مسلم لیگ کو پاک بھارت تجارت کی بحالی میں عجلت کیوں ہے ؟ بشیر سدوزئی ۔

سچ تو یہ ہے،

مسلم لیگ کو پاک بھارت تجارت کی بحالی میں عجلت کیوں ہے ؟

بشیر سدوزئی ۔

یہ افواہ نہیں اور نہ ہی سیاسی پروپیگنڈا ہے کہ شہباز شریف کی
وفاقی کابینہ نے منگل 10 مئی کو انڈیا میں ٹریڈ منسٹر تعینات کرنے کی منظوری دی ہے۔ جس کو 5 اگست 2019ء کو بھارت کی جانب سے کشمیر کے حوالے سے کئے گئے اقدامات کے بعد بطور احتجاج کشمیر کی خصوصی حیثیت کی بحالی تک واپس بلا لیا گیا تھا۔ اس وقت کی اپوزیشن اور آج کی حکومت نے بھارت کے اس اقدام کا ٹھوس جواب نہ دینے پر عمران خان کو کشمیر فروش کہا اور اس نعرے بازی میں مسلم لیگ ن اور مولانا فضل الرحمن پیش، پیش رہے۔ تاہم مسلم لیگی حکومت آنے کے ڈیڑھ ماہ کے اندر، اندر ہی بھارتی میں ٹریڈ منسٹر کی بحالی کشمیریوں کے لیے لمحہ فکریہ ہے اور یہ سمجھنے میں کوئی مشکل نہیں کہ کس کو کشمیر سے کتنی محبت ہے ۔گو کہ وزارت تجارت نے پھس پھسے بیان میں کہا کہ بھارت کے ساتھ تجارتی پالیسی میں کوئی تبدیلی نہیں آ رہی، ٹریڈ منسٹر کی بحالی اور تعیناتی کی منظوری معمول کی کارروائی ہے لیکن یہ معمول کی کارروائی شریفوں کے دور حکومت میں ہی کیوں ہوتی ہے اور اس میں اتنی عجلت کیوں دیکھائی جا رہی ہے ۔ کشمیریوں کو شریف خاندان اور مولانا فضل الرحمن کے حوالے سے تلخ تجربات ہیں۔ نواز شریف کے مودی کے ساتھ پوشیدہ اور نمایاں رابطے، کشمیریوں کو ابھی بھولے نہیں، شادی کی تقریب میں بلا پروگرام راونڈ بلانا، ساڑھیوں کے تحفہ، ملاقاتوں میں کشمیر کے نام کا بلیک آؤٹ اور دلی میں حریت کانفرنس کے رہنماؤں سے ملاقات نہ کرنا تو ریکارڈ پر ہے اور وزارت خارجہ کی ترجمان تسلیم اسلم کا وہ بیان بھی ریکارڈ پر ہے کہ وزیر اعظم نواز شریف نے ہفتہ وار پریس بریفنگ کے دوران بھارت کے خلاف اور کشمیریوں کی حمایت میں بیان ہلکہ رکھنے کی ہدایت کر رکھی تھی ۔ نواز شریف کی ان تمام کاوشوں کا پس منظر مسئلہ کشمیر سے بالا تر بھارت کے ساتھ دوستی اور تجارت کو بڑھانا تھا جس کے لیے اس نے اپنی سے تمام کوشش کی ۔ انڈیا کا ارب پتی حدیدی صنعت کار سجّن جندل نے بدھ 26 اپریل 1917 کو مری میں وزیر اعظم نواز شریف کو مبینہ طور پر نریندر مودی کا پیغام پہنچایا، باہمی دوستی اور نجی تجارت پر تبادلہ خیال ہوا۔ اس وقت برہان وہانی کی شہادت کے بعد مقبوضہ کشمیر میں مکمل ہڑتال اور لاک ڈاون تھا، علی گیلانی سمیت حریت رہنماء گرفتار اور ہزاروں مجائد ٹارچر سیلوں میں بند اور روزانہ کی بنیاد پر تحریک آزادی کے مجاہد شہید ہو رہے تھے۔ مودی افغانستان سے واپسی پر بغیر شیڈول راونڈ شادی میں پہنچا تو کہا گیا کہ دونوں وزرائے اعظم کے درمیان اس ملاقات کا اہتمام جندل نے ہی کروایا تھا۔ دوستی اور اعتماد کا یہ عالم کہ کشمیری نزادا پاکستان کا وزیراعظم ہزاروں کشمیریوں کے قاتل مودی کو چھوڑنے خود گاڑی ڈرائیو کر کے لاہور آئرپورٹ پہنچا تو سید علی گیلانی نے یہ منظر دیکھ کر اپنا مقدمہ اللہ کی عدالت میں پیش کیا۔ جندل نے 2014 کو بھی نواز شریف سے ملاقات کی تھی جب وہ وزیراعظم مودی کی تقریبِ حلف برداری میں دلی گئے تھے۔ جب کہ اسی سال نیپال میں سارک سربراہی اجلاس کے دوران دونوں وزراء اعظم کی ملاقات کے حوالے سے بھی خبریں آئیں تھی کہ جندل ہی اس ملاقات کا رابطہ کار ہے۔ سجن جندل لوپروفائل اور غیر سیاسی تاجر ہے مودی کے قریب کیسے پہنچا ۔ تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ اس کا سبب نواز شریف سے اس کا تعلق ہے۔ اگر اس رائے کو پروپیگنڈا کہہ کر مسترد بھی کر دیا جائے تو یہ واضح ہو چکا کہ دونوں وزراء اعظم کے درمیان رابطہ کاری کا کردار اسی کا تھا اور یہ رابطہ کاری ریاست سے ریاست نہیں بلکہ فرد سے فرد تک تھی ۔بھارت کی صحافی اور تجزیہ کار برکھا دت نے انہی دنوں اس حوالے سے لکھا تھا کہ” جندل مودی کے ایک ‘غیر رسمی ایلچی’ ہیں جو دنوں رہنماؤں کے درمیاں ایک ‘خفیہ پل’ کا کام کر رہے ہیں ‘انتہائی دشوار حالات میں بھی وہ دونوں رہنماؤں کے درمیان رابطے کی کڑی ہیں”۔جندل کا اچانک مری آمد اس وقت ہوئی تھی جب انڈین بحریہ کے کمانڈر کلبھوشن جادھو کو جاسوسی اور تخریب کاری کے جرم میں اسلام آباد میں موت کی سزا سنائی گئی جو اس وقت مودی کے لیے بھارت میں شدید سبکی کا سبب بنی۔ تجزیہ نگاروں کا خیال تھا کہ جندل نے نواز شریف تک جو پیغامات پہنچائے تھے ان میں کلبھوشن بھی ایک ہو گا۔ مری میں ہونے والی یہ ملاقات وزارت خارجہ داخلہ اور ایجنسیوں سے اوجل تھی اس لیے اس کا ایجنڈا پبلک نہیں ہوا لیکن نواز شریف نے کلبھوشن کے معاملے میں ہمیشہ چپ کا روزہ رکھا ۔حتی کہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں تقریر کے دوران بھی اس کا نام تک نہیں لیا۔ ممکن ہے نواز شریف کے اقدامات ملک اور قوم کے لیے مثبت ہوئے ہوں تاہم جو بھی کام خفیہ رکھا جائے اس میں شبہات تو آتے ہیں ۔ اگر بھارت کے ساتھ اعتماد کا رشتہ مثبت انداز میں بحال ہو بھی رہا تھا تو نواز شریف کی ذمہ داری تھی کہ وہ حریت قیادت کو بھی اعتماد میں لیتا اور مودی کو مجبور کرتا کہ کشمیری میں ایسا کچھ کرو کہ کشمیریوں کو سہولت محسوس ہو ۔ لیکن کشمیریوں کو فاصلے پر رکھ کر مودی کے ساتھ خفیہ ملاقاتیں سارے عمل کو مشکوک بناتی تھیں ۔ اس وقت میڈیا رپورٹس تو یہی تھی کہ سجن جندل اور نواز شریف کے عشروں پرانے خاندانی تعلقات اور دونوں حدیدی ہیں ۔ مبینہ طور پر نواز شریف اسی کے ذریعے بھارت میں اسٹیل مل لگانے چاتا تھا جہاں افغانستان میں جنگ کے دوران تباہ ہونے والے جنگی سامان کا اسکریپ استعمال ہوتا جو واہگہ بارڈر کے ذریعے بھارت جاتا ۔ تجرباتی طور پر یہ کام شروع بھی ہو چکا تھا لیکن پاکستان کے بعض ذمہ دار اداروں نے اس اسکریپ کو باڈر کراس ہونے سے پہلے ہی روک لیا کہ افغانستان سے بھارت منتقل ہونے والے ناکارہ ٹینک اور طیارے مرمت کے بعد پاکستان کے خلاف استعمال ہونے کے خدشات زیادہ ہیں۔ بھارت چوں کہ امریکا کا اسٹریٹجک پارٹنر ہے لہذا ان ناکارہ ہتھیاروں کے پرزے حاصل کرنے می اس کو کوئی دشواری نہیں ہو گی۔ اس صورت حال کا اس وقت اعلی سطح پر نوٹس لیا گیا اور وزیراعظم ہوتے ہوئے بھی نواز شریف افغانستان سے لایا ہوا اسکریپ واہگہ بارڈر کراس نہ کرا سکا۔ اسی طرح مولانا فضل الرحمن لگ بھگ 12 سال تک چھ کروڑ روپے سالانہ اصراف کے ساتھ چئیرمین کشمیر کمیٹی رہا لیکن کارکردگی عوام کے سامنے ہے۔ مسلم لیگ ن کی کشمیر کے حوالے سے سابق کارکردگی اور بھارت کے ساتھ دوستی کی ان کوششوں کے تناظر میں شہباز شریف کی جانب سے حالیہ اقدامات کشمیریوں کے لیے باعث تشویش ہیں اور وہ پریشان ہیں کہ یہ اقدام بھارت کے ساتھ تجارت کا آغاز اور ماضی کی طرح کشمیریوں کو بائی پاس کر کے انڈیا کے ساتھ دوستی اور مذاکرات کی بحالی کا پہلا قدم تو نہیں ہے۔واضح رہے کہ پاکستان نے اگست 2019 میں انڈیا کی جانب سے کشمیر کی خصوصی حیثیت کے خاتمے کے قانون سازی کے بعد تجارت معطل کرنے اور بھارت سے ٹریڈ منسٹر کو واپس بلانے کا اعلان کیا تھا اور اس اعلان پر قائم بھی رہا۔ اپریل 2021 میں اقتصادی رابطہ کمیٹی نے انڈیا سے کپاس اور چینی درآمد کرنے کی سمری وفاقی کابینہ کو ارسال کی تھی جسے سابق وزیراعظم عمران خان کی کابینہ نے مسترد کر دیا تھا۔ حالاں کہ اس وقت ملک میں چینی کی ضرورت تھی۔ اب شہباز شریف کی جانب سے ایسے وقت میں ٹریڈ منسٹر کی بحالی ہوئی جب 19 مئی کو بھارت یاسین ملک، شبیر احمد شاہ، نعیم احمد خان، الطاف شاہ، آفتاب شاہ، نول کشور کپور اور فاروق احمد ڈار عرف بِٹہ کراٹے سمیت 11 کشمیری حریت رہنمائوں پر غداری کا مقدمہ شروع کر رہا ہے جن کے خلاف گزشتہ ہفتہ فرد جرم عائد کی گئی تھی ۔ جب کہ محمد یوسف شاہ عرف سید صلاح الدین اور حافظ سعید کو اشتہاری مجرم قرار دیا گیا۔ مسئلہ کشمیر پر شہ فریقی بات جیت سے قبل کوئی بھی اقدام جموں و کشمیر کے عوام کو قبول نہیں ہے لہذا مسلم لیگ کو چاہیے کہ اپنی پوزیشن واضح اور بھارت میں ٹریڈ منسٹر کے فیصلے کو وآپس لے۔