پاکستان کا اہم مسئلہ پانی کی قلت کا ہے اور ہماری معیشت پانی پر دارومدار رکھتی ہے پانی کے بغیرزراعت ناممکن ہے اور صوبہ سندھ کی زراعت کا انحصار صرف سندھودریاء کے پانی پر ہے جبکہ پنجاب میں زیر زمین پانی موجود ہے


صوبائی وزیر آبپاشی جام خان شورو کی پریس کانفرنس

کراچی : صوبائی وزیربرائے محکمہ آبپاشی جام خان شورو نے آج کراچی پریس کلب میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان کا اہم مسئلہ پانی کی قلت کا ہے اور ہماری معیشت پانی پر دارومدار رکھتی ہے پانی کے بغیرزراعت ناممکن ہے اور صوبہ سندھ کی زراعت کا انحصار صرف سندھودریاء کے پانی پر ہے جبکہ پنجاب میں زیر زمین پانی موجود ہے۔ صوبائی وزیر نے کہا کہ ہر سال ارسا کی ایڈوائزری کمیٹی کے دو اجلاس طلب کیئے جاتے ہیں ارسا کی 31مارچ کومیٹنگ ہوئی جس میں مجموعی طور پر 22 فیصد پانی قلت کابتایا گیا ہم نے اس حساب سے صوبہ سندھ میں


پانی تقسیم کی منصوبہ بندی کی لیکن اپریل کے مہینے کی شروعات میں پانی کی شارٹیج 50 فیصد تک جا پہنچی ۔ آبی معاہدہ 1991 کے مطابق ارسا کی جانب سے صوبوں کو ٹین ڈیلیز کے حساب سے پانی کا کوٹہ فراہم کیاجاتا ہے اس طرح اپریل مہینے کے دوسرے ہفتے میں صوبہ سندھ کو 45 فیصد کم پانی فراہم کیا گیا اوسطاً ہمیں اپریل کے مہینے میں 42 فیصد اور پنجاب کو 36 فیصد پانی کی شارٹییج دی گئی جس پر ہم نے پھرپور احتجاج کیا۔ جام خان شورو کا کہنا تھا کہ ہمارے پاس کپاس اور گندم کے فصل خریف کے ابتدائی سیزن میں اگھائی جاتے ہیں اس لئے اپریل کے مہینے میں ہمیں زیادہ پانی درکار ہوتا ہے جس کی بعد جون اور جولائی کےمہینوں میں زیادہ ملنے والے پانی کی تلافی کی جاتی ہے لیکن ارسا کی جانب سے ہمیں پانی کی شدید قلت کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ 7 مئی کو وزیراعلی سندھ سید مراد علی شاہ نے وفاقی وزیر برائے آبی وسائل خورشیدشاھ اور ارسا چیئرمین سے سکھربیراج پرایک اجلاس طلب کیا جس میں ہمیں بتایا گیا کہ پانی تونسہ تک صحیح پہنچ رہاہے لیکن ہمیں گدو کے مقام پربہت کم پانی ملا۔ اس اجلاس میں وفاقی وزیر خورشید شاھ نے ہمیں یقین دہانی کروائی اگرصوبہ سندھ میں پانی قلت پر بتائیں گئے اعداد و شمار درست ہوئے تو سندھ کے ساتھ زیادتی نہیں ہوگی ۔ صوبائی وزیر جام خان شورو نے مزید کہا کہ7مئی کے بعد 11 مئی کو قومی اسیمبلی کی اسٹینڈنگ کمیٹی کےاجلاس کی کال کی گئی


اور جس میں چیئرمین نواب یوسف ٹالپور، سیکرٹری پاور، ارسا چیئرمین، پنجاب ،بلوچستان کے نمائندے بھی شریک تھے ۔ جس کے بعد پانی کمی میں بہتری کے بجائے 51 فیصد شارٹییج کردگی گئی جبکہ ایک لاکھ 99 ہزار کیوسک پانی موجود ہے لیکن اس سال 51فیصد پچھلے سال 22فیصد کمی دی گئی ۔صوبائی وزیر جام خان شورو کا کہنا تھا کہ پنجاب کے صوبائی سیکریٹری محکمہ آبپاشی ارسا کو ایک سازش کے تحت چلارہے ہیں جوکہ قومی اسمبلی کی اسٹیڈنگ کمیٹی کے دیے گئے ہدایات کو نظر انداز کرکے صوبہ سندھ کے پانی پر ڈاکہ ڈال رہے ہیں, جبکہ قومی اسیمبلی کی اسٹیڈنگ کمیٹی کے اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ چشما اور تربیلا کے اوپر پانی جمع نہیں کیا جائیگا اس کے برخلاف ٹی پی اور سی جے لنک کینالز کو کھولا گیا ہےٹی پی


لنک کینال جو کہ فلڈ کینال ہے اسکو بھی کھول دیاگیاہے اس وقت 9 ہزار کیوسک پر چلایا جارہا ہے۔پانی بحران میں کینجھر جھیل میں پانی کی سطح 47 فیٹ کے ڈیڈ لیول تک جا پہنچی ہے جس سے پینے کیلئے پانی کی بھی شدید قلت کا سامنا ہے اور اس صورتحال میں سی جے اور ٹی پی لنک کینالز کو کھول کر سندھ کےساتھہ ناانصافی کی جارہی ہے ۔انہوں نے الزام عائد کیا کہ پورے ملک کے پانی کو پنجاب کا سیکریٹری آبپاشی چلارہاہے۔ وفاقی حکومت کو سوچنا چاہیے کہ پانی بحران میں انکے کیخلاف کون سازش کر رہا ہے۔ جام خان شورو کا کہنا تھا کہ تونسا کے مقام سے جب پانی چھوڑا جاتا ہے تو وہ تین دن میں سندھ میں پہنچتاہےلیکن7 مئی کو تونسہ سےتقریباً 47ہزار کیوسک پانی چھوڑا گیا جو دس فیصد واٹر لاسز کے بعد تقریباً 42 ہزار کیوسک پانی پہچنا چاہیے تھا لیکن گدو پر صرف 34 ہزار کیوسک پانی پہنچا جو کہ پانی بحران میں سب سے زیادہ پریشان کن صورتحال تھی ۔ اس بات کو ارسا کے نمائندوں نے اعتراف کیا کہ تونسہ سے گدو تک پانی غائب ہوا ہے ۔ جس پر سندھ کے مطالبے کے بعد ارسا نے ایک انکوائری کمیٹی تشکیل دی جس میں پنجاب، سندھ، بلوچستان صوبوں کے نمائندے، واپڈا و دیگر شامل تھے۔ اس کمیٹی نے پانی کے متعلق بتایا کہ صوبہ سندھ میں تقریباً 32 ہزار کیوسک پانی چھوڑا گیا۔ صوبائی وزیر جام خان شورو شورو کا کہنا تھا پانی صورتحال پر وفاقی حکومت کو سوچنا ہے کہ ایک سازش کے تحت کس طرح سے پانی کی شدید قلت پیدا کی جارہی ہے، پنجاب کے صوبائی سیکریٹری آبپاشی زبردستی سی جے اور ٹی پی لنک کینالز چلا رہا ہے وہ ارسا، قومی اسمبلی کی اسٹیڈنگ کمیٹی کے فیصلوں کو بھی نظرانداز کر رہاہے ۔


سوالات کےجوابات میں صوبائی وزیر جام خان شورو نے کہا کہ کینجھر 52 ہزار سے 42 کیوسک پانی پر پہنچ چکی ہے۔اب بھی کوٹری بیراج پر پینے کے پانی کی شدید قلت کا سامنا ہے۔ہمارے پاس ساڑھے پانچ لاکھ ہیکٹرز سے آدھے پر بھی کپاس نہیں لگ سکی اور اس آدھے کپاس کے فصل کو بھی پانی دینے کےلیے نہیں ہے جس سےفصل کا بہت نقصان ہورہا ہے۔ انہوں نےکہاکہ ہم نے وزیراعظم شہباز شریف سے پہلا مطالبہ کیا تھا کہ 1991 کے آبی معاہدے پر عملدرآمد کرائیں اور ہم پانی قلت پر احتجاج کرتے رہی گے وفاقی حکومت کو سوچنا ہوگا کہ اس وقت سازش کون کررہا ہے اس سازش کو بے نقاب کرنا چاہیے۔ ایک سوال کے جواب میں کہا کہ صوبہ سندھ کو 2017 کی قومی واٹر پالیسی پر اعتراضات ہیں۔ہم اپنی واٹر پالیسی خود بنائیں گے کیونکہ وہ کہتے بڑے ڈیم بنائیں ہم بڑے ڈیم نہیں بنا سکتے ہیں۔

جاری کردہ : جعفر حسین
==============================================