واٹر بورڈ کی جانب سے وزیراعلی کو گمراہ کن بریفنگ دیئے جانے کا انکشاف ۔ شہر میں پانی کی ضرورت اور مانگ کو جان بوجھ کر کم بتایا گیا ۔ حقائق چھپانے اور غلط اعداد و شمار پیش کرنے والے افسران کے خلاف کاروائی ہونی چاہیے ۔

کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ کے ذرائع کے مطابق وزیر اعلی سندھ سید مراد علی شاہ کی سربراہی میں ہونے والے اہم اجلاس کے دوران واٹر بورڈ کی جانب سے وزیراعلی کو گمراہ کن بریفنگ دیئے جانے کا انکشاف ۔ شہر میں پانی کی ضرورت اور مانگ کو جان بوجھ کر کم بتایا گیا ۔ حقائق چھپانے اور غلط اعداد و شمار پیش کرنے والے افسران کے خلاف کاروائی ہونی چاہیے ۔ذرائع کے مطابق شہر کے مختلف علاقوں میں پانی کی شدید قلت ہے جس پر احتجاج کا سلسلہ جاری ہے لیکن واٹر بورڈ کے حکام صوبائی وزیر اور وزیر اعلی سے ہدایت پا رہے ہیں اور ان کو صورتحال کا غلط نقشہ بنا کر پیش کر رہے ہیں اجلاس میں موجود پیپلز پارٹی کے اہم رہنماؤں اور اداروں کا خاموش تماشائی کا کردار قرار۔ من پسند افسران کی ہاں میں ہاں ملانے


کے لیے گردن ھلائی جاتی رہی ۔ واٹر بورڈ کے ذرائع کے مطابق سپریم کورٹ کے حکم پر بننے والے جسٹس امیر ہانی مسلم پر مشتمل واٹر کمیشن کی رپورٹ میں پیش کی جانے والی سفارشات کو وٹامن نظرانداز کرتے ہوئے پس پشت ڈال دیا ہے شہر میں نہ ووٹر میٹرز نظر آرہے ہیں نہ شہریوں کو اصل صورت حال سے آگاہی دی جا رہی ہے کہ کہاں کتنا پانی بھیجا گیا کتنا پانی پہنچا ۔ شہر میں آنے والے پانی کو کلورین سے صاف کرنے کا معاملہ بھی مشکوک ہے شہریوں کو صاف پانی مہیا کرنے کی بنیادی ذمہ داری ادا نہیں کی جا رہی ۔ صاف اور میٹھا پانی نہیں پہنچ رہا ۔رمضان المبارک کے دوران شہریوں کو مہنگے داموں ٹینکرز خریدنے پڑے ۔

==============================

کراچی / وزیراعلیٰ ہائوس / اجلاس/ 6 مئی 2022

* وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ کی زیرصدارت واٹر بورڈ کا اجلاس

* اجلاس میں صوبائی وزیر سعید غنی، ناصر شاہ، چیف سیکریٹری، ایڈمنسٹریٹر کے ایم سی، چیئرمی پی اینڈ ڈی، پرنسپل سیکریٹری، سیکریٹری بلدیات، معاون خصوصی وقار مہدی، نجمی عالم، ایم ڈی واٹر بورڈ، سابق ایم ڈی واٹر بورڈ شریک

* شہر کراچی کو 1000 ایم جی ڈی پانی کی ضرورت ہے، اجلاس میں ٓگاہی


* کراچی شہر کو 580 ایم جی ڈی کی سپلائی ہے

* 174 ایم جی ڈی لائن لوسز ہیں اس حساب سے 406 ایم جی ڈی پانی سپلائی کیا جا رہا ہے

* شہر میں بچھائی ہوئی لائن بہت پرائی ہے، اجلاس میں بریفنگ

* پانی لائن پرانی ہونے کے باعث پانی ضایع ہوتا ہے

* کچھ علاقوں میں کافی دنوں کے بعد پانی مہیا کیا جاتا ہے

* وزیراعلیٰ سندھ نے اصل میں پانی کی تقسیم کا مسئلہ ہے

* پانی کی لائن بچھانے کیلئے ہمیں پرانی واٹر سپلائی پائپس تبدیل کرنی ہونگی، وزیراعلیٰ سندھ

* واٹر سپلائی کے سسٹم کو بہتر کرنے کیلئے 1.59 ملین روپے کی ایک اسکیم جاری ہے

* 406 ایم جی ڈی پانی کی تقسیم منصفانہ ہونے چاہئے ، وزیراعلیٰ سندھ

* وزیراعلیٰ سندھ نے نئے مالی سال 23-2022 میں کے ڈبلیو ایس بی کی اسکیم کو پوری فنڈنگ دینے کا فیصلہ

* 65 ایم جی ڈی واٹر سپلائی اسکیم 9.1 بلین روپے کی اسکیم جاری ہے

* وزیراعلیٰ سندھ نے اسکیم پر کام تیز کرنے کے احکامات دے دیئے

* اسکیم پر کام سست روی کا شکار ہے اس کو تیز کریں، وزیراعلیٰ سندھ

* کے ڈبلیو ایس بی کو اپنی ریوینیو بڑھانے کی ضرورت ہے، وزیراعلیٰ سندھ

* وزیراعلیٰ سندھ نے کے ڈبلیو ایس بی کو ہدایت کی کہ پانی کی تقسیم کا تفصیلی پلان بنائیں

* شہر کے ہر علاقے کو پانی ملنا چاہئے، وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ

* وزیراعلیٰ سندھ کا پانی کی چوری کے خلاف آپریشن کا فیصلہ

* وزیراعلیٰ سندھ نے واٹر بورڈ کو اپنے انتظامی نظام کو بھی بہتر کرنے کی ہدایت کی
===================================

کراچی (6 مئی 2022) وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ کے اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے پانی چوری کے خلاف بھرپور آپریشن شروع کرنے کا فیصلہ کیا ہے تاکہ شہر کے قلت والے علاقوں کو پانی فراہم کیا جاسکے۔ انہوں نے کہا کہ کے ڈبلیو ایس بی کو انتظامیہ سے لے کر پانی کی تقسیم تک اپنے پورے نظام میں بہترین پیشہ ورانہ طریقوں کو اپناتے ہوئے اپنی مجموعی کارکردگی کو بہتر بنانا ہوگا، ریونیو کی وصولی سے لے کر ریونیو کے وسائل میں اضافہ، لائن لاسز کو کم کرنا ہے تاکہ اس کے منصوبوں کو بروقت مکمل کیا جا سکے۔سید مراد علی شاہ نے کہا کہ کے ڈبلیو ایس بی شہر کے لوگوں میں پانی کی پروڈیکشن، ترسیل اور تقسیم کا ذمہ دار ہے۔ لہذا اسے اپنے کام اور خدمات میں اپنی پیشہ ورانہ مہارت کا مظاہرہ کرنا ہو گا۔ جمعہ کے دن وزیراعلیٰ ہاؤس میں منعقدہ اجلاس میں وزیر بلدیات سید ناصر حسین شاہ، وزیر محنت سعید غنی، ایڈمنسٹریٹر کراچی مرتضیٰ وہاب، چیف سیکریٹری سہیل راجپوت، وزیراعلیٰ کے معاون خصوصی وقار مہدی، چیئرمین واٹر بورڈ نجمی عالم، وزیراعلیٰ کے پرنسپل سیکریٹری فیاض جتوئی، سیکریٹری بلدیات نجم شاہ، سابق ایم ڈی واٹر بورڈ اسد اللہ خان، ایم ڈی واٹر بورڈ، چیف انجینئرز اور دیگر حکام نے شرکت کی۔
وزیر بلدیات سید ناصر شاہ نے وزیر اعلیٰ سندھ کو پانی کے نظام سے متعلق امور پر بریفنگ دیتے ہوئے کہا کہ کراچی شہر کو مجموعی طور پر 406 ایم جی ڈی پانی کی فراہمی ہوتی ہے جبکہ 1000 ایم جی ڈی کی طلب ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ پانی کی تقسیم کا نیٹ ورک کئی دہائی پرانا ہے جس کی وجہ سے پانی کی تقسیم کا نظام متاثر ہو رہا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ پانی کی فراہمی کیلئے بچھائے گئے پائپ پرانے اور بوسیدا ہوچکے ہیں جس کی وجہ سے پائپ لائن کے جوڑ سے کافی مقدار میں پانی ضایع ہوتا ہے۔
دستیاب پانی کی فراہمی کی تفصیلات بتاتے ہوئے وزیر بلدیات نے کہا کہ کے ڈبلیو ایس بی نے دھابیجی سے 450 ایم جی ڈی، حب سے 100 ایم جی ڈی اور گھارو سے 30 ایم جی ڈی پانی ملتا ہے اس طرح ہمارے پاس 580 ایم جی ڈی فراہم ہوتا ہے، جس میں سے 30 فیصد یا 174 ایم جی ڈی لائن لاسز میں ضائع ہو جاتا ہے یعنی 406 ایم جی ڈی شہر کے لیے دستیاب ہے۔ واضح رہے کہ شہر کی 25 ملین آبادی/ پانی استعمال کرنے والوں کے لیے فی کس 40 گیلن پانی کے حساب سے 1000 ایم جی ڈی بنتا ہے۔
سید ناصر شاہ کے مطابق بلک واٹر سپلائی سورس میں آخری اضافہ 2007 میں K-III پروجیکٹ کے ذریعے 100 ایم جی ڈی کیا گیا تھا۔ انہوں نے کہا کہ دھابیجی، گھارو یا حب میں بجلی کے بریک ڈاؤن کا مسئلہ سپلائی میں فوری کمی کا نتیجہ بنتا ہے۔
اجلاس کو بتایا گیا کہ ہر ضلع/ ٹاؤن میں پانی کی طلب میں سپلائی کے مقابلے میں دگنا اضافہ ہوا ہے۔ پانی کے مینز/پمپنگ اسٹیشنوں کے قریب صارفین اپنی ضرورت کا پانی کھینچتے ہیں، لیکن ٹیل اینڈرز یا ایلیویٹڈ علاقوں کے صارفین کو پانی کی کمی کی وجہ سے پانی نہیں مل رہا ہے۔
اس پر وزیر اعلیٰ سندھ نے وزیر بلدیات اور واٹر بورڈ کی ٹیم سے کراس سوال کرتے ہوئے کہا کہ جب شہر میں 594 ایم جی ڈی کی اتنی بڑی کمی ہے تو لوگ اسے کیسے پورا کر رہے ہیں۔ انہوں نے جواب دیا کہ پانی کے ٹینکر کے ذریعے گزارا کر رہے ہیں۔ اس پر وزیراعلیٰ سندھ نے کہا کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ سسٹم میں پانی دستیاب ہے جہاں سے ٹینکرز پانی کی طلب کو پورا کرنے کے لیے سپلائی کر رہے ہیں۔
ناصر شاہ نے کہا کہ تمام غیر قانونی ہائیڈرنٹس کو ختم کر دیا گیا ہے اور صرف چھ قانونی ہائیڈرنٹس کام کر رہے ہیں۔ اس پر وزیراعلیٰ سندھ نے کہا کہ ٹینکر پانی لانے کے لیے کینجھر یا دریائے سندھ نہیں جا رہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ وہ واٹر بورڈ کے نظام سے پانی چوری کر رہے ہیں۔
سید مراد علی شاہ نے چیف سیکریٹری سندھ کو ہدایت کی کہ وہ شہر میں پانی چوری کے خلاف فیصلہ کن آپریشن شروع کرنے کے لیے رینجرز، پولیس اور دیگر متعلقہ اداروں کے ساتھ رابطہ کریں۔ انہوں نے کہا کہ میں چاہتا ہوں کہ آپ [KWSB] ان صارفین کے خلاف کارروائی کریں جنہوں نے واٹر سپلائی کے پائپوں پر بھاری پمپ لگائے ہیں اور مین پائپ لائن سے پانی کا غیر قانونی کنکشن لگا رکھے ہیں۔
سید مراد علی شاہ نے واٹر بورڈ انتظامیہ کو ہدایت کی کہ وہ سسٹم میں مزید پانی شامل کرنے اور تقسیم کے نظام کو اپ گریڈ کرنے اور پرانی پائپ لائن کو نئے پائپ لائن سے تبدیل کرنے کی اسکیموں کو تیز کریں۔انہوں نے کہا کہ 9.1 بلین روپے کی 65 ایم جی ڈی اضافی واٹر سپلائی اسکیم، حب کینال کی بحالی اور پی پی پی موڈ کے تحت 5 ایم جی ڈی ڈی-سیلینیشن پروجیکٹ کی تنصیب کے کام کو تیز رفتاری سے شروع کیا جائے۔ انہوں نے مزید کہا کہ کے ڈبلیو ایس بی کو اپنی خدمات، ریوینیو پیداوار، پورے آپریشن کو سنبھالنے کے لیے پیشہ ورانہ مہارت کے لحاظ سے اپنی کارکردگی کو بہتر بنانا چاہیے۔
وزیراعلیٰ سندھ نے کہا کہ کے ڈبلیو ایس بی کے پانی کی تقسیم کا نظام اتنا خراب ہے کہ شہر کے کچھ علاقوں کو چوبیس گھنٹے پانی مل رہا ہے جبکہ دیگر کئی علاقے ہفتوں سے انتظار کر رہے ہوتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اس نظام کو انصاف پسند بنانے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کے ڈبلیو ایس بی کو ہدایت کی کہ وہ پانی کے ٹرنک مین لیول اور ٹاؤن ڈسٹری بیوشن نیٹ ورک پر پانی کی تقسیم کے لیے ایک زوننگ پلان تیار کرے تاکہ ٹیل اینڈ صارفین کو پانی فراہم کیا جا سکے۔
عبدالرشید چنا
ترجمان وزیراعلیٰ سندھ
============================================