انسانی حقوق

انسانی حقوق
ڈاکٹر توصیف احمد خان
=================

انسانی حقوق جمہوری ریاست کا لازمی جز ہیں۔ جن ریاستوں میں انسانی حقوق کا تحفظ کیا جاتا ہے وہاں عوام کا ریاست پر مکمل اعتماد ہوتا ہے اور جہاں ریاستی ادارے انسانی حقوق کو اہمیت نہیں دیتے وہاں عوام اور ریاست کے درمیان فاصلے بڑھ جاتے ہیں جس سے منفی قوتوں کو ابھرنے اور رائے عامہ کو اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرنے کا موقع ملتا ہے۔

انسانی حقوق کے تحفظ کے لیے پارلیمنٹ قانون سازی کرتی ہے۔ انتظامیہ ان قوانین پر عملدرآمد کو یقینی بناتی ہے اور عدلیہ انسانی حقوق کی پامالی کا نوٹس لیتی ہے اور اپنے فیصلوں کے ذریعہ انسانی حقوق کے عملی نفاذ کو یقینی بناتی ہے۔ اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اﷲ کے فیصلے اس ملک میں انسانی حقوق کے تحفظ کو یقینی بنانے کے لیے ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتے ہیں۔ ان کے فیصلوں نے سابق چیف جسٹس ایم آر کیانی، جسٹس فخر الدین جی ابراہیم، جسٹس دراب پٹیل اور جسٹس صبیح الدین احمد کے فیصلوں کی یاد تازہ کردی ہے۔

جسٹس اطہر من اﷲ نے گزشتہ دنوں سائبر کرائم ترمیمی آرڈیننس کے خلاف سماعت کے دوران تاریخی ریمارکس دیے کہ ہتک عزت کے مقدمات میں اب فوجداری قوانین کے تحت سزاؤں کا تصور متروک ہوگیا ہے۔
فاضل جج صاحب نے کہا تھا کہ اب تو افریقی ممالک کینیا اور ایتھوپیا میں بھی ہتک عزت کے مقدمات میں فوجداری قانون کے تحت کارروائی ختم ہوچکی ہے، یوں اگر کوئی فرد، ادارہ یا ریاست یہ محسوس کرتی ہے کہ کسی تحریر، تصویر، ریڈیائی پیغام، ٹیلی وژن پر نشر کیے جانے والا مواد یا سوشل میڈیا کے مختلف پلیٹ فارمز سے وائرل ہونے والے مواد پر اس کی ہتک عزت ہوتی ہے تو یہ فرد ، ادارہ یا ریاست صرف سول لاء کے تحت مقدمہ دائر کرسکتی ہے۔ اس تاریخی ریمارکس سے جس کے بارے میں امید کی جا رہی ہے کہ مفصل فیصلہ کا حصہ ہوگا آزادئ صحافت کا دائرہ بہت وسیع ہوگیا ہے۔

اسلام آباد میں قائد اعظم یونیورسٹی کے طلبہ اپنے ایک لاپتہ ساتھی کی بازیابی کے لیے نیشنل پریس کلب اسلام آباد کے سامنے احتجاجی کیمپ لگائے ہوئے ہیں اور روزانہ مظاہرہ کرتے ہیں۔ اس مظاہرہ میں طلبہ نعرے لگاتے ہیں۔ گزشتہ دنوں پولیس نے ان طلبہ کے مظاہرے کو منتشر کرنے کے لیے لاٹھی چارج کیا۔ ان مظاہرین میں ایک ایکٹیوسٹ قانون دان ایمان مزاری جو انسانی حقوق کی وفاقی وزیر ڈاکٹر شیری مزاری کی صاحبزادی ہیں اور بلوچ طلبہ کے خلاف پولیس نے نعرے لگانے پر بغاوت کا مقدمہ درج کیا۔

ایمان مزاری اور دیگر طلبہ کی عرضداشت پر فاضل چیف جسٹس نے یہ فیصلہ دیا کہ نعرہ لگانا کسی صورت غداری کے زمرہ میں نہیں آتا اور نہ ہی نعرے لگانے پر دہشت گردی کی شق کا اطلاق ہوتا ہے۔ فاضل جج نے لکھا ہے کہ پولیس اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کا فرض انسانی حقوق کو تحفظ فراہم کرنا ہے اور یہ ان کی آئینی ذمہ داری ہے ناکہ شہریوں کے انسانی حقوق کو پامال کرنا ہے۔

چیف جسٹس اطہر من اﷲ نے ریمارکس دیے کہ وفاقی حکومت کو چاہیے کہ بلوچ طلبہ کو آواز اٹھانے کا فورم مہیا کرے اور ان کی بات سنے۔ انہوں نے کہا کہ وزیر اعظم یا کسی وزیر کو احتجاجی کیمپ پر جا کر احتجاجی طلبہ سے بات کرنی چاہیے تھی۔ اس موقع پر اٹارنی جنرل خالد جاوید نے کہا کہ ایسا نہیں ہونا چاہیے تھا، میں معافی مانگتا ہوں۔ جسٹس اطہر من اﷲ نے گزشتہ سال لاپتہ افراد کی تعریف کا تعین کرتے ہوئے کہا تھا کہ لاپتہ شخص وہ ہے جس کو ریاستی ادارے اغواء کریں۔

ہندوستان میں گزشتہ صدی کے آغاز کے ساتھ آزادی کے حصول کے لیے کئی سیاسی تحریکیں چلیں۔ خلافت تحریک میں مسلمانوں اور ہندوؤں کی قیادت شریک تھی۔ مہاتما گاندھی، مولانا محمد علی جوہر اور ابوالکلام آزاد کی قیادت میں ہندوستان کے ہر شہر میں احتجاجی جلسے ہوئے اور خلافت کو بچانے کے لیے سیاسی رہنما اور سیاسی کارکن نعرے لگاتے رہے۔ انگریز حکومت نے نعرے لگانے اور نعرے لکھنے کو سنگین جرم قرار دیا ، یوں ہزاروں افراد کے خلاف نعرے لگانے پر مقدمات درج ہوئے۔

ان میں سے بہت سے افراد کو قید وبند کی سزائیں دی گئیں۔ کانگریس نے ’’ہندوستان چھوڑ دو‘‘ “Quit India Movement” شروع کی۔ یہ زیادہ وسیع پیمانہ پر پورے ہندوستان میں پھیل گئی۔ ہر چھوٹے بڑے شہر میں روزانہ جلوس نکالے جانے لگے۔ انگریز حکومت نے انڈین پینل کوڈ میں دفعہ 144شامل کی۔ اس دفعہ کے تحت متعلقہ علاقہ کا ڈپٹی کمشنر کسی فرد کے خلاف نعرے لگانے ، جلوس لگانے پر گرفتاری کے احکامات جاری کرتا تھا۔ ان دونوں تحریکوں میں محض نعرے لگانے پر لاکھوں لوگوں کو قید کی صعوبتیں برداشت کرنی پڑیں، ہندوستان تقسیم ہوا۔ نئی آزادی ایکٹ کے تحت وہ تمام قوانین جو برطانوی ہند کے دور میں نافذ تھے نئی ریاست پاکستان میں نافذ ہوئے۔

اگرچہ ملک کے بانی بیرسٹر محمد علی جناح نے زندگی کا ایک حصہ انسانی حقوق کی جدوجہد میں گزارا تھا مگر نئی پاکستانی ریاست کا انتظام برطانوی ہند حکومت کی تربیت یافتہ بیوروکریسی نے سنبھال لیا جس کی بنیادی ٹریننگ شہریوں کے حقوق کو پامال کر کے ریاست کی اطاعت پر مجبور کرنا تھا، یوں جب بھی سیاسی جماعتیں احتجاج کرتیں، مزدور تنظیمیں اپنے حقوق کے لیے جلوس جلسے کرتیں، طلبہ تنظیمیں اور منتخب طلبہ یونین کے اراکین جلسے جلوسوں میں اپنے مؤقف کا اظہار نعرے لگا کر کرتے تو وزارت داخلہ کے سیکریٹری اپنے ماتحت صوبوں کے سیکریٹری داخلہ کو ہدایات جاری کرتے کہ حکومت مخالف جلوس جلسے نہ ہوں ، ہر ضلع کے ڈپٹی کمشنر مستعد ہوجاتے۔

انسانی حقوق کی تاریخ پر نظر رکھنے والے محققین کا کہنا ہے کہ آزادی کے بعد سے اب تک لاکھوں افراد کو محض نعرے لگانے پر پولیس اور خفیہ ایجنسیوں اور دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکاروں کا تشدد برداشت کرنا پڑا۔ مہینوں تھانوں کے لاک اپ اور برسوں جیلوں میں اپنے ضمیر کی آواز کی سزا پانی پڑی۔ جنرل ضیاء الحق کے مارشل لاء دور میں تو فوجی عدالتوں نے تحریک بحالی جمہوریت میں شریک ہونے والے سیاسی رہنماؤں اور کارکنوں کو اسی جرم میں چھ ماہ سے ایک ماہ قید اور کوڑوں کی سزائیں بھی دی تھیں۔

سابق وزیر اعظم محمد خان جونیجو کے دور میں سیاسی سرگرمیوں پر عائد پابندیاں ختم کردی گئی تھیں۔ بے نظیر بھٹو اور میاں نواز شریف کے ادوار میں یہ آزادی برقرار رہی۔ جنرل مشرف کے آخری سال وکلاء کی تحریک میں دفعہ 144کا قانون مسلسل استعمال ہوا مگر 2008ء سے 2018ء تک برسر اقتدار حکومتوں نے انسانی حقوق کا احترام کیا مگر موجودہ دور انسانی حقوق کی پامالی کا دور ثابت ہوا۔ جسٹس اطہر من اﷲ نے تو اپنا بنیادی فرض ادا کیا مگر اب ذمہ داری پارلیمنٹ پر عائد ہوتی ہے۔

1973ء کے آئین میں انسانی حقوق کے باب میں واضح طور پر انسانی حقوق کا تحفظ کیا گیا ہے۔ اس مہینہ حزب اختلاف کی جماعتیں تحریک عدم اعتماد کے ذریعہ عمران خان کی حکومت کے خاتمہ کے لیے کوشاں ہیں، مگر سندھ میں پیپلز پارٹی کی حکومت سندھ اسمبلی کے سامنے ایک ماہ تک دھرنا دینے والے احتجاجیوں کا مطالبہ پورا کرنے میں ناکام ہے۔ پیپلز پارٹی، مسلم لیگ ن اور جمعیت علماء اسلام کی قیادت کا فرض ہے کہ اس بات کا عہد کریں کہ اگر وہ برسر اقتدار آجائیں تو اس تاریخی فیصلہ کے پورے پاکستان میں عملی اطلاق کے لیے واضح لائحہ عمل اختیار کریں گی

================================
https://www.express.pk/story/2298407/268/
==================