عالمی مالیاتی اداروں سے لئے گئے قرضے اور حکومت پاکستان کی جانب سے ملکی سرمایہ کاروں و سیاسی شخصیات کو معاف کئے گئے قرضے۔۔۔۔۔اخر معاملہ کیا ھے تحریر ۔۔۔۔شہزاد بھٹہ

تحریر ۔۔۔۔شہزاد بھٹہ
==================


پاکستان پچھلے کئی سالوں سے معاشی بدحالی کا شکار ھے جس کا ذمہ دار مختلف سیاسی جماعتیں ایک دوسرے کو دے رھے ھیں ھر آنے والی حکومت پچھلی حکومت کو معاشی بدحالی اور تباھی کا ذمہ دار قرار دیتے ہیں
حکومتی امور چلانے کے ائی ایم ایف، مالیاتی اداروں، پیرس کلب و غیر ممالک اور ملکی کمرشل بینکوں سے نہایت سخت شرائط پر قرضے لے کر کام چلایا جا رھا ھے


عام طور دیکھا گیا ھے کہ ھم جو قرضے حکومتی امور چلانے کے لیتے ہیں وہ حکومتی ادارے اپنی عیاشیوں اور فضول خرچیوں پر صرف کرتے ہیں نئے نئے بے کار و غیر ضروری ترقیاتی منصوبوں کے ساتھ ساتھ نئی نئی گاڑیوں و دفاتر کی آرائش وغیرہ پر خرچ کر دیئے جاتے ہیں
مزے کی بات ھے کہ ھماری حکومتیں قرضے اتارنے کے لیے مزید قرضے لیتی ھیں آج بیرونی قرضے ملکی تاریخ کے بلند ترین سطح 127 بلین ڈالر پر پہنچ چکے ھیں پی ٹی آئی کی حکومت نے قرضے حاصل کرنے کے پچھلے تمام ریکارڈ توڑ دئیے ھیں
موجودہ پی ڈی ایم حکومت نے حکومتی امور چلانے کے لیے آئی ایم ایف و دیگر مالیاتی اداروں سے قرضے لینے کے لیے مذکرات کر رھی ھے جو نہایت سخت شرائط پر قرضے دینے پر اصرار کر رھے ھیں جن کا اثر عام طور پر غریب عوام پر پڑتا ھے


یہاں ایک بات کا ذکر کرنا ضروری ھے کہ حکومت پاکستان اپنے مالیاتی معاملات چلانے کے لئے غیر ملکی مالیاتی اداروں و ممالک سے قرضوں کی بھیک مانگ رھی ھے جس کے لئے وہ نہایت سخت شرائط بھی ماننے کو تیار ھے
دوسری طرف حکومت پاکستان اپنے سرمایہ کاروں اور کاروباری دوستوں کو ملکی مالیاتی اداروں سے لئے گئے اربوں روپے کے قرضے بڑی فراخدلی سے معاف کرتی آئی ھے پاکستان میں بااثر افراد حکومت کی ملی بھگت سے بینکوں سے بڑے بڑے قرضے لیتے ہیں اور پھر انہیں معاف کرا لیتے ہیں۔ غریب عوام کا پیسہ سیاست دانوں اور رئیسوں کو منتقل کرنے کا یہ نہایت ہی بھونڈا طریقہ ھے


ایک سرکاری رپورٹ کے مطابق 1990 سے 2015 تک 988 سے زائد کمپینوں اور کاروباری و سیاسی شخصیات نے تقریباً 4 کھرب 30 ارب اور 6 کروڑ روپے ناجائز طور پر معاف کروائے جبکہ پچھلے 4 سالوں میں تقربیا 112 ارب روپے کے ملکی قرضے معاف کئے گئے
مزے کی بات ھے جن لوگوں کے قرضے معاف کئے گئے وہ کوئی معمولی لوگ نہیں ہیں بلکہ ارب پتی پاکستانی ھیں جو نہایت شاہانہ زندگی بسر کرتے ہیں جن کے شب وروز سکون و آرام اور موج مستی میں گزرتے ہیں ان کا ایک پاؤں پاکستان اور دوسرا پاؤں کسی غیر ملک میں ھوتا ھے پاکستان کے ساتھ ساتھ دیگر ممالک میں رھائش گائیں اور کاروباری سلسلے بھی موجود ھیں
یہ غریب ترین ارب کھرب پتی لوگ عالیشان بنگلوں میں رہتی ھیں لاکھوں کروڑوں مالیت کی گاڑیاں استعمال کرتے ہیں بلکہ ایکڑوں میں پھیلے فارم ہاؤسز میں کئی کئی قیمتی گاڑیاں کھڑی ھیں


مقروض قوم کی عیاشیاں کا مظاہرہ کرنا ھو تو آپ کسی بھی شہر کی کسی بھی سڑک پر کھڑے ھو جائیں تو آپ کو نئی نویلی قیمتی ترین غیر ملکی گاڑیاں دیکھنے کو مل جائیں گئی یا پھر کسی شاپنگ مال یا ریسٹورنٹ میں چلے جائیں تو آپ کو کروڑوں پتی پاکستانی غیر ممالک سے لئے گئے قرضوں کو ھوا میں اڑاتے ھوئے نظر آئیں گئے
موجودہ بدترین معاشی صورتحال کا مقابلہ کرنے کے لیے ایک چھوٹی سی تجویز پیش خدمت ھے کہ قیام پاکستان کے بعد سے لیکر آج تک پاکستانی سرمایہ کاروں اور سیاسی شخصیات کو معاف کئے گئے تمام ملکی قرضے فوری طور پر واپس لئے جائیں اور قومی خزانے میں جمع کرائے جائیں تاکہ ملکی مالیاتی نظام کو ٹھیک کیا جاسکے اور آئی ایم ایف سمیت دیگر مالیاتی اداروں کے قرضے واپس کئے جائیں
آیندہ سے قانونی سازی کی جائے کہ جو بھی بندہ ملکی مالیاتی اداروں سے قرض لے وہ مقررہ وقت پر واپس کرنے کا پابند ھوگا جیسے کہ ایک عام پاکستانی کرتا ھے کسی کو بھی کسی قسم کا قرضہ معاف نہ کیا جائے
نئی غیر ملکی گاڑیاں خریدنے پر فوری پابندی لگائی جائے اور کوشش کی جائے کہ ملک میں گاڑیاں اور بسیں بنانے کے کارخانے لگائے جائیں
غیر ضروری اخراجات و بے کار و بے فایدہ ترقیاتی منصوبے بند کئے جائیں
====================================