بزدل خان تم جاؤ،نئے آنے والوں کو بھی دیکھ لیں گے

محاسبہ
=========
ناصر جمال
==================
شہر کی فصیلوں پر
دیو کا جو سایہ تھا پاک ہو گیا آخر
رات کا لبادہ بھی
چاک ہو گیا آخر خاک ہو گیا آخر
اژدہام انساں سے فرد کی نوا آئی
ذات کی صدا آئی
راہ شوق میں جیسے راہرو کا خوں لپکے
اک نیا جنوں لپکے
آدمی چھلک اٹھے
آدمی ہنسے دیکھو، شہر پھر بسے دیکھو
تم ابھی سے ڈرتے ہو؟
ہاں ابھی تو تم بھی ہو
ہاں ابھی تو ہم بھی ہیں
تم ابھی سے ڈرتے ہو

id = "2921abe1dcfbb39a49279a6e74e145b0";

چوہدری شجاعت نے کبھی کہا تھا کہ پاکستان جمہوریت ایک فوجی، ٹرک، جیب اور درجن جوانوں کی مارہے۔ مگر 9اپریل کی رات کو عقد، کھلا کہ فوجی ٹرک شاہراہ دستور سے گزار کر، دو قیدی بسیں صرف کھڑی کر دیں۔ وزیراعظم بنی گالہ، سپیکر، ڈپٹی اسپیکر مستعفی اور پوری پارلیمانیپارٹی بھاگ جاتی ہے۔ کہانی تو شہر میں ایک سے ایک گردش کررہی ہے۔ مگر ایک بات طے ہے کہ کپتان، بنی گالہ کی طرح، وزیراعظم ہائوس کی دیوار ٹاپ کر بھی فرارہوگیا۔
جنرل(ر) ہارون بڑے ہی’’بادشاہ آدمی‘‘ ہیں۔ انہوں نے ٹویٹر پر میسور سرنگاپٹم کی تصویر لگا کر ’’نیازی‘‘ کو ٹیپو سلطان سے تشبہی دے ڈالی۔ میں نے جنرل ہارون کو جواب لکھا کہ ’’آپ کا ٹیپو سلطان لڑا، مرا نہیں۔ بلکہ بنی گالہ فرار ہوگیا۔ سنا ہے آخری وقت تک، کُرسی، کُرسی گڑ گڑا رہا تھا۔ پارلیمنٹ نامی سرنگاپٹم میں لڑنے کی بجائے، اُسی شام وہ چندہ اکٹھا کررہا تھا۔ ماشااللہ کیا ٹیپو سلطان ڈھونڈا ہے۔ لڑنے کے لئے اکیلے علی محمد خان کو بھیج دیا۔
قارئین!!!


قیدیوں کو لے جانے والی بسیں، پارلیمنٹ ہائوس کے باہر کھڑے کرنے کا جس کا بھی آئیڈیا تھا۔ بڑا ہی کمال تھا۔ جبکہ فوجی ٹرکوں کی انٹری اور اُس کے بعد، اسلام آباد ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ میں ججز کی آمد نے، ان افواہوں کو تقویت دی کہ ’’جمہوری نظام لپیٹا جارہا ہے۔ معزز عدالت یقینی طور پر مارشلاء کی مزاحمت کے لئے آئیں۔ جیسے تین نومبر2007ء کے روز افتخار چوہدری اور ان کے ساتھی ججز رات کو بیٹھے اور آرڈر پاس کیا تھا۔ جو بعد ازاں، جسٹس ڈوگر اور دوسرے ایل۔ایف۔او والے ججز کے لئے، بہت بڑا مسئلہ بنا۔ عبدالحمید ڈوگر، عدالتی تاریخ میں بغیر ٹائٹل کے کہیں گُم ہوگئے۔


مگر ایک ذریعے کا یہ بھی کہنا ہے کہ جس وقت ججز، اسلام آباد ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ میں آئے۔ عمران خان اور اس کے ہاکس حوصلہ چھوڑ گئے۔ انھیں یقین ہوگیا تھا کہ یہ اب صرف ناہل ہی نہیں ہونگے۔ توہین عدالت میں اندر بھی جائیں گے۔ پہلے سے موجود، اسپیکراسد قیصر اور ڈپٹی اسپیکر کو بلایا گیا اور کہا گیا کہ وہ مستعفیٰ ہوجائیں اور ہائوس ایاز صادق کے حوالے کردیں۔ وزیراعظم عمران نیازی سرینڈر کرگئے۔ ان کے پاس کوئی آپشن ہی نہیں تھا۔
دوسری جانب شہر میں افواہ پھیلائی گئی کہ فوج دو حصوں میں تقسیم ہے۔ سپہ سالار اور وزیراعظم دونوں جائیں گے۔ یہیں سے وہ خبر بھی نکلی کے دو اعلیٰ افسران ہیلی کاپٹر پر آئے۔ آنیوالے افسران سرپرائز تھے۔ وزیراعظم کسی اور کا انتظار کررہے تھے۔ وزیر اعظم نے کسی کو ڈینوٹیفائی کردیا۔ اس کی آئی۔ ایس۔ پی۔ آر نے بڑی واضح تردید کی۔


قارئین!!!
وفاقی دارلحکومت کے باخبر لوگ کہتے ہیں کہ فوج نے تین سال دو ماہ تک اس حکومت کا کمال ساتھ دیا ہے۔ وزیراعظم، گڈ گورننس، اعظم خان، بزدار، محمود خان، کچھ فنکار وزرا اور بابوئوں کے خلاف تمام تر ثبوتوں کے باوجود، کچھ سننے پر تیار نہیں تھے۔ بیڈ گورننس، بگڑتی معاشی صورتحال کا بوجھ، فوج پر بھی آرہا تھا۔ اس صورتحال کی برابر ذمہ داری فوج پر بھی ڈالی جارہی تھی۔ حکومت میں بیٹھے سیٹھ اور ان کے نمائندے، کے انگلیاں گھی اور سر کڑاھی میں تھے۔ اسکینڈلز کے انبار لگے ہوئے تھے۔ وزیراعظم کسی کے سنتے ہی نہیں تھے۔ وہ اسے اپوزیشن اور میڈیا کی سازش قرار دیتے رہے۔ نومبر میں اسٹیبلشمنٹ اور حکومت کے مابین فاصلہ بڑھنا شروع ہوا اور نوبت یہاں تک آپہنچی کہ کسی شخصیت کو ڈی نوٹیفائی کرنے کے حوالے سے باقاعدہ مشاورت ہوئی۔ درمیان میں سے وزارت دفاع کو منفی کرکے، ایگزیکٹو آرڈر پر عملدرآمد کا جائزہ لیا گیا۔ یہ مشاورت آئوٹ ہوگئی۔ کئی بیورو کریٹس کو اس کا پتا تھا۔ گریڈ اکیس کے سیکرٹریٹ گروپ کے لوگوں تک میں یہ باتیں ہورہی تھیں۔


جس نے تمہاری نیند پر پہرے بٹھا دیئے
اپنی طرف سے تم اُسے غافل سمجھتے ہو
بہرحال! فاصلے اور معاملات، پوائنٹ آف نو ریٹرن پر جاپہنچے۔ رابطے تو سبھی کے ہوتے ہیں۔ آصف زردری، مولانا اور (ن) لیگ نے، اس موقع کو خوبصورتی سے اپنے حق میں استعمال کیا۔ یقینی طور پر وہ بہت کچھ دینے پر تیار ہوگئے۔ ان کے پاس تو کھونے کے لئے کچھ بھی نہیں تھا۔ سانس گلے میں پھنسی ہوئی تھی۔ بیک چینل ڈپلومیسی گجرانوالہ سے چل رہی تھی۔ 14مہینے سے چل رہی تھی۔ معاملات آن بورڈ تھے۔ اسی لئے، مشکیں ڈھیلی بھی ہوئیں۔ فیض کا فیض اور دم، بے اثر ہونےح لگا۔ اس کا اپنا کیریئر تھا۔ بہت ہی عجیب و غریب بات یہ ہے کہ فیض کے فیض کے بغیر، یہ چند قدم بھی نہیں چل سکے۔
ایک ذریعہ یہ بھی کہتا ہے کہ نمبر ون، جانے سے پہلے سب سے تعلقات نارملائزکرنا چاہتا ہے۔ وہ مزید، اختیار کا خواہش مند نہیں ہے۔ یہ معاملہ پہلے طے ہوچکا تھا کہ ادارے کی مرضی سے نیا بندہ آئے گا۔ مگر بعد ازاں، فریقین میں اعتماد کا فقدان آگیا۔ جو پھر پاٹا نہیں جاسکا۔
قارئین!!!
عمران خان کی سب سے بڑی تباہی، اس کے مُنہ زور مشروں نے کی ہے۔ جو ممولے کو شہباز سے لڑانے چلے تھے۔ انھوں نے عمران خان کی ضدی طبیعت اور مجھے سب کچھ پتا ہے کا کمال فائدہ اٹھایا۔ مشیران اکرام نے انھیں یقیتن دلادیا کہ اسٹیبلشمنٹ کچھ بھی نہیں بیچتی۔ اس وقت، آپ ہی واحد لیڈر ہیں۔ آپ کی ایک آواز پر کروڑوں لوگ باہر نکل آئیں گے۔ ہا، ہا، میاں نواز شریف نے 12اکتوبر1999ء کے بعد کہا تھا کہ لوگ کہتے تھے، میاں صاحب قدم بڑھائو، ہم تمہارے ساتھ ہیں۔ میں نے قدم بڑھایا تو سب غائب تھے۔
یہی کچھ عمران خان کے ساتھ ہوا ہے۔ شیخ رشید کو پنڈی، فواد چوہدری کو جی۔ ٹو روڈ، شاہ محمود قریشی کو ملتان، علی زیدی کو پورا کراچی ، مراد سعید کو سوات، پرویز خٹک کو پورا نوشہرہ بلاک کردیناچاہیئے تھا۔ 155ایم۔ این۔ ایز تھے۔ سینیٹرز تھے۔ مشیران تھے۔ اے۔کے۔ڈی عارف حبیب، رزادق دائود جیسے سیٹھ تھے۔ واڈا، جیسا کمانڈو تھا۔ درجنوں خواتین کھلاڑی تھیں۔ زرتاج گل اور شیری مزاری جیسی ہیوی ویٹ، ثانیہ نشتر جیسی، احساس پاکستان چلانے والی عظیم ہستیاں، حماد اظہر جیسا توانائی منسٹر، عمرایوب جیسا چرب زبان، مکھن باز سجنا، علی امین گنڈا پور جیسا، ڈیل، ڈول والا وزیر،کس، کس کا نام لکھوں، آخر پھر ہوا کیا۔ لوگ باہر کیوں نہیں آئے۔ سینیٹر جاوید اور شبلی فراز جواب کیوں نہیں دیتے۔ کہاں ہے، سینیٹ والا وسیم، عامر ڈوگر جیسا چیف وہیپ، کہاں چلے گئے۔ سب، ہے۔ عمران خان میں حوصلہ کہ اپنا تجزیہ کرے۔ خسرو بختیار کہاں ہے۔ پرویز الٰہی کے لئے پچاس ہزار بندے اکٹھا کرنا کونسا مسئلہ ہے۔
حضور ایک پیکج تھا۔ اسٹیبلشمنٹ سے لیکر جے۔ کے۔ ٹی، علیم خان، اور مڈل کلاس، سب آپ کو چھوڑ گئے۔ کیونکہ ڈبہ پیروں اور غیر منتخب مشیروں نے آپ کی ’’واٹ‘‘ لگا دی۔ لوئر مڈل کلاس اور مڈل کلاس ، بے روزگاری کے ’’ان کائونٹر‘‘ میں مارے گئے۔۔ جس رضاکار کلاس سے آپ کے جلسوں کو ’’شب شبھا‘‘ تھا۔ عوامی مقبولیت کا ’’ہا ‘‘ کھڑا تھا۔ وہ ہر ضمنی انتخابات میں دھڑام سے زمین بوس ہورہا تھا۔ صرف، آپکو آواز نہیں آرہی تھی۔ آپ کی پالیسیوں سے سیٹھوں اور مافیاز کے مزے ہوئے۔ آپ نے سب پر الزام لگائے۔ بیورو کریسی پر الزام لگائے۔ اعظم خان اور چیف سیکرٹری سے نہیں پوچھا کہ سب افسر تم نے لگائے، رزلٹ کہاں ہیں۔ بابو کام کیوں نہیں کررہے۔ جب افسر پیسے لیکر لگائے جائیں گے۔ مفادات کی حفاظت کیلئے تقرریاں ہونگی۔ زبان کی بنیاد پر اقبال بلند ہونگے۔ تو پھر یہی کچھ ہوگا۔ آپ کی مردم شناسی تو یہ ہے کہ آپ نے اپنے ’’احتساب اکبر‘‘ کو نہیں پہنچان سکے۔ آپ کی ناک کے نیچے رزاق دائود، مہمند ڈیم کا متنازعہ ترین کنٹریکٹ لے اڑا۔ پٹرولیم بحران ہوا۔ آٹا، چینی، گندم، ایل۔ این۔ جی، آٹو کارز، مہنگی ترین، بجلی، کسی کا آپ نے کچھ کیا ہو۔ ندیم بابر سے لیکر رزاق دائود، حفیظ شیخ سے لیکر مبشر زیدی، شوکت ترین سے زلفی بخاری، بابر اعوان، ثانیہ نشتر تک، غیر منتخب لوگوں کو نوازا۔ منتخب میں ان کو


زیادہ نواز، جو لوٹے ہوکر آپ کے پاس آئے تھے۔ عمر ایوب، فواد چوہدری، خسرو بختیار، کس، کس کا نام لکھوں۔ فواد چوہدری سے شہباز گل تک بدتمیزی میرٹ ٹھہرا۔توشہ خانے کے ڈاکے نے آپ کے امیج کو برباد کردیا۔ آپ اپنے بدترین مخالف نواز شریف کے بدنام زمانہ خط کے پیچھے جاکر چُھپ گئے۔ ویسے آپس کی بات ہے، وہ پرنس والی گھڑی کہاں ہے۔ آپ کو اور خاتون اول کو ملنے والا گولڈ، گاڑیوں اور قیمتی تحائف کہاں ہیں۔ کیا آپ کو پتا ہے توشے خانہ کے گندے تالاب میں آپ کا دامن صرف داغدار ہی نہیں، سیاہ ہے۔ آپ لوگوں کو کیوں نہیں بتاتے کہ عثمان بزدار اور محمود خان والی کیا مجبوریاں تھیں۔ آپ چار گھنٹے کے وزیراعظم کیوں تھے۔ آپ میڈیا کے کاندھوں پر بیٹھ کر آئے۔ پھر اُسی میڈیا کو کیوں برباد کردیا۔ بدتمیز یوٹیوبرز، سوشل میڈیا ٹرولرز کو پال پوس کر بڑا کرنے سے آپ کو کیا ملا۔ آپ نے اپنے ووٹرز اور سپوٹرز سے دھوکا کیوں کیا۔ باجی علیمہ کے پیسوں پر اپنی پوزیشن کلیئر کریں۔ نیا پاکستان اور ریاست مدینہ کے نام پر فراڈ، کیا کبھی آپ کے ضمیر پر کچوکے نہیں لگاتے۔ یا وہ ’’لکیروں‘‘ کے آگے بے معنی ہوجاتا ہے۔


عمران نیازی، آپ کو اندازہ نہیں ہے کہ آپ نے اس ملک اور اس نسل سے کتنی زیادتی کی ہے۔ جو آپ کو تبدیلی کی شکل اور انقلابی قوت کے طور پر دیکھ رہی تھی۔ آپ نے صرف اپنے خواب پورے کیئے۔ وزیراعظم بننے کے خواب اور مخالفوں کو ٹھکانے لگانے کے خواب، باقی تو سب فراڈ تھا۔ اگر آپ مخلص، بے پرواہ لیڈر ہوتے تو آپ کو مقابلہ کرنا چاہئے تھا۔ کسی سفارتی کیبل کے پیچھے نہیں چھپنا چاہئے تھا۔ یہاں بھی صرف ذات اور عہدے کو دیکھا۔ ریاست کو عذاب میں ڈال دیا۔ ”تم میرے جال میں پھنس گئے ہو۔ میں تو چاہتا تھا، عدم اعتماد لیکر آئوں“۔ پھر بزدلوں والا راستہ کیوں اختیار کیا۔ اب میں تمہیں بزدل خان نہ کہوں تو کیا کہوں۔ بزدل۔۔۔ کہیں کا۔
اب دوبارہ نظر نہ آنا۔


رہ گئے، اب نئے آنیوالے، تو انھیں ہم نے پہلے بھی دیکھا ہے۔ ایک بار پھر دیکھ لیں گے۔
کتابِ زیست کا اک اور باب ختم ہوا
شباب ختم ہوا اک عذاب ختم ہوا
(منیر نیازی)
========================================