کیا سندھ کو ایک فل ٹائم وزیر خزانہ کی ضرورت نہیں ہے ؟

اور کیا وجہ ہے کہ سندھ کو ایک فل ٹائم وزیرخزانہ سے مسلسل محروم رکھا جا رہا ہے ؟ اگر وزیر اعلی کے پاس اتنا فالتو وقت ہوتا ہے کہ وہ وزارت اعلی کے فرائض نبھاتے نبھاتے وزیر خزانہ کی کرسی کے ساتھ بھی سوفیصد انصاف کر سکتا ہے تو پھر یہ فارمولا سید قائم علی شاہ اور ان سے پہلے آنے والے وزراےاعلی پر کیوں لاگو نہیں تھا ؟ اور اگر یہ بات درست مان لی جائے کہ وزیراعلی کو وزیر خزانہ کا قلمدان اپنے پاس رکھنے سے فنانشل حکومتی امور چلانے میں آسانی ہوتی ہے تو پھر شہید بے نظیر بھٹو اور صدر آصف علی زرداری نے اپنے ادوار میں

فل ٹائم وزیرخزانہ کیوں رکھے تھے ؟ کیا وہ نا سمجھ اور نا اہل تھے یا آج کا وزیر اعلی سندھ ان سے بھی زیادہ عقلمند اور سمجھدار نکلا ہے ؟ کیا مراد علی شاہ واقعی بے نظیر بھٹو جیسی وزیراعظم اور آصف علی زرداری جیسے صدر سے بھی بڑا حکمران بن گیا ہے ؟ یا اسے ذہانت و قابلیت میں بے نظیر بھٹو اور آصف علی زرداری کو پیچھے چھوڑ دینے کی غلط فہمی یا خوش فہمی ہو چکی ہے ؟ کیا مراد علی شاہ کو پوری سندھ اسمبلی کے

اندر اور پورے صوبے میں کوئی ایک بھی شخص اس قدر قابلیت اور صلاحیت کا حامل نظر نہیں آتا کہ محکمہ خزانہ کے قلمدان کو ان سے بہتر طریقے سے چلا سکے ؟ کیا مراد علی شاہ کے بغیر سندھ کا محکمہ خزانہ نہیں چل سکتا ؟ کیا سندھ کو ایک فل ٹائم وزیر یا مشیر نہیں مل سکتا جو محکمہ خزانہ کے امور کی دیکھ بھال کر سکے ؟ کیا صرف خزانے کا محکمہ ہی


اہمیت کا حامل ہے اور باقی محکمے غیراہم ہیں جو وہاں پر مختلف وزیر اور مشیر رکھے ہوئے ہیں ۔ورنہ وہاں پر بھی وزراء کی فوج ر کھنے کی کیا ضرورت تھی وہ قلمدان بھی وزیراعلی اپنے پاس ہی رکھ لیتے ۔سوال یہ ہے کہ جو وقت سید مراد علی شاہ کو وزیر اعلی کی کرسی اور ذمہ داریوں کی ادائیگی کے لیے وقف کرنا چاہیے اگر وہ وقت انہوں نے وزیر خزانہ کی حیثیت سے محکمہ خزانہ

کے اجلاس اور فائلوں پر صرف کرنا ہوتا ہے تو پھر یقینی طور پر وہ وزارت اعلی کی ذمہ داریوں کے ساتھ انصاف نہیں کر پاتے اور اگر وہ زیادہ وقت محکمہ خزانہ کے امور پر نہیں دے رہے بلکہ وزارت اعلی کے اجلاسوں دورو ں ملاقاتوں پر صرف کرتے ہیں تو پھر بھی وہ محکمہ خزانہ کے ساتھ ناانصافی کے مرتکب ہوتے ہیں ہر دو صورتوں میں وہ دو کشتیوں میں قدم رکھ کر درحقیقت دونوں کرسیوں کے ساتھ ناانصافی کرتے ہیں اور اسی لیے یہ تاثر پایا جاتا ہے کہ ان کی کارکردگی بہتر ہونے کے باوجود مزید بہتری کی جانب گامزن نہیں ہو سکی جو کہ با آسانی ہو سکتی تھی ۔اگر وہ کسی ایک کشتی میں فل ٹائم سواری کرتے تو ان میں زبردست صلاحیت اور پوٹینشل ہے کہ وہ اپنی اور اپنی حکومت کی کارکردگی کو مزید نکھار سکتے ہیں اور عوام کو صوبے کو ترقی اور فلاح و بہبود کے لئے مزید بہت کچھ کر سکتے ہیں لیکن انہوں نے مختلف اضافی ذمہ داریاں اپنے ساتھ رکھی ہوئی ہیں جو ان کی پرفارمنس اسپیڈ کو سست بنا دیتی ہیں اور وہ اپنے پوٹینشل کے مطابق ڈلیوری سو فیصد نہیں دے پا رہے۔


اور اس کا نقصان صرف پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت اور سیاسی ساکھ کو نہیں پہنچ رہا بلکہ صوبے اور عوام کے ساتھ بھی نا انصافی ہو رہی ہے اور ایسا مسلسل میں سال سے ہو رہا ہے اور اس کا قصور وار اور ذمہ دار اتنا ہی خود مراد علی شاہ ہے جتنا کے کوئی اور ؟
بظاہر یہ دلیل دی جاتی ہے کہ مرادعلی شاہ فنانشل میٹرز کو بہت اچھا ہینڈل کر لیتے ہیں یہ ان کی فیلڈ آف ایکسپرٹیز ہے وہ اپوزیشن کے زمانے میں بھی یہ بوجھ اپنے کندھوں پر اٹھائے ہوئے تھے تب بھی مراد علی شاہ اور شازیہ مری اور چند دیگر ارکان ایسے امور پر بحث کرتے تھے لہذا حکومت بننے کے بعد آسان ترین راستہ یہی تھا کہ پیپلزپارٹی خزانہ کے امور اپنی ٹیم کے بہترین کھلاڑی کے حوالے کر تی اور ایسا ہی کیا گیا یو ں مراد علی شاہ شروع میں مشیر خزانہ پھر وزیر خزانہ اور آگے چل کر وزیراعلی پلیس وزیر خزانہ بن گئے اور اب تک یہی فارمولا کامیابی سے چل رہا ہے ۔
اس دوران متعدد سیکریٹری خزانہ اور وزیر اعلی کے پرنسپل سیکریٹری تبدیل ہوئے اور محکمہ خزانہ میں افسران کا ردوبدل بھی ہوتا رہا لیکن وزیر اعظم نے خود کو کامیاب وزیرخزانہ ثابت کرنے کے لئے چند منظور نظر اور واعتماد افسران کی ایک کور ٹیم تیار کرلی اور محکمہ خزانہ کا سارا کام اس مختصر اور ٹیم یا کچن کابینہ کے حوالے کردیا یوں حکومتی ورکنگ کو آسان بنانے کا راستہ یہ تلاش کیا گیا کہ زیادہ تر فیصلے اور فائلیں مخصوص افسران کے سپرد کردی گئیں جن کی ورکنگ کیپیسٹی ، ورک لوڈ مینجمنٹ اور قوت فیصلہ کی رفتار کارکردگی اور نتائج پر بہت سے مسائل نے جنم لینا شروع کیا مشکلات نے سر اٹھایا ، شکایات پیدا ہوتی گئی اور ان سے صرف نظر کرنے کی پالیسی نے مختلف محکموں کی ریلیز اور ورکنگ کو منفی انداز سے متاثر کرنا شروع کیا جس کو ابتدا میں سیاسی مہارت اور لفظی صلاحیت اور تجربے کی بدولت چھپانے کی کوشش کی جاتی رہی اس دوران مختلف اراکین اسمبلی اور وزراء بھی ناراض ہوئے شکایات نے زور پکڑا تو کچھ افسران کا رد و بدل کر کے معاملے کو رفع دفع کرنے کی کوشش کی گئی لیکن مختلف محکموں کے اندرونی حالات افسران اور ملازمین کے گلے شکوے اور کارکردگی پر مرتب ہونے والے منفی اثرات سے باخبر اور واقف حال لوگوں کا ماننا ہے کہ صوبہ کارکردگی اور نتائج میں کئی گنا آگے جانے سے محروم رہ گیا اس کی رفتار کوبریک لگوانے کے ذمہ دار خود مراد علی شاہ اور ان کی کور ٹیم کے ممبران ہیں ۔
مانا جاتا ہے کہ محکمہ خزانہ کی ورکنگ کا محکمہ پلاننگ اینڈ ڈویلپمنٹ کی ورکنگ کے ساتھ چولی دامن کا ساتھ ہے افسران اور ملازمین نے یہ بات نوٹ کی کہ ایک ہی فریکوئنسی پر کام کرنے والے ذہین اور قابل افسر محمد وسیم کو وزیراعلی نے لمبی اننگ کھیلنے کا موقع پی اینڈ ڈی میں تو ضرور دیا لیکن انہیں ایک مرتبہ بھی سیکریٹری خزانہ نہیں بنایا حالانکہ یہ ان کی شدید خواہش تھی ۔
دوسری طرف محکمہ خزانہ مراد علی شاہ نے ہمیشہ ڈھیلے ڈھالے سیکرٹری خزانہ کو فوقیت دی جو سو فیصد نہیں بلکہ دو سو فیصد ان کے اشاروں پر ناچتے رہے اور انہوں نے بہت سے معاملات میں وہ اسٹینڈ نہیں لیا جو کوئی بھی وہ اصول افسر لے سکتا تھا ۔
نتیجہ یہ ہوا کہ محمد وسیم گریڈ بائیس میں صوبائی حکومت کی جانب سے ترقی پانے کے باوجود محکمہ پلاننگ اینڈ ڈویلپمنٹ سے ہی ریٹائر ہوگئے اور انہیں مزید کوئی ذمہ داری فوری طور پر نہیں سونپی گئی حالانکہ یہ اطلاعات گردش کرتی رہیں کہ وزیراعلی ان کو اسپیشل اسسٹنٹ ٹو سی ایم بنا دیں گے ان کا عہدہ

وزیر کے مساوی ہو گا اور ان سے پلاننگ ڈویلپمنٹ کا کام لیا جائے گا پھر یہ اطلاع بھی گردش کرتی رہی کہ انہیں چیئرمین سندھ ریونیو بورڈ تعینات کرنے پر غور کیا جا رہا ہے لیکن بڑے گھر کے رشتے دار کی وجہ سے محمد وسیم کی ممکنہ طور پر چیئرمین ایس آربی کی کرسی پر تعیناتی نہ ہوسکی ۔اس کے بعد اطلاعی کے انہیں چیئرمین سندھ پبلک سروس کمیشن بنانے پر غور ہو رہا ہے اسی عہدے پر حال ہی میں ریٹائر ہونے والے

چیف سیکریٹری ممتاز علی شاہ اور سابق چیف سیکرٹری کشمیر علم دین بلو کے نام بھی گردش کرتے رہے ہیں ۔
مراد علی شاہ نے ایک ایسے شخص کو سیکرٹری خزانہ بنائے رکھا جس پر نیب کی تحقیقات اور کیس چل رہا تھا

ایک مرتبہ ہٹانا پڑا تو پھر دوبارہ انہیں بنایا گیا ۔اس دوران ریٹائرمنٹ کے قریب پہنچنے پر گریڈ 21 میں ترقی پانے والے آسف جہانگیر کو پہلے اسپیشل سیکرٹری خزانہ اور پھر سیکرٹری خزانہ کی ذمہ داریاں سونپی گئیں لیکن ریٹائرمنٹ سے محض دو تین ہفتے قبل ان کو عہدے سے ہٹا کر پیغام دیا گیا کہ وہ بھی اتنے اہم نہیں ہیں کہ انہیں یہاں سے آرام سے ریٹائر ہو کر گھر جانے دیا جائے ان کی جگہ

ساجد جمال ابڑو کو سیکرٹری خزانہ بنا کر وزیر اعلی ہاؤس میں پرنسپل سیکریٹری کی کرسی فیاض تو آئی کے سپرد کردی گئیں جنہیں وزیراعلی کا انتہائی بااعتماد اور قابل بھروسہ افسر مانا جاتا ہے وہ بھی اپنی ذہانت صلاحیت اور جرات مندی کا ایک سے زیادہ مواقع پر ثبوت دے چکے ہیں لہذا مراد علی شاہ کو پسند ہیں اور ان کی تعیناتی کے لیے ساجد جمال ابڑو کو وزیراعلی ہاؤس سے


سیکریٹری خزانہ کے دفتر کا راستہ دکھایا گیا اور خزانے کے معاملات ان تبدیلیوں کے بعد بھی مراد علی شاہ کی کور ٹیم کے ہاتھوں میں ہی رہے ۔
محکمہ خزانہ کے معاملات حسن نقوی اور آصف جہانگیر کے پاس تھے لیکن ان کے نیچے اسدضا من ، عامر اسران زیادہ متحرک اور پاورفل بتایا جاتے تھے آصف جہانگیر ریٹائر ہوچکے حسن نقوی کو محمد وسیم کی جگہ چیئرمین پلاننگ لگایا گیا وہاں میڈم شیریں ناریجو اس صورتحال پر دلبرداشتہ ہوگی اور SRSO پروجیکٹ میں پوسٹنگ لے کر سائیڈ لائن ہوگئیں۔ کیونکہ وزیراعلی نے ان کی بہترین کارکردگی اور خدمات کا اعتراف نہیں کیا اور ان کو چیئرپرسن پلاننگ بنانے پر غور نہیں کیا گیا ان سے پہلے مراد علی شاہ نے قائم علی شاہ کی

صاحبزادی ناہید درانی کو بھی بطور چیئرپرسن پلاننگ کام نہیں کرنے دیا تھا اور ناہید شاہ درانی کو صوبہ سندھ چھوڑ کر اسلام آباد جانا پڑا تاکہ وہ اپنی خدمات انجام دے سکیں ۔ناہید شاہ درانی کی ذہانت اور صلاحیت سے بھی مراد علی شاہ نے ہی صوبہ سندھ اور اس کے عوام کو محروم کر ایا ۔اب محکمہ خزانہ ساجد جمال ابڑو کے ماتحت ہے لیکن ان سے زیادہ متحرک اور پاورفل شہاب قمر اور اسد ضامن کو بتایا جاتا ہے اور اہم فیصلے آج بھی محکمہ خزانہ میں حسن نقوی کی مشاورت سے کیے جا رہے ہیں جبکہ عمران کچھ عرصہ بیرون ملک رہنے کے بعد وطن واپسی پر نیب کی گرفت میں آ چکے ہیں ۔محکمہ خزانہ کی کارکردگی کے حوالے سے مختلف محکموں کے انتظامی سربراہ ان اور نچلے افسران اور

ملازمین کی جانب سے مسلسل تحفظات کا اظہار کیا جاتا رہا ہے اور یہ صورتحال پیپلز پارٹی کی صوبائی حکومت اور خود وزیراعلی مراد علی شاہ کے لیے بدنامی کا باعث بن رہی ہے لیکن انہیں سیاسی محاذ پر زبردست مصروفیات کی وجہ سے محکمہ خزانہ کے معاملات پر بھرپور توجہ دینے کی فرصت کہاں ؟


ان کو تو سب OK کی رپورٹ ملتی ہے اور وہ روزمرہ اجلاسوں اور مقصود فائلوں پر دستخط کر کے تیز رفتاری سے اربوں روپے کے فنڈز مخصوص منصوبوں کو فراہم کر کے یہ سمجھتے ہیں کہ انہوں نے اپنا حق ادا کر دیا ہے ۔اور راوی اب چین ہی چین لکھ رہا ہے حالانکہ زمینی حقائق اس کے برعکس ہیں ۔
اگر وزیر خزانہ اور وزیر اعلی کے فرائض کے ساتھ مراد علی شاہ بیک وقت انصاف کر پاتے تو دادو کی آتشزدگی کے واقعے

میں فائر بریگیڈ کی گاڑیاں بروقت موقع پر پہنچ جاتی ۔قیمتی جانی نقصان کے بعد خفت مٹانے کے لئے وزیر اعلی کو ڈپٹی کمشنر اور دیگر افسران کو ان کے عہدوں سے نہ ہٹا نا پڑتا ۔اگر دونوں عہدوں سے انصاف ہو رہا ہوتا تو آج پورا سندھ نہ سہی کم ازکم لاڑکانہ نوابشاہ اور خود وزیر اعلی کے گاؤں واھڑ کو مثالی علاقوں میں شمار کیا جا رہا ہوتا ۔
یہاں مقصد وزیر اعلی کو عہدے سے ہٹانا یا ان کی کارکردگی کو زیرو قرار دینا نہیں ہے ۔یقینی طور پر انہوں نے بطور وزیر اعلی اور وزیر خزانہ اس صوبے کے لیے بہت کچھ کیا ہے ان کی خدمات اور کارکردگی قا بل قدر ہے انہوں نے نجی زندگی کی قربانی دے کر سرکاری مصروفیات کو باقی تمام صوبوں کے وزرائے اعلی سے زیادہ وقت دیا ۔ان کے اندر جی وا کمال ہے اور ان کی کارکردگی میں بہت سے اقدامات قابل تعریف قابل ستائش اور اطمنان بخش بلکہ مثالی ہیں لیکن آج بھی اگر ان کو صرف وزیراعلی رہنے دیا جائے اور وزیر خزانہ کسی اور کو فل ٹائم جاب دے دی جائے تو بطور وزیر اعلی مراد علی شاہ کی کارکردگی اور صوبائی حکومت کے اقدامات مزید نتیجہ خیز ثابت ہو سکتے ہیں اگرچہ کافی وقت پہلے ہی ضائع ہوچکا ہے ۔
(Salik-Majeed)……
================================================