عبدالقادر پٹیل کے وزیر صحت بننے پر خان الیون کا واویلا ۔ چور مچائے شور ۔۔!

وزیراعظم شہباز شریف کی جانب سے پاکستان پیپلز پارٹی کے سینئر رہنما عبدالقادر پٹیل کو وزیر صحت بنائے جانے پر خان الیون کا واویلا بڑھتا جا رہا ہے جسے پاکستان کے ہیلتھ اینڈ میڈیکل سیکٹر میں ۔۔۔۔چور مچائے شور ۔۔۔۔کے مترادف قرار دیا جا رہا ہے وہی لوگ زیادہ شور مچا رہے ہیں جن کی داڑھی میں تنکا ہے جنہیں اپنے دور میں ہونے والی اربوں روپے کی کرپشن بے قاعدگیوں اور مالی بے ضابطگیوں کے پکڑے جانے کا ڈر ہے اور وہ خوف زدہ ہیں کہ عبدالقادرپٹیل وزیر صحت بننے کے بعد انہیں نہیں چھوڑے گا ان کی چوریاں سامنے لائے گا ان کی لوٹ مار سے عوام کو آگاہ کرے گا بلکہ ان کی کرپشن ثبوتوں کے ساتھ سامنے لاکر انہیں عوام کے سامنے ننگا کر دے گا اس لیے عبدالقادر پٹیل کا وزیر صحت بننے کا اعلان سنتے ہی ان کے پسینے چھوٹ گئے


اور ان پر کپکپی طاری ہو گئی کیونکہ یہ سب چور لٹیرے اچھی طرح جانتے ہیں کہ جس طرح اسمبلی کے اجلاسوں میں عبدالقادر پٹیل ان کی پتلون اتارتا رہا اور ان کی ناقص کارکردگی نااہلی نالائقی کو سامنے لاتا رہا اب وزیر صحت بننے کے بعد وہ کوئی رعایت نہیں کرے گا اور صحت کارڈ کے نام پر جو لوٹ مار کی گئی اور دوائیوں کی قیمتوں میں گڑبڑ کر کے اربوں روپے بنائے گئے اب ان سب کا حساب دینا پڑے گا کووڈ کا بہانہ بنا کر اربوں روپے کے فنڈز کو آڈٹ سے بچا لیا گیا تھا اب ان کی پائی پائی کا حساب ہوگا اور ان انجکشنوں کا حساب بھی دینا پڑے گا جنہیں لگوا کر حوریں نظر آتی تھیں۔


قومی اسمبلی میں عبدالقادر پٹیل کی فلور آف دی اسمبلی پر کی جانے والی تقریریں ریکارڈ کا حصہ ہیں انہیں جھٹلایا نہیں جا سکتا وہ چیخ چیخ کر یاد دلارہی ہیں کہ دیگر وزارتوں کے ساتھ ساتھ سب سے زیادہ آواز انہوں نے وزارت صحت میں ہونے والی لوٹ مار


اور ادویات کی قیمتوں کے معاملے اور کووڈ کے سیزن میں اربوں روپے کے آڈٹ نہ کرنے اور بڑے پیمانے پر لوٹ مار بے قاعدگیوں کے معاملات پر آواز اٹھائی تھی اس لیے سیاسی مخالفین پریشان ہیں کہ وزارت صحت کا قلمدان عبدالقادر پٹیل کو کیوں مل گیا یہ تو بال کی کھال اتارے گا اور کرپشن کی جڑ تک پہنچ جائے گا لہذا اس کو انڈر پریشر لانے

اور اس کو متنازعہ بنانے کے لیے فوری طور پر سوشل میڈیا پر ایک مہم شروع کی گئی جس میں فوکس اس بات پر کیا گیا کہ عبدالقادر پٹیل صرف ایک عام گریجویٹ ہے اسے وزارت صحت جیسی اہم وزارت کیوں دی گئی جس کے جواب میں سوشل میڈیا صارفین نے لکھا کہ اگر ایف اے فیل میٹرک پاس


عمران اسماعیل کو گورنر سندھ بنایا جا سکتا ہے جو یونیورسٹیوں میں طلباء کو ڈگریاں بانٹتا رہا تو پھر ایک گریجویٹ کو وزیر صحت کیوں نہیں بنایا جا سکتا ۔ اور خیبرپختونخوا میں اگر میٹرک فیل یعقوب خان کو وزیر تعلیم بنایا جا سکتا ہے تو پھر گریجویٹ قادر پٹیل کو وزیر صحت کیوں نہیں بنایا جا سکتا ۔


سوال یہ ہے کہ عبدالقادرپٹیل کے وزیر صحت بننے کی وجہ سے لوگ اتنے خوفزدہ کیوں ہیں ؟ اگر وہ صاف چلی شفاف چلی تحریک کا حصہ تھے تو پھر اب ان پر کپکپی اور لرزہ کیوں طاری ہے ؟ اگر انہوں نے کرپشن نہیں کی تو ان کے ہاتھ پاؤں کیوں پھول گئے ہیں ؟

عام لوگوں کے لیے یہ سوال اہم ہیں اور پی ٹی آئی والوں کے پاس اس کا جواب نہیں ہے اور جو لوگ عبدالقادر پٹیل کی قومی اسمبلی میں ہونے والی تقریروں سے باخبر ہیں وہ بخوبی اندازہ لگا سکتے ہیں کہ خان الیون کے کھلاڑی ان کے وزیر صحت بننے پر کیوں پریشان ہوگئے ہیں ۔


اس خوف اور ڈر کی اصل وجہ کیا ہے اس پر آگے چل کر تفصیل سے بات ہو گی پہلے یہ بتانا ضروری ہے کہ عبدالقادر پٹیل کون ہے ؟
قادر پٹیل ایک پیدائشی لیاری والا کراچی والا اور کچھی فیملی سے تعلق رکھنے والا شخص- والد حسین پٹیل کیماڑی ٹاؤن کے ضلع چیئرمین رہے ۔8 اگست 1961 کو پیدا ہونے والا عبدالقادرپٹیل 1991 میں اردو کالج سے گریجویٹ ہوا ۔انیس سو ترانوے میں ضمنی الیکشن جیت کر 25 سال کی عمر میں سندھ اسمبلی کا ممبر بنا۔ پہلے ہی الیکشن میں علی محمد ہنگورو جیسے مضبوط سیاسی مخالف کو شکست دے کر سب کو حیران کر دیا ۔

پیپلز پارٹی کے پلیٹ فارم پر ڈنکے کی چوٹ پر سیاست اور عوام کی خدمت میں سرگرم عمل رہا ۔مشرف کی آمریت کے خلاف کراچی کی ایک موثر اور توانا آواز بنا ۔سال 2008 کے الیکشن میں متحدہ مجلس عمل کے قاری گل رحمان کو شکست دے کر ممبر قومی اسمبلی بنا ۔ اب تک مختلف اسٹینڈنگ کمیٹیوں کے بطور ممبر اور سربراہ اہم فرائض انجام دیے جن میں پورٹ اینڈ شپنگ فارن افیئرز ریلوے لیبر داخلہ امور شامل ہیں


۔سال 2012 میں صدر زرداری کے پولیٹیکل ایڈوائزر کی حیثیت سے خدمات انجام دیں ۔کراچی کے امن عمل میں اہم کردار ادا کیا ۔سال 2016 سے لے کر سال 2017 کے دوران اس کے خلاف الزامات لگے کہ دہشت گردوں کا اسپتال میں علاج کرایا تھا ۔جب وہ بیرون ملک سے تو پیچھے سے مقدمات بنے وطن واپس آکر کورٹ میں سرنڈر کیا

پہلے عبوری ضمانت ملی پھر گرفتاری ہوئی چار مہینے پابند سلاسل رہنے کے بعد ضمانت ملی اور مقدمات زیر سماعت ہے کوئی الزام ثابت نہیں ہو سکا ۔سال 2018 میں کچھ عرصے کے لیے پارٹی قیادت سے اختلافات پر خاموشی اختیار کرلی بعد ازاں معاملات بہتر ہوئے اور بلاول بھٹو زرداری نے انہیں منا لیا اور سال 2018 کے الیکشن میں حلقہ این اے 248 سے کامیابی حاصل کی اور پی ٹی آئی کے امیدوار سردار عزیز کو شکست دے کر قومی اسمبلی پہنچے ۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ سینئر پارلیمنٹرین حاجی ولی محمد جاموٹ کی بھتیجی ان کی اہلیہ ہیں کراچی سے اسلام آباد تک پاکستان بھر کے سیاسی حلقوں میں ان کا نام گہری عزت اور احترام سے لیا جاتا ہے ان کی سیاسی جدوجہد اور خدمات کا ایک زمانہ معترف ہے اور انہیں کسی سیاسی مخالف سے حب ا لوطنی کا سرٹیفکیٹ لینے کی کوئی ضرورت نہیں ۔


آپ جائزہ لیتے ہیں کہ ان کے وزیر صحت بننے پر خان الیون کے کھلاڑیوں کے پاؤں اکھڑکیوں گئے ہیں اور وہ ان سے اتنے خوفزدہ کیوں ہیں ۔
جب عمران خان وزیر اعظم بنے تو اس کے بعد قومی اسمبلی کے مختلف اجلاسوں میں عبدالقادر پٹیل نے اپنی دھواں دار تقریر کے ذریعے پی ٹی آئی کے لیے مشکلات پیدا کیں ۔قادر پٹیل مسلسل قومی اسمبلی میں اپنی تقریروں کے ذریعے عمران حکومت کی کارکردگی کا پول کھولتے رہے اور ان کی ناکامیوں سے پردہ اٹھاتے رہے ان کی تقریروں کو اراکین اسمبلی ہمیشہ انجوائے کرتے تھے اور اسپیکر اسد قیصر اور ڈپٹی سپیکر قاسم سوری کے لئے ان کو کنٹرول کرنا مشکل ہوتا تھا کئی مرتبہ ان کا مائیک بند کرا دیا جاتا اور ان کو بولنے سے روکا جاتا ۔مگر قادر پٹیل اپنی بات کرتے رہتے اور کوئی لگی لپٹی رکھے بغیر سیدھے عمران حکومت کو اس کے کان سے پکڑ تے اور اکثر اسمبلی میں عمران حکومت کے کان مروڑتے نظر آتے ۔


یہ قادر پٹیل ہی تھے جنہوں نے قومی اسمبلی میں کہا کہ گلی محلوں میں لوگ باتیں کرتے ہیں کہ خوش نصیب تھے وہ لوگ جو بانوے کا ورلڈ کپ ہار گئے ۔کسی ایٹم بم نے اتنا نقصان نہیں پہنچایا جتنا اس شیشے کے مرتبان نے نقصان پہنچایا ہے ۔
قادر پٹیل وزیر صحت تو آج بنے ہیں لیکن قومی اسمبلی میں سب سے پہلے انہوں نے ہی عمران حکومت سے سوال پوچھا تھا کہ آپ دوا کمپنیوں کے خام مال پر جو ڈیوٹی لگا رہے ہیں تو اس کے نقصانات کا کوئی اندازہ ہے ؟
وہ پہلے دوا کمپنی کا مالک خریدے گا پھر اس کی دوا بنائے گا وہ کب پوچھے گا کس کو بیچے گا کہاں سے ڈیٹیل جمع کرائے گا کیا ریٹرن جمع کرائے گا کہ اس کو پیسہ واپس ہووے گا ۔انہوں نے اسمبلی میں ہاتھ فضا میں ہلا کر کہا تھا کہ سر وہ کر آوے گا تو ہووے گانا ں۔ ۔۔۔۔ان کا کہنا تھا کہ یہ نہیں ہووے گا۔ ۔۔۔۔اس پر پورے ایوان میں اراکین نے ڈیسک بجا کر ان کی باتوں کی تائید کی تھی ۔


پاکستان کا فارما سیکٹر بھی یہی شور مچا رہا تھا جو بات قادر پٹیل قومی اسمبلی کے فلور پر کر رہے تھے اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ قادر پٹیل کو فارما سیکٹر کے مسائل کا بخوبی ادراک تھا ہے اور وہ آنے والے دنوں میں فارما سیکٹر کے مسائل اور مشکلات کو حل کرنے میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں حکومت کا کام ایک ریگولیٹر کا ہوتا ہے اور کسی بھی شعبے کے مسائل اور مشکلات کی نشاندہی ہونے کے بعد ان کا ازالہ کرنا اور انڈسٹری کو بہتر مسابقتی ماحول فراہم کرنا اصل کام ہوتا ہے اور قادر پٹیل ان سب باتوں کی باریکیوں کو جانتے ہیں سمجھتے ہیں اسی لیے حکومت نے انہیں وزیر صحت کا قلمدان سونپا ہے ۔


یہ قادر پٹیل ہی تھے جنہوں نے قومی اسمبلی میں یاد دلایا تھا کہ کووڈ پالیسی سندھ کی تھی جسے بعد میں پی ٹی آئی کی وفاقی حکومت نے اپنا لیا ۔لوگوں کا حافظہ اتنا کمزور نہیں انہیں سب یاد ہے اور قادر پٹیل ہی تھے جنہوں نے کہہ دیا تھا کہ کووڈ آنے سے پہلے ہی پی ٹی آئی کی حکومت معیشت کو غلط سمت پر گامزن کر چکی تھی لہذا غلط پالیسیوں کے نقصانات کو کووڈ کے کھاتے میں مت ڈالا جائے ۔اور جس بات کا خدشہ قادر پٹیل قومی اسمبلی میں ظاہر کرتے رہے آنے والے دنوں میں پی ٹی آئی نے وہ خدشہ سچ ثابت کر دکھایا ۔قادر پٹیل کہتے رہے کہ اس کا ریکارڈ اٹھا کر دیکھ لیں جو چور کی سزا وہ میری سزا ۔پی ٹی آئی ایسا کرے گی اور یہی ہوا اور یہ بات وہ ڈنکے کی چوٹ پر کہتے آئے ہیں ۔


یہ قادر پٹیل ہی تھے جو پوچھتے رہے کہ کووڈ فنڈز میں اتنے اربوں روپے آئے اور اربوں روپے کی بے قاعدگی ہوئی تو وہ فنڈز کہاں گئے ؟ وہ برملا کہتے رہے کہ عقل کی کوئی بات پی ٹی آئی کے وزراء کے سامنے سے نہیں گزری ۔کہتے ہیں کہ زرمبادلہ کے ذخائر بڑھ گئے ہیں حالانکہ یہ دنیا بھر سے قرضہ لیتے ہیں اور ان ڈالروں کو لینے کے بعد کہتے ہیں کہ زرمبادلہ بڑھ گیا ۔یہ بالکل ایسے ہی ہے کہ اگر میں قومی اسمبلی کے تمام اراکین سے 1-1 ہزار روپیہ قرضہ لوں اور بولو کے میرے پاس تین سو بیالیس ہزار روپے جمع ہوگئے ہیں میں بہت امیر ہو گیا ہوں ۔ایک مرتبہ خسرو پرویز کو مخاطب کرتے ہوئے انہوں نے یاد دلایا تھا کہ جرمنی اور جاپان کی سرحدیں ملانے والوں نے کھاد کی اسمگلنگ کے معاملے پر سندھ اور افغانستان کی سرحدوں کو بھی ملا دیا ہے ۔ان کی عقل پر ماتم نہ کریں تو کیا کریں ۔


قادر پٹیل یا دلاتے رہے کہ اس ملک میں ایسے لوگوں کی حکومت آگئی جو سال میں بارہ موسم دیکھتے ہیں حضرت عیسی کی ہسٹری بھول گئے ہیں دنیا بھر کے دانشور حیران ہیں سر پکڑ کر بیٹھے ہیں یہ کیسا سیاستدان آ گیا ہے اور بغیر سر پیر کے باتیں کرتا ہے ؟
کہتے ہیں ایل این جی درآمد کی ضرورت نہیں جب کہ کراچی کے کسی ضلع میں چائے کا کپ نہیں بن سکتا کیونکہ گیس نہیں آتی ۔تو پھر یہ کس کی نا اہلی ہے اس کی مس مینجمنٹ ہے؟ ایسے ہی مہنگائی عالمی مسئلہ ہے تو برون ملک روزانہ اجرت بیس ہزار تھی غربت کیوں نہیں کرتے ؟اگر پاکستان کے حالات پر کووڈ کا اثر نہیں ہوا تو پھر ہمیں آئی ایم ایف سے قرضہ لینے کی بجائے آئی ایم ایف کو قرضہ دینا چاہیے تھا

۔اب فارن فنڈنگ میں کلرکوں چپڑاسیوں کے اکاؤنٹ سے پیسے نکلے ہیں تو کون حساب لے گا بات کرو تو ایوان میں قبرستان جیسی خاموشی ہوکاعالم ۔۔۔سب وزراء بھاگ جاتے ہیں ۔حکومت ترقی ترقی ترقی کا ہے تو پھر الیکشن ہار کیوں جاتی ہے ۔پچھلے دنوں میں کے پی کے میں گیا تو ہاتھ میں دو گلاس پکڑے کہ ایک میں شہد اور دوسرے میں دودھ بھر لو ں کیونکہ آٹھ سال کی حکومت کے بعد کچھ تو بہتری آنی چاہیے تھی لیکن پشاور کے لوگوں نے بھی بلدیاتی الیکشن میں ان کو فارغ کر دیا ۔کہتے تھے لاکھوں کروڑوں نوکریاں دیں گے گھر بنا کر دیں گے


بنی گالا والوں کو صرف نوکریاں ملی ہیں جو لوگ حالات سے تنگ آکر بیرون ملک چلے گئے ہیں ان کا کریڈٹ بھی یہ اپنی حکومت میں لیتے ہیں کہ ہم نے انہیں باہر بھیجا ۔پی ٹی آئی کی حکومت میں ایک سو سے ڈیڑھ سو مسخروں کی پوری فوج رکھی ہوئی تھی جو صرف پرانی حکومت کو برا کہتی ہے یہ سب کے سب مسخرے ہیں ۔۔۔۔۔ انہوں نے ایک ہی رٹ لگائی ہوئی تھی کہ سب اچھا ہے ۔۔۔۔۔مارکیٹ میں نہ بکنے والی گائے کو بھی تیس من دودھ والا کہہ دیتے تھے ۔۔۔۔۔۔یہ قادر پٹیل ہی تھے جو قومی اسمبلی میں کہتے تھے کہ پی ٹی آئی والوں نے کوئی راکٹ خرید لیا ہے جس پر بیٹھ کر یہ دوسرے سیارے پر بھاگنے والے ہیں کیونکہ الیکشن نہیں لڑیں گے انہوں نے اتنی مہنگائی اور غربت بڑھا دی ہے کہ جون ایلیا کا شعر سناتا ہوں
کیا ستم ہے کہ اب تیری صورت غور کرنے پر یاد آتی ہے ۔
کون اس گھر کی دیکھ بھال کرے روز اک چیز ٹوٹ جاتی ہے ۔


یہ قادر پٹیل ہی تھے جو اسمبلی میں پی ٹی آئی کے لوگوں کو مخاطب کر کے کہتے تھے کہ شاہ سے زیادہ شاہ کے وفادار بننے ہوئے ہو ۔درباری زبان میں ایک دوسرے پر بازی لے جانے کا مقابلہ کرتے ہو ۔قصیدہ گوئی میں تمام حدیں پار کر گئے ہو ۔۔۔۔۔۔۔کراچی کی دیواروں پر لکھتے تھے کہ عمران خان ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بریکٹ (۔۔۔۔۔)۔۔۔۔۔جو کچھ کراچی کی دیواروں پر لکھا جاتا تھا وہ الفاظ قومی اسمبلی میں دہرائے نہیں جاسکتے ۔
یہ قادر پٹیل ہی تھے جنہوں نے قومی اسمبلی میں اپنی تقریر کے دوران کہا کہ باتیں کی جاتی ہیں دو لا نچیں میں اربوں روپے پکڑے گئے ہیں یہ باتیں کرنے والے پی ٹی آئی کے وزیر خود ایف بی آر اور میری ٹائم سیکیورٹی پر الزام لگا رہے ہیں یہ خبریں آئیں تو ایف بی آر اور میری ٹائم سیکیورٹی والوں نے ایک دوسرے سے پوچھا کہ جو کشتی پکڑی گئی ہیں وہ اپنے پاس رکھو گے یا خزانے میں جمع کراؤ گے دونوں اداروں کے لوگ ایک دوسرے کا منہ تکتے رہے کہ کس نے پکڑی ہیں کب پکڑی ہیں کہاں سے پکڑی ہیں؟

یہ قادر پٹیل ہی تھے جو اسمبلی میں کہتے رہے کہ دو قسم کے لوگوں کا کوئی کچھ نہیں بگاڑ سکتا ۔۔۔۔۔ایک وہ لوگ جو دریا کے دوسرے کنارے کھڑے ہو کر گالی دیتے ہیں اور دوسرے وہ لوگ جو منہ پر جھوٹ بولیں ۔۔۔۔۔پی ٹی آئی کے لوگ منہ پر جھوٹ بولتے ہیں ۔
یہ قادر پٹیل ہی تھے جو پی ٹی آئی والوں کو کہتے تھے کہ قرضے لینے والوں پر کمیشن بنا رہے ہو 11 مہینے اتنا قرضہ لے لیا ہے کہ پاکستان کی آدھی تاریخ کے برابر ہوگیا ہے اور یہ کمیشن کل کو آپ کے ہی گلے پڑے گا


قادر پٹیل ہی تھے جو یہ سوال پوچھتے تھے کہ آپ یہ تاثر کیوں دیتے ہو کہ کسی اور سیارے سے آئے ہو اور آپ کو اچانک حکومت مل گئی ہے اور اب پتہ چلا کہ خزانہ خالی ہے ۔۔۔۔۔آپ کے کپتان نے تو دو سال پہلے وزیر خزانہ مقرر کیا تھا ہر چیز پر نظر رکھی تھی اور حکومت میں آنے کے نو مہینے بعد وزیر خزانہ کو نکال باہر کیا ۔ایسا تو فلموں میں دیکھا تھا کہ چوٹ لگنے سے یاداشت بحال ہوگی ۔
قادر پٹیل ہی تھے جو قومی اسمبلی میں کہتے رہے کہ خدا کے واسطے کوئی عقل کی بات کرو ۔۔۔۔۔28 لاکھ کی وزیراعظم کی بھینس بیچ کر 38 لاکھ روپے کا مشاعرہ کراتے ہو ۔18 لاکھ کا طوطے کا پنجرہ بناتے ہو یہ کون سی کفایت شعاری ہے اور تمہارے تو بندوق بھی خراب نکلیں ورنہ آئی ایم ایف کے پاس قرضہ لینے کے بعد خود کو گولی مار نی تھی ۔جب اپوزیشن میں تھے تو دوسرے حکمرانوں کی تصویر والے


سرکاری اشتہاروں پر اعتراض اٹھاتے تھے اور جب پی ٹی آئی کی حکومت بنی تو نیا پاکستان ہاؤسنگ اتھارٹی کا بل منظور بھی نہیں ہوا اور کروڑوں کے اشتہار عمران خان کی تصویروں کے ساتھ شائع کرائے ۔آپ کا کپتان کہتا تھا کہ لوٹوں کو نہیں لوں گا اور پھر حکومت بنانے اور چلانے کے لیے جنوئین لوٹے لے لیے جو پوری ڈھٹائی کے ساتھ چار چار حکومتوں کا دفاع کر چکے ہیں ۔یہ قادر پٹیل ہی تھے جو قومی اسمبلی میں کہتے رہے کہ پیمرا سے بڑا غلام نہیں دیکھا جو عمران حکومت کی غلامی میں ہر کام کر رہا ہے اور وزراء کی ایک فوج ظفر موج رکھی ہوئی ہے اگر ادارے خود مختار ہیں تو وزراء کی فوج کیا کام کرتی ہے ۔
قادر پٹیل قومی اسمبلی میں یہ شعر بھی پڑھتے رہے کہ ۔۔۔۔۔۔

دیمک تنے کو چاٹتی جاتی تھی اور ہم ۔۔۔۔اتنے مگن شجر کی نگہبانی پر تھے ۔۔۔۔
یہ قادر پٹیل ہی تھے جو بار بار یاد دلاتے تھے کہ سیاست میں بی بی شہید اور بھٹو شہید کے لہو سے دیپ جلاتے ہیں لیکن عمران حکومت نے اتنے یوٹرن لیے کہ عوام کو سیاست سے مایوس کر دیا ۔
قادر پٹیل نے قومی اسمبلی کے مختلف اجلاسوں میں مراد سعید کو خاص طور پر بہت سی باتیں یاد دلائیں اور کہتے رہے کہ بلکل درست ہے کہ ہم سب لوگ یہاں بڑی محنت کرکے پہنچے ہیں لیکن جو محنت جس طریقے کی محنت اور جس قدر محنت مراد سعید کرکے


آئے ہیں اللہ ایسی محنت کسی سے نہ کروائے ۔۔۔۔۔ قادر پٹیل ہی تھے جو کہتے رہے کہ اس دور کے بونے اپنے سے بڑوں کا قد ناپ رہے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔ایک دن میں چار پیپر پاس کرنے والوں پر اعتراض ہوا اور ان کے والد کو آسٹریلیا میں پکڑ کر اندر کر دیا گیا تھا اس فیملی کو تعلیم حاصل کرنے نہیں دی جاتی یہ بڑی سازش ہے ۔۔۔۔یہ طفل عمرانی ہے اور ہم نے دیوار پر چڑھ کر پیچھے بھی دیکھ لیا ہے کہ کیا ہو رہا ہے ۔۔۔۔۔۔یہ وہی ہے جو کہتا تھا کہ پی ٹی آئی کی حکومت آئی تو دو سو ارب ڈالر دوسرے دن باہر سے لائے گا اور ورلڈ بینک کے منہ پر مارے گا ۔۔۔۔۔۔۔یہ وہی لوگ ہیں جو کہتے تھے کہ روزانہ پندرہ ارب روپے کی کرپشن ہوتی ہے اب اس کا حساب کیوں نہیں دیتے ۔۔۔۔۔کنٹینر پر کھڑے ہو کر کہتے تھے کہ ڈالر ایک روپیہ مہنگا ہوتا ہے تو پاکستان پر کتنے لاکھ روپے کا ہر پاکستانی پر قرضہ چڑھ جاتا ہے اب کیوں نہیں بتاتے کہ جب عمران کی


حکومت آئی تو قرضہ 120000 فی پاکستانی تھا اور اب ایک لاکھ ساٹھ ہزار روپے فی پاکستانی پہنچ چکا ہے ۔
یہ قادر پٹیل تھے جو یاد دلاتے رہے کہ یہ لوگ معیشت کیسے ٹھیک کر سکتے ہیں یہ تو انڈے سے شروع ہوکر چرس اور ہیروئن کی کاشت پر آچکے ہیں اور انہیں تو انجیکشن لگا کر حوریں نظر آتی ہیں ۔ان کے پاس تو بی آر ٹی اور فارن فنڈنگ کیس کا جواب نہیں ہے اگر کرپشن نہیں کی تو اسٹے کیوں لیا ؟ ہونے دیتے فیصلہ سامنے آنے دیتے حقیقت ۔۔۔۔


یہ قادر پٹیل ہی تھے جو مختلف اجلاسوں میں کہتے رہے کہ یہاں ایک وزیر کہتا ہے ہمارا یہ ٹارگٹ ہے دوسرا وزیر کہتا ہے کہ ہمارا یہ ڈریم ہے ۔۔۔ان کے وزیر تو انجیکشن لگا کر ڈریم دیکھنے میں ہی لگے رہتے ہیں ۔
یہ قادر پٹیل تھے جنہوں نے یاد دلایا کہ کپتان عبدالستارایدھی کے پاس گیا تھا اور عبدالستار ایدھی کا بیان ریکارڈ پر ہے کہ جنرل حمید گل – عمران خان آئے اور بے نظیر کا تختہ الٹنا چاہتے تھے اور کہا کہ تم صدر بن جاؤ میں وزیراعظم بن جاتا ہوں ۔۔۔۔۔۔۔۔پھر یہی کپتان مشرف کے پاس گیا اس کے ریفرنڈم کی حمایت کی اور اسے کہا کہ تم صدر ہو اور مجھے وزیر اعظم بنا دو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔مشرف نے لفٹ نہیں کرائی ورنہ یہ


بیس سال سے وزیراعظم بن کر گھوم رہا تھا پھر کسی نے پکڑ کر وزیراعظم کی کرسی پر بٹھا دیا تو اب یہ قومی اسمبلی میں اپوزیشن کا سامنا کرنے سے بھاگا ہوا ہے ملک کا بیڑا غرق ہو چکا ہے اور انہیں کوئی ہوش نہیں یہ چرس اور ہیروئن کی فیکٹریاں لگا کر نوجوانوں کو روزگار دینے جاتے ہیں ۔۔۔۔۔یہ قادر پٹیل ہی تھے جنہوں نے کہا کہ اس شخص کو عجائب گھر میں رکھوالو یہ بھاگ گیا تو پھر ملے گا نہیں اور ایسی باتیں کرنے والا نمونہ پھر کہاں سے لاؤ گے ۔۔۔۔
یہ قادر پٹیل ہی تھے جنہوں نے سہیل ایاز کا نام قومی اسمبلی میں لیا اور پوچھا کہ اس نے ایک ویڈیو اپلوڈ کی تھی اور اس سے لاکھوں روپے پر کیوں kpk میں رکھا ہوا ہے جواب دو ؟


یہ قادر پٹیل ہی سے جنہوں نے قومی اسمبلی میں بتایا کہ ہری پور کے محمد اشفاق کا نام بیلٹ میں کیسے نکلا 15 لاکھ لوگوں میں وزیراعظم نے پانچ پرچیاں نکالی اور وہ پانچ لوگ ان کے سامنے ہی بیٹھے ہوئے تھے یہ عجیب و غریب لکی ڈرا تھا اور پھر 35 ہزار روپے تنخواہ دار اشفاق کو کہا گیا کہ تین لاکھ روپے ہر تین مہینے بعد دینے ہیں۔ یہ وہ غریب سے 61 لاکھ روپے کمانے کے چکر میں تھے ۔۔۔۔۔
یہ قادر پٹیل تھے جنہوں نے قومی اسمبلی میں کہا کہ کووڈ کی وجہ سے حکومت کی خوش نصیبی اور لاٹری نکل آئی ہے جیک پاٹ لگا ہے ہارڈ سے بچے ہوئے ہیں اور سودا نہیں کرنا پڑا ۔


یہ قادر پٹیل ہی تھے جنہوں نے کہا تھا کہ NAB بلیک میل ہو رہا ہے اور اس کی ویڈیو کا چرچا ہے ۔
یہ قادر پٹیل ہی تھے جنہوں نے کہا کہ دعاؤں میں گڑبڑ کی گئی ہے اور دوسری وزارت دے دی گئی ہے آخر کیوں ؟
یہ قادر پٹیل ہی تھے جو پوچھتے رہے کہ دو سو ماہرین کی ٹیم کہاں گئی ؟ ظفر مرزا نے دعاؤں میں Corruption ہے تو نیب پوچھ کیوں نہیں رہا ؟
سیاسی مخالفین قادر پٹیل سے اس لیے خوفزدہ ہیں کیونکہ وہ قومی اسمبلی میں یہ اعتراف کر چکے ہیں کہ ہم اس سوچ اور ضمیر کے غلام ہیں وہی سوچ جس نے پھانسی کے پھندے کو چوم لیا لیکن یوٹرن نہیں لیا ۔۔۔۔ہر دور میں ناقابل شکست رہا خون ذوالفقار ۔۔۔۔۔ہم اس سوچ کے غلام ہیں ۔۔۔۔۔جدوجہد میں جیل آتی ہے کوڑے آتے ہیں سزا ملتی ہیں سلا ہی ملتی ہیں لیکن جنرل ضیاء سے مشرف تک اور پھر کسی کے اشارے پر کوئی اقتدار میں آجائے تو وہ جدوجہد نہیں کہلاتی ۔
یہ قادر پٹیل ہی تھے جو قومی اسمبلی میں یاد دلاتے رہے کہ ضیاء الحق کی Parchi پر کون کپتان بنا تھا ؟


یہ قادر پٹیل سے جو قومی اسمبلی میں کہتے رہے کہ سپریم کورٹ کا فیصلہ موجود ہے کہ نیب نیازی گٹھ جوڑ سے یا حکومت چل رہی ہے !
یہ قادر پٹیل ہی تھے جو قومی اسمبلی میں یاد دلاتے رہے کہ بھارت میں رھول گاندھی کانگریس میں مودی کو انڈیا کا عمران خان کہنے لگا ہے ۔
یہ قادر پٹیل ہی تھے جنہوں نے قومی اسمبلی میں قصہ سنایا تھا کہ ایک ایماندار ڈاکو تھا جوڈا کے کی رقم ایمانداری سے تمام ساتھیوں میں تقسیم کر دیتا اور خود کچھ نہیں رکھتا تھا پھر وہ سارے ڈاکو اس کا تمام خرچہ اٹھاتے اس کو جہاز پر سیر کراتے اس کے ناز نخرے اٹھاتے اور وہ ڈاکو ایماندار کہلاتا تھا ۔
==================================
Salik-Majeed-Jeeveypakistan.com………
==============================