سندھ حکومت اور سندھ ایڈز کنٹرول پروگرام لاڑکانہ میں ایڈز کے پھیلائو کو روکنے میں مکمل طور پر ناکام،

لاڑکانہ ( ایکسکلیوسو, بریکنگ رپورٹ محمد عاشق پٹھان )

سندھ حکومت اور سندھ ایڈز کنٹرول پروگرام لاڑکانہ میں ایڈز کے پھیلائو کو روکنے میں مکمل طور پر ناکام، لاڑکانہ ضلع میں ایڈز کے ریفرل کیسز میں مجموعی طور پر 25 فیصد تک اضافہ مثبت کیسز کی تعداد 3 سالوں میں 5 ہزار کے قریب پہنچ گئی ذرائع، ماضی میں مبینہ کرپشنز کے الزامات کا شکار پی ڈی سندھ ایڈز کنٹرول پیپلزپارٹی کو لاڑکانہ حلقے میں سیاسی بدنامی سے بچانے میں مشغول، لاڑکانہ ضلع کے چاروں ایڈز ٹریٹمنٹ سینٹرز کے افسران کا آن ریکارڈ میڈیا سے مثبت کیسز کے اعداد و شمار سمیت دیگر تفصیلات دینے سے انکار، نام ظاہر نہ کرنے پر پس پردہ سب بتا دیا تفصیلات کے مطابق نیشنل ہیلتھ سروے کی 3 سال قبل کی رپورٹ کے مطابق سندھ میں آبادی کے تناسب کے حساب سے ایڈز کے مریض پنجاب سے زیادہ پائے جاتے ہیں جن کی مجموعی تعداد 60 ہزار کے قریب تھی تاہم اپریل 2019 میں 930 نئے کیسز صرف رتودیرو میں رپورٹ ہوئے جن میں 80 فیصد تاہم دسمبر 2019 میں 1221 نئے کیسز صرف رتودیرو میں سامنے آئے جن میں بچوں کی تعداد 970 تھی 2019 میں سندھ ایڈز کنٹرول پروگرام کے مطابق 15 ماہ میں 42 ہزار سے زائد افراد کی اسکریننگ کی گئی جس کے بعد صرف رتودیرو ایڈز ٹریٹمنٹ سینٹر پر نومبر 2020 میں 1438 کیسز کو رجسٹرڈ کیا گیا جس میں 1076 بچے، جن میں 666 لڑکے اور 410 لڑکیاں شامل تھیں جبکہ 34 بچے نومبر 2020 میں ہی ایڈز کے باعث جانبحق ہوچکے تھے تاہم سندھ ایڈز کنٹرول ذرائع کے مطابق اس وقت رتودیرو ٹریٹمنٹ سینٹر پر 18 سو سے زائد، لاڑکانہ شیخ زید وومن اسپتال میں 250 سے زائد، شیخ زید چلڈرن میں 450 سے زائد اور سول اسپتال سینٹر پر 22 سو زائد مریض رجسٹرڈ ہیں جبکہ ہائی رسک پاپولیشن میں خود کار اسکریننگ کا عمل بھی گزشتہ 2 سال سے بند ہے جس کے باعث زیادہ تر کیسز مختلف ڈاکٹرز سے ریفر ہو کر سامنے آ رہے ہیں اور ریفرل کیسز میں تیزی سے اضافہ بھی سامنے آ رہا ہے، لاڑکانہ ضلع میں صرف حاملہ ایڈز پازیٹو خواتین کی تعداد 4 سو سے تجاوز کر چکی ہے اس سلسلے میں سندھ ایڈز رتو دیرو سینٹر کی انچارج ڈاکٹر شاہدہ میمن نے اپنے سینٹر کے اعداد و شمار کے متعلق تصدیق یا تردید کرنے سے


انکار کرتے ہوئے کہا کہ انہیں اعداد و شمار میڈیا کو دینے کی اجازت نہیں تاہم ذرائع کا کہنا ہے کہ لاڑکانہ ضلع کی 7 لاکھ سے زائد آبادی میں ایڈز کا تناسب تیزی سے بڑھ رہا ہے جس کی بنیادی وجہ معاشرے میں ایچ آئی وی پازیٹو مریض ہیں جو صورتحال سے انجان ہیں معاشرتی مسائل کے باعث اپنی بیماری کو چھپا رہے ہیں دوسری جانب ایچ آئی وی کے پھیلائو کے کیے گئے سندھ حکومت کے تمام اقدامات بے سود ثابت ہوئے ہیں سندھ ہیلتھ کئیر کمیشن اب تک عطائی کلینکس کو بھی بند نہیں کروا سکا ہے اور دیہی علاقوں سمیت شہر کے مختلف پس گردائی علاقوں میں عطائی ڈاکٹرز غیر قانونی طور پر مریضوں کا علاج کر رہے ہیں ایڈز کی ہائی رسک پاپولیشن میں شامل افراد کی بھی اسکریننگ کا کوئی خود کار نظام موجود نہیں ہے ذرائع کا کہنا ہے کہ نئے تعینات پروجیکٹ ڈاریکٹر سندھ ایڈز کنٹرول پروگرام ڈاکٹر ارشاد کاظمی کو ماضی میں بطور میڈیکل سپریٹنڈنٹ نوشہروفیروز اور لاڑکانہ عدالتی احکامات کے خلاف بطور میڈیکل سپریٹنڈنٹ تعینات کیے گئے ہیں انکی تعیناتیاں اس وقت کی گئیں جب وہ گریڈ 19 کے افسر تھے اور محکمہ صحت سندھ نے انکے کا ڈے ٹو ڈے کام کرنے کا خاص آرڈر نکالا گیا تھا اور ڈے ٹو ڈے آرڈر پر وہ ڈیڈھ سال سے زیادہ عرصے تک میڈیکل سپریٹنڈنٹ کے لاڑکانہ کے عہدے پر فائز رہے جبکہ اس سے قبل محکمہ صحت سندھ نے ڈاکٹر ارشاد کاظمی کو بطور میڈیکل سپریٹنڈنٹ نوشہروفیروز مبینہ کرپشن کے الزام میں معطل کیا تھا بطور ایم ایس لاڑکانہ کے میں بھی انپر اسپتال کی ڈائیٹ اور آکسیجن سیلنڈرز کی خریداری کی مد میں کروڑوں روپئے کی بدعنوانی کے الزامات لگے جبکہ کووڈ کے دوران بھی انہوں نے لاڑکانہ میں ہائی ٹیک کووڈ پی سی آر لیب کے قیام کا دعوی کیا جس کے متعلق بعد میں حقائق سامنے آ ئے کہ وہ سول اسپتال میں پڑی ہوئی سیکنڈ ہینڈ مشینری سے


بنائی ہوئی لیب تھی جس میں صفائی کا کام کرنے والا سوئیپر خود بھی کووڈ کا شکار ہوگیا تھا، ذرائع کا کہنا تھا کہ وزیر صحت سندھ عذرا پیچوہو نے اپنے منظور نظر افسر کو پی ڈی سندھ ایڈز کنٹرول پروگرام کے عہدے پر فائز صرف اس لیے کیا کہ لاڑکانہ کو میڈیا میں ایڈز کے باعث ملنے والی سیاسی بدنامی سے بچایا جا سکے ذرائع کے مطابق سندھ ایڈز کنٹرول پروگرام کی جانب سے عوام کے سامنے سب کچھ اچھا ہے کا دعوی کیا جاتا ہے جبکہ عالمی ادارہ صحت کی جانب سے رتودیرو آئوٹ بریک کو کیٹیگری 2 ایمرجنسی ڈکلئیر کرنے کے بعد یونیسف گلوبل فنڈ، نیشنل ایڈز کنٹرول پروگرام سمیت دیگر اداروں سے کروڑوں کی امداد، ادویات، ٹیسٹنگ کٹس، انفراسٹرکچر بطور امداد حاصل کیا جبکہ عالمی اداروں کو ایڈز کی روکتھام، پبلک اوئیرنیس، کمیونٹی ایوئیرنیس اور ٹریٹمنٹ کی سہولیات سے متعلق اعداد و شمار بڑھا چڑھا کر بتائے جاتے ہیں تاکہ امداد کا عمل جاری رہے اور جب عالمی اداروں کے افسران دورہ کرنے آئیں تو ان کے دوروں کو راز میں رکھا جاتا ہے اور مقامی صحافیوں کو ان افسران تک رسائی نہیں دی جاتی جس کی وجہ صرف یہ ہے کہ مقامی صحافیوں کے سوالات عالمی اداروں سے افسران کے سامنے حقائق سے پردہ نہ اٹھا دیں اور یہ عمل مسلسل جاری ہے لیکن دوسری جانب سندھ ایڈز آج تک اسکریننگ کا عمل تک مکمل نہیں کر سکا ہے، ایڈز کا شکار لاڑکانہ کے رہائیشی ایک مریض محمد ہاشم جو کہ ماضی میں ایڈز مریضوں کی فلاح کے لیے کام کرنے والی ایک تنظیم کے کائونسلر بھی رہ چکے ہیں کا کہنا ہے کہ ایڈز میں مبتلہ متوسط طبقے کی ماہانہ راشن کی امداد کو بند کر دیا گیا ہے یہاں تک کئی غریب متاثرین کے پاس ماہ رمضان میں بھی کھانے کو کچھ نہیں تھا جبکہ گزشتہ چند ماہ سے ایڈز مریضوں کی جنرل میڈیسن بھی بند ہے اور ٹریمٹمینٹ سینٹرز پر بھی 15، 15 روز تک ادویات تک میسر نہیں ہوتیں جبکہ بلاول بھٹو کی جانب سے اعلان کردہ ایڈز زدہ مریضوں سے مفت کنوینس کی سہولیات بھی چھینی جا چکی ہیں جس سے ان سمیت دیگر ایڈز کے مریض بے حد متاثر ہورہے ہیں دوسری جانب نام نہ بتانے کی شرط پر سابق ڈپٹی کمشنر لاڑکانہ نے رابطہ کرنے پر بتایا کہ لاڑکانہ میں ایڈز ایک ایٹم بم کی طرح ہے اور بدقسمتی سے اس پر کھل کر بات کرنے اس کے لیے اقدامات اٹھانے کی بجائے سب کچھ چھپانے کی کوششیں کی جارہی ہیں اور ایسا ہی رہا تو رتودیرو آئوٹ بریک کچھ بھی نہیں آئیندہ 5 سے 6 سال میں لاڑکانہ ضلع میں شاید آبادی کے لحاظ سے دنیا کی سب سے بڑی تعداد سامنے آئے انکا کہنا تھا کہ وہ اپنے دور میں حکومت سندھ کو ان تمام خطرات سے آگاہ کر چکے ہیں اب اقدامات اٹھانا سندھ حکومت کا کام ہے تاہم انہیں ہمدردی ہے لاڑکانہ کے عوام سے اسی عوام کے نام پر حکومت چل رہی ہے اور اسی عوام کے ہاتھ کچھ نہیں آتا۔
============================================