہے ہیں۔ اچھی یونیورسٹی کا فارغ التحصیل، اب سوئی گیس میں آتا ہی نہیں۔ کمپنی میں اٹریکشن ختم ہورہی ہے۔ اقربا پروری پسند نا پسند کا کلچر، قواعد و ضوابط سے روگردانی، اس کمپنی کو بھی جلد ہی سوئی سدرن بنا دے گی۔
سوئی ناردرن کی انتظامیہ کو بھیایک سوالنامہ بھیجا گیا تھا۔ مگر وہ روایتی رابطے کرتے رہے۔ ملاقات پرزور دیتے رہے۔ مگر سوالوں کے جوابات نہیں دیئے۔ جس پر ریمائنڈر دیا گیا۔ اگر سوالوں کے جوابات نہیں ہیں تو سمجھا جائے کہ آپ کے پاس اس ضمن میں کہنے کو کچھ نہیں ہے۔ بہرحال سوالات کے جوابات نہیں دیئے گئے۔
========================================

اسلام آباد ( رپورٹ : ناصر جمال) پاکستان کی دو بڑی گیس کمپنیاں سوئی سدرن اور سوئی ناردرن تاریخ کی نازک ترین صورتحال سے گذر رہی ہیں۔ سوئی سدرن گیس کمپنی عملاً دیوالیہ ہوچکی ہے۔ اس کا محض رسمی اعلان باقی ہے۔ جبکہ سوئی ناردرن گیس کمپنی بھی اسی ڈگر پرگامزن ہے۔ اور وہ سوئی سدرن سےچنداسٹیشن پہلےکھڑی ہے۔دونوں کمپنیوں کےبورڈآف ڈائریکٹرز،کارپوریٹ لاءکی بدترین خلاف ورزی کےمرتکب ہوئے ہیں۔ اور وہ کمپنیوں کی مائیکرو مینجمنٹ کے اندر گُھس گئےہیں۔ دونوں کمپنیوں کے پیراشوٹر ایم۔ڈیز اپنے، اپنے بورڈ آف ڈائریکٹرز کے سامنے بے بس ہیں۔ ڈیڑھ سال گذرنے کے باوجود انہیں


کمپنی کےبنیادی بزنس تک کانہیں پتہ ہے۔ جبکہ بورڈز آف ڈائریکٹرز اور مینجمنٹ جہاں ایک دوسرے سےدست وگریباں ہیں وہیں پر بورڈ اپنے اور مینجمنٹ اپنے اندر الگ سے لڑائیاں لڑ رہے ہیں۔ بورڈ آف ڈائریکٹرز اور مینجمنٹ نے جہاں کمپنی کو اربوں کا نقصان پہنچایا ہے۔ وہیں پر فیس مراعات اور تنخواہوں کی مد میں بھی کروڑوں روپے لے اُڑے ہیں۔ حال ہی میں سوئی سدرن گیس کمپنی کی مینجمنٹ نے وزیر پٹرولیم کو ماموں بنادیا۔ مئی کےماہ میں انہیں مارچ تک بریفنگ دی گئی۔ بیس فیصد یو۔ایف۔جی کو پندرہ فیصد ظاہر کیا گیا۔ بورڈ کے ایک رکن نے روحی خان کی پالیسیوں اور غیر پیشہ وارانہ رویہ کےخلاف احتجاجاً مستعفیٰ ہوگئے۔ سوئی نادرن ایک سال سے دونوں ڈی۔ایم۔ڈیز کےبغیر چل رہی ہے ۔ وزیر پٹرولیم مصدق ملک نے اس معاملے پر کہا کہ دونوں گیس کمپنیوں کےبورڈز اور مینجمنٹ کی کارکردگی کا جائزہ لے رہے ہیں۔ میرٹ پرسخت فیصلے کریں گے۔ دوسری جانب ایس۔ای۔سی۔پی نے بورڈ کے ممبرز کی جانب


سے اٹھائے گئے اعتراضات کو ریکارڈ کا حصہ نہ بنانےپر سوئی نادرن کو شوکاز نوٹس جاری کردیا ہے۔تفصیلا ت ودستاویزات کے مطابق پاکستان کی دونوں گیس کی تقسیم اور ترسیل کار کمپنیاں سوئی نادرن وسوئی سدرن اس وقت بدترین حالات سے گذر رہی ہیں ۔ امپورٹڈ حکومت کا واویلا مچانے والی تبدیلی سرکار نے ان دونوںکمپنیوں میں پہلی بار امپورٹڈ ایم۔ ڈیز اور من پسند بورڈ آف ڈائریکٹرز لگانے کاتجربہ کیا۔ عمران خان کے پرنسپل سیکرٹری اعظم خان اور اسد حیاء الدین خا ن نے یہ عمل اپنی خاص نگرانی میں مکمل کروایا۔ جو کہ پاکستان اور پاکستان کے عوام کے لیے وبال جان بن گیا۔سوئی نادرن کے حصص کی قیمتیں پونے دو سو روپے سے اکتیس روپے اور سوئی سدرن کی شیئرز کی قیمت اٹھاون روپے سے گر کر تقریباً آٹھ روپے پہ جاپہنچی ہے ۔ دونوں کمپنیاں اپنی بُری کارکردگی کےباعث سرمایہ کاروں کا اعتماد مکمل طور پر کھو چکی ہیں ۔جبکہ دونوں کمپنیوں کے بورڈ ز آف ڈائریکٹرز کی کارکردگی انتہائی مایوس کن ہے ۔دونوں بورڈز کی سربراہ خواتین ہیں ۔سوئی سدرن کی سربراہ سابق گورنر اسٹیٹ بینک شمشاد اختر ہیں ۔جو پچھلے بورڈ کا بھی حصہ تھیں ۔ ان کے حوالے سے یہ تاثر عام ہے کہ وہ پاکستان میں ورلڈ بینک اور آئی۔ ایم۔ ایف کی چھتری کے نیچے پاکستان میں کام کرتی ہیں ۔ ان کے پاکستان کے اعلیٰ سیاسی اور بیورو کریسی کے لوگوںسے بھی قریبی مراسم ہیں ۔جس کی وجہ سے انکی سوئی سدرن گیس کمپنی پر ایک دہشت قائم ہے۔ مگر


اس کے برعکس ان کے دور میں سوئی سدرن گیس کمپنی اپنی تاریخ کی بد ترین تنزلی کا شکار ہے ۔حال ہی میں ان کے زیر سرپرستی بورڈ اور مینجمنٹ نے ڈاکٹرمصدق ملک وزیر پٹرولیم کوماموں بنا دیا۔ جب انہیں حقائق کے برعکس غلط اعداد شماردکھائے گئے۔ مصدق ملک نےمئی کےمہینےمیں کمپنی کی کارکردگی اور یو۔ایف۔جی کےحوالے سے بریفنگ لی۔ جبکہ انہیں مارچ کےمہینے تک کی بریفنگ دی گئی۔ اور ان سے وعدہ کیا گیا کہ یو ایف جی پچاس ارب کیوبک فیٹ سے اوپر نہیں جائےگا۔ جبکہ اس کے برعکس اپریل کا یو۔ایف۔ جی پچپن ارب کیوبک فیٹ تھا۔اور مئ کے اختتام تک یہ یو۔ ایف۔ جی ساٹھ ارب کیوبک فٹ تک جا پہنچا ہے۔ جو کہ انیس اعشاریہ تین تین فیصد بنتا ہے ۔جبکہ ڈاکٹر مصدق ملک کو کمپنی نے یو۔ ایف ۔جی پندرہ فیصد ظاہر کیا تھا۔ سوئی سدرن کا گزشتہ سال یو۔ ایف۔ جی انسٹھ اعشاریہ آٹھ آٹھ چار بی سی ایف تھا۔ جو کہ سترہ اعشاریہ آٹھ چھ فیصد یو ایف جی بنتا ہے ۔ایک فیصد یو ایف جی دو اعشاریہ دو ارب روپے سے زائد کا بنتا ہے۔ جس کاواضح ترین مطلب ہے کہ کمپنی یو۔ ایف۔ جی کی مد میں بیالیس ارب روپے سے زائد کا نقصان کر چکی ہے ۔ سوئی سدرن کا بورڈ اور مینجمنٹ اس بدترین کارکردگی پر کسی کو جوابدہ نہیں ہیں ۔ کمپنی مینجمنٹ امپورٹڈ ایم ۔ڈی اور ڈی۔ ایم۔ ڈیز کے ہاتھ میںہے۔


آٹھ اعشاریہ پانچ یو۔ ایف۔ جی پر رہنے والی سوئی سدرن گیس کمپنی آج بیس فیصد یو۔ ایف۔ جی پر کھڑی ہے ۔جبکہ کمپنی نے گزشتہ سال کے اکائونٹس میںبیس ارب روپے سے زائد کا خسارہ ظاہر کیا ہے۔ گیس کمپنی کی تاریخ کی بدترین مینجمنٹ اپنے نااہل بورڈ سے اختیار مانگ رہی ہے کہ وہ کمپنی کے جس ملازم کو چاہے بیک جنبش قلم برطرف کر دے۔ جبکہ مینجمنٹ نے بورڈ کو کہا ہے کہ وہ ساٹھ فیصد لوگوں کو اوسط درجہ سے نیچے کی کارکردگی پر رکھیں گے اور چھ ماہ تک ان کی کارکردگی کو جانچا جائے گا۔اس کے بعد مزید دورپورٹس پر انہیں ادارہ سے نکال دیا جائے گا۔جس پر بورڈ نے آمادگی ظاہر کر دی ہے ۔سوئی سدرن بورڈ اور افسران کے مابین کئی بار تلخ جملوںکا تبادلہ ہو چکا ہے۔ جس کی ماضی میںکوئی مثال نہیںملتی ہے۔ جبکہ ذرائع کا کہنا ہے کہ جس طرح سے گزشتہ آٹھ سالوںمیں امپورٹڈ مینجمنٹ نے کئیرئیر افیسر ز کو دیوار سے لگایا ہے ۔آج کمپنی اسی کا خمیازہ بھگت رہی ہے۔ جبکہ جس روز یہ لاوہ پھٹا تو کمپنی کو انتہائی ناخوشگوار صورتحال کا سامنا کرنا پڑے گا۔دوسری جانب سوئی نادرن کےبورڈ آف ڈائریکٹرز کی چیئرپرسن روحی خان وزیراعظم اور کابینہ کی منظوری کے بغیر زبردستی چیئر پرسن کے عہدے پر قابض ہیں ۔روحی خان بھی گزشتہ بورڈ سے کمپنی کے بورڈ پر موجود ہیں۔ وہ اعظم خان اور اسد حیاء الدین کی چہیتی ہیں۔ ان کےبورڈ کے اندر اور مینجمنٹ کے لوگوں سے شدید اختلافات اور غیرپیشہ وارانہ رویو ں کی شکایات عام ہیں۔ایک سابق ڈی۔ ایم۔ ڈی کو بورڈ نے ڈی۔ ایم۔ ڈی بنائے جانے کے باوجود آج تک ڈی ۔ایم ۔ڈی کی تنخواہ اور مراعات نہیں دیں۔جبکہ چیئر پرسن خود کل وقتی گاڑی ،سوالاکھ تنخواہ میٹنگ اور بورڈ فیس سے کئی سال سےمستفید ہورہی ہیں ۔جبکہ بورڈ کے اندر واحد پرائیویٹ ممبر احمد عقیل سے ان کے شدید اختلافات ہیں ۔بورڈ میں گرم سرد جملوںکا تبادلہ معمول بن چکا ہے۔ اور واحد پرائیویٹ ممبر کودیوارسے لگایا ہوا ہے ۔ احمد عقیل ریکار ڈگیارہ اعشاریہ دس فیصد ووٹ لے کر واحد پرائیویٹ ممبر ہیں۔جبکہ اس بورڈ میں ایک ممبر ایسے بھی ہیں جسے صرف تین سوبیاسی ووٹ ملے تھے ۔اور ان کا ووٹ کا تناسب زیرو اعشاریہ زیرو زیرو ہے ۔اور یہ بورڈ کے ممبر ہیں۔سوئی نادرن گیس کمپنی بورڈ کا اجلاس چارہ ماہ کے وقفہ کے بعد گزشتہ روز ہوا۔ جبکہ چار ماہ بورڈ کی کمیٹیوں کی ریکارڈ میٹنگزہوئی۔ جہاں سے ایک ممبر فی کمیٹی میٹنگ تقریبا ایک لاکھ روپیہ وصول کرتا ہے۔ بورڈ کےایک رکن یہ کہتے سنے گئےہیں کہ انکے گھر کا خرچہ پانچ لاکھ روپے ماہانہ ہے تو، ایک ماہ میں پانچ میٹنگز تو ہونی چاہیے


۔ جبکہ بورڈ کے ایک رکن کمیٹی کی میٹنگ میں قینچی چپل پہن کر آگئے۔ چیئرپرسن بورڈ کے علاوہ کمیٹیز کی بھی ممبر ہیں ۔ ایچ آر مینول پر کمیٹی کےبائیس اجلاس بلا چکی ہیں۔ اور ابھی تک یہ مینول فائنل نہیں ہوا ہے۔ دوسری جانب بورڈ کی سنجیدگی کا یہ عالم ہےکہ اس نے یو ۔ایف ۔جی کی حساس ترین کمیٹی میں رسک مینجمنٹ کمیٹی کو ضم کردیا۔جس سے کمپنی کے امور بری طرح متاثر ہوئے ہیں۔ جبکہ سوئی نادرن کاموجودہ بورڈ انتہائی غیر پیشہ وارانہ کام کررہا ہے۔ جس کی سب سے بڑی مثال مینجمنٹ کو اسائمنٹ در اسائمنٹ دے کر پاگل کرنا ہے ۔ مینجمنٹ بورڈ کی ا سائنمنٹ کمیٹی کی میٹنگز بورڈ میٹنگز ،وزارت پٹرولیم سے رابطہ کاری میں زیادہ سے زیادہ وقت صرف کردیتی ہے۔ جسے کمپنی کے امور بری طرح متاثرہورہے ہیں۔ جس کی وجہ سے گیس کی تقسیم اور ترسیل اور آپریشن کا کام بُرے طریقے سے متاثرہورہا ہے ۔ایسے میں علی جاوید ہمدانی نے تقریباً ایک سال پہلے ڈی۔ ایم۔ ڈی۔ عامر طفیل کو ان کے عہدے سے ہٹا دیا۔اور ڈی۔ ایم ڈی۔ ٹرانسمیشن سہیل گلزار نومبر میں ریٹائرہوگئے۔ یہ دونوں عہدے ایک سال سے خالی ہیں۔ اور ایم۔ ڈی ان دونوں


عہدوںکے تمام اختیارات از خود استعمال کررہے ہیں ۔جبکہ علی جاوید ہمدانی کے حوالے سےکمپنی اور وزارت میں یہ تاثر عام ہے کہ انہیں گیس کمپنیوںکے بنیادی بزنس کاککھ نہیںپتہ اور وہ سوئی نادرن کو سوئی سدرن کی جگہ پر لاکھڑا کریںگے۔اس حوالے سے نمائندہ نے وزیر پٹرولیم مصدق ملک سے بات کی تو ان کا کہنا تھا کہ انہیں کسی کی مراعات پر کوئی اعتراض نہیں ہے۔ لیکن کمپنیوں کو کارکردگی دکھانا ہوگی۔ جب ان سےپوچھا گیا کہ آپ کو سوئی سدرن نے یو۔ ایف ۔جی پر غلط بریفنگ دی ہے تو، ان کا کہنا تھا کہ اگر یہ ثابت ہوگیا وہ اس پر سخت ایکشن لیں گے۔ انہوںنے کہا کہ سابق حکومت کی جانب سے لگائی جانے والی مینجمنٹ اور بورڈ ز کی کارکردگی کاقریب سے جائزہ لے رہے ہیں۔اس تناظر میںمیرٹ پر فیصلے کیے جائیں گے ۔

Report-Nasir-jamal-Islamabad
============================